ColumnQadir Khan

راوی میں سیلاب کا خطرہ ۔۔ روشن لعل

روشن لعل

 

کوئی تمہید باندھے بغیر بتایا جارہا ہے کہ را قم کو آئندہ ماہ کے دوران دریائے راوی میں سیلاب کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ راوی میں سیلاب کا خطرہ محسوس کرنے کا پس منظر یہ ہے کہ ایک معاہدے کے تحت بھارت خریف کے موسم میں پاکستان کو ان دریائوں میں پانی کے بہائو کا ڈیٹا فراہم کرنے کا پابند ہے جو مکمل طور پر بھارت کے حصے میں آچکے ہیں مگر وہ ایسا نہیں کر رہا۔ اس معاہدے کے تحت بھارت کودریائوں کے ڈیٹا کی پاکستان کو فراہمی کا پابند بنانے کا اس کے علاوہ اورکوئی مقصد نہیں تھا کہ پاکستان کی طرف بہنے والے دریائوں میں اگر سیلاب کا خطرہ پیدا ہو جائے تو پاکستانی حکام سیلاب سے تحفظ کے پیشگی انتظام کر سکیں۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کو دریائوں کے ڈیٹا کی فراہمی کا سلسلہ کئی برسوں تک بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہا مگر گزشتہ کچھ برسوں سے بھارتی حکومت