ColumnNasir Naqvi

حکم کس کا چلے گا؟ ۔۔ ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

پنجاب میں حکومت پی ٹی آئی کی ہے لیکن وزیراعلیٰ پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے پرویز الٰہی ہیں ۔ 21رکنی کابینہ ان کی ہے لیکن یہ سب کے سب پی ٹی آئی کے ہیں۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بھی تحریک انصاف کے ہیں کیونکہ ایوان میں ان کی نشستیں زیادہ ہیں۔ ان دونوں نے بڑی معرکہ آرائی کے بعد وزیراعلیٰ حمزہ شہباز سے تخت پنجاب چھینا پھر بھی خطرہ لاحق ہے کہ صاحب بصیرت چودھری شجاعت حسین کا صدارتی کارڈ لنکا نہ ڈھا دے۔ چودھری پرویز الٰہی کا یہ دوسرا دور وزارت اعلیٰ ہے اور ان کا ماضی کا ریکارڈ بھی قابل فخر ہے لیکن اس مرتبہ ’’وقت‘‘ نے انہیں عجیب امتحان میں ڈال دیا ، جب عثمان بزدار کی چھٹی ہونے لگی تو عمران خان نے اپنے اتحادیوں اور پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی کو استعفیٰ دینے کی بات کی تھی پھر بھی چودھری پرویز الٰہی ڈٹ گئے کہ سیاسی تبدیلی کا مقابلہ سیاست سے کریں گے۔ ایسے میں سب نے لڑائی مارکٹائی سے بھرپور ایک فلم پنجاب اسمبلی میں دیکھی، اسمبلی کا ہیرو سپیکر مرہم پٹی کے بعد بھی پْرعزم رہا لیکن ولن حمزہ شہباز ہیرو بن کر ابھرا،ہر فلم کی طرح اس فلم کا ہیر و ہی فتح یاب ہوا، وقتی ہیرو شکست کی صورت میں خاموشی سے تخت اقتدار سے دور بلکہ ملک سے دور اپنے قائد اور تایا ابا کی گود میں لندن جا بیٹھے۔ اب کہانی میں نیا موڑ آ چکا ہے ’’ہیرو‘‘ کو ہیرو بنانے والوں کو یاد آ گیا کہ ایوان کی حقیقی طاقت تو ہمارے پاس ہے پھر ہم دس نشستوں والے کو ’’وزیراعلیٰ‘‘ صرف اسی صورت میں برداشت کریں گے کہ وہ ہماری ہاں میں ہاں ملائے، ہیرو نے و قت اور حالات کے تناظر میں کسی حد تک رضا مندی بھی کر لی لیکن دل سے تسلیم نہیں کیا، وہ آمرانہ دور کا عادی تھا۔ صدر مشرف نے اس کا پورا ساتھ اس لیے دیا تھا کہ اسے اپنے پاک وطن کی وردی سے بہت عقیدت و محبت تھی اس لیے ’’چودھری برادران‘‘ نے پرویز مشرف کو وردی سمیت دس مرتبہ صدر بنانے کی ٹھان رکھی تھی حالانکہ تمام سیاسی پارٹیاں خلاف تھیں۔ پاکستان کی حقیقی آزادی کے متوالے کھلاڑی خان اعظم نے بھی اسی جذبے سے آمر اور زبردستی کے صدر پرویز مشرف کو ریفرنڈم میں جتوایا تھا کہ اس نے انہیں بھی وزیراعظم کی کرسی دینے کا ’’لولی پاپ‘‘ دے رکھا تھا لیکن جلد پتہ چل گیا کہ یہ تو ٹرک کی بتی ہے انہوں نے تو چودھری شجاعت حسین کو 45روزہ وزیراعظم بنا کر کرسی شوکت عزیز کے حوالے کر دی تھی اس مایوسی میں بھی وہ سردھنتے رہے، پیپلز پارٹی ’’جمہوریت بہترین انتقام‘‘ کے حوالے سے جدوجہد کرتی رہی اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد نہ صرف اقتدار میں آگئی بلکہ گفت و شنید اور مشاورت سے زبردستی کے صدر کو بھگانے میں کامیاب ہو گئی۔ اس الیکشن میں مسلم لیگ قاف امید سے تھی کہ وہ حکومت بنائے گی لیکن ایک زرداری سب پر بھاری نکلا اور اپنی مفاہمتی پالیسی میں مسلم لیگ قاف کو بھی قائل کرنے میں کامیاب ہوا۔ پھر چودھری پرویز الٰہی نے نائب وزیراعظم کا منفرد عہدہ بھی حاصل کیا، آج کی بحرانی سیاست میں بھی زرداری صاحب نے چودھری برادران کے سیاسی دشمن شریف برادران کوچودھری پرویز الٰہی کی بطور وزیراعلیٰ نامزدگی پر
رضا مند کر لیا تھا لیکن چودھری پرویز الٰہی اپنے ہونہار صاحبزادے مونس الہٰی کے مشورے پر مبارک باد وصول کرنے اور مٹھائی کھانے کے بعد بنی گالہ پہنچ گئے۔ راتوں رات کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کوئی نہیں جانتا۔ ردعمل میں ’’چودھری برادران‘‘ کا تاریخی ساتھ ختم ہو گیا۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ ’’پیرانہ سالی‘‘ میں اقتدار کی خاطر تمام خاندانی اقدار اور روایات کا گلا گھونٹ دیا گیا، ایک ہی چھت کے نیچے بسنے والوں کی راہیں جدا ہو گئیں۔
چودھری پرویز الٰہی اورچودھری مونس الہٰی نے اپنا ٹارگٹ حاصل کر لیا۔ دوسری مرتبہ وزیراعلیٰ بن گئے۔ لیکن ابھی قدم قدم پر ان کے امتحان باقی ہیں۔انکے قریبی ذرائع کے مطابق چودھری پرویز الٰہی کہتے ہیں انہیں ہر صورت عمران خان اور تحریک انصاف کو برداشت کرنا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ابھی کھلاڑیوں کو بہت کچھ سکھانا پڑے گا لیکن کابینہ عمران کے حکم سے بنی، انہوں نے ہر ہفتے دو مرتبہ لاہور آنے کی منصوبہ بندی کی ہے پہلی بار آئے تو سیدھے وزیراعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہو کر چودھری پرویز الٰہی اور مونس الہٰی کو مہمانوں کی طرح سامنے بٹھا کر یہ پیغام دے دیا کہ حکومت ہماری ہے اور تم وزیراعلیٰ، اس حرکت پر خان اعظم کو زبردست تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ میڈیا کو کچھ نہیں سمجھتے اس لیے کہ ان کی ’’جمع تفریق‘‘ میں صحافی تو بکائو مال ہیں۔ تنقید کا نشانہ بنانے والے لفافہ گروپ کے شاہکار ہیں۔ حقیقی دور سو شل میڈیا کا ہے۔ اس لیے انہیں فکر نہیں کہ ان کا سوشل بریگیڈ بہت مضبوط اور وفادار ہے۔ اس لیے انہیں کسی کی ضرورت نہیں، چودھری پرویز الٰہی ہر کام سابق وزیراعظم کی ہدایت پر کر رہے ہیں۔ اب انہیں پیغام دیا گیا ہے کہ تاجر برادری سے مذاکرات کر کے ان کے مسائل کو فوقیت دی جائے، اس سے پہلے بھی حمزہ شہباز کے فلاحی منصبوں میں تبدیلیاں کر کے انہیں تیزی سے مکمل کرنے کا حکم بھی دیا جا چکا ہے۔ اس سلسلہ میں 1ملین ٹری، رنگ روڈ اور نالہ لئی کے لیے بھی خصوصی اجلاس بھی کیے گئے۔
ابھی چودھری پرویز الٰہی اس کشمکش سے نہیں نکلے تھے کہ پنجاب میں حکم کس کا چلے گا؟ سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے پنجاب کابینہ کا اجلاس طلب کر لیا، وزیراعلیٰ کی حیثیت سے یہ فیصلہ پہلے تو خواب لگا لیکن جونہی یقین آیا تو وہ سیخ پا ہو گئے فوراً بنی گالہ کی گھنٹیاں بجا دیں۔ یقیناً غصے میں کہا ہو گا خان اعظم اپنے کارِ خاص فواد چودھری کو سمجھا دیں’’حد ادب‘‘ ۔ بس بھئی بس چیف صاحب، وزیر اعلیٰ میں ہوں اور میں عثمان بزدار نہیں ہوں۔‘‘ جواب میں اجلاس ملتوی ہو گیا۔ اللہ بڑا بے نیاز ہے اس نے اس ناانصافی پر چودھری پرویز الٰہی کو سلپ کا کیچ پکڑا دیا، شہباز گل چیف آف سٹاف بنی گالہ اپنی مادر پدر آزاد گفتگو میں دھر لیے گئے۔ وزیراعلیٰ نے نہ صرف مذمت کی بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ پاک فوج اور قومی اداروں کے خلاف ایسی بات صرف ملک دشمن ہی کر سکتے ہیں۔ ردعمل میں سب نے دیکھا جب ہتھکڑیوں میں شہباز گل کو ریمانڈ کے لیے عدالت لایا گیا تو تحریک انصاف کی قیادت میں سے کوئی ایک بھی وہاں نہیں آیا۔ اس لیے کہ سب جانتے ہیں کہ شہباز گل کی ہرزہ سرائی پر جس نے بھی ساتھ دیا اس کے گلے پڑ سکتی ہے کیونکہ ہر کسی کو یہ خبر بھی مل گئی ہے کہ اب وفاق اور پنجاب میں گرفتاریوں کا کھیل شروع ہونے والا ہے۔ وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے صاحبزادے اور پرنسپل سیکرٹری محمد خان بھٹی کے نام پہلی لسٹ میں موجود ہیں جبکہ فارن کرنسی اکائونٹ کے کھاتے میں اسد عمر، شاہ محمود قریشی، اسد قیصر،پرویز خٹک اور فواد چودھری کے نام بھی مستقبل کے اسیروں میں شامل ہیں۔ خان اعظم ساڑھے تین سالہ دور اقتدار کی بھول بھلیوں میں اتنے چالاک ہو چکے ہیں کہ انہوں نے وفاق سے بچنے کیلئے بنی گالہ کو وزیراعلیٰ پنجاب کا کیمپ آفس بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اسی طرح اپنی نااہلی کی صورت میں پارٹی سربراہ بنانے کے لیے بھی ایک پرچی ان کی جیب میں موجود ہے۔ یہ بات خان صاحب نے سابق خاتون اول کی موجودگی میں کی اس لیے اگر آپ کی ہنسی نہ نکلے تو میں بتا دوں اردگرد کے لوگوں کے اندازے کے مطابق یہ نام نامی حضرت عثمان بزدار کا ہو گا کیونکہ ان کی بطور وزیراعلیٰ نامزدگی بھی’’ بشریٰ بی بی‘‘ نے ہی کی تھی۔ اسکی وجہ صرف یہی ہے کہ ان جیسا بے ضرر کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ بہرکیف موجودہ حالات تحریک انصاف کو زیادہ اور مسلم لیگ قاف کے کارکنوں کو خاصی پریشانی ہے۔ اگر یہی معاملات رہے تو حکم کس کا چلے گا چودھری پرویز الٰہی کا یا پھر تحریک انصاف کے چیئرمین خان اعظم عمران خان کا؟
اگر موجودہ سیاسی بحران کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ ابھی معاملات سدھرے نہیں ہیں، فارن فنڈنگ اور مسلم لیگ قاف کی صدارت کا کیس کسی لمحے بھی ساری کہانی کو پلٹ سکتا ہے یعنی راوی ابھی تک کسی حال میں بھی چین نہیں لکھ رہا۔ وفاق گرفتاریوں کی تہلکہ انگیزی کی طرف بڑھ رہا ہے اور پنجاب کے آئی جی فیصل شاہکار نے بھی ایک فہرست تیار کر رکھی ہے۔ ماضی میں بھی پنجاب سے نواز شریف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے وفاق میں پریشانی پیدا کی تھی اب وہی کہانی دہرائی جائے گی۔ لہٰذا سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ابھی اس بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ حتمی فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے کہ حکم کس کا چلے گا؟ ویسے بھی ابھی تو ’’توشہ خانہ‘‘ بھی ظلم ڈھا سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button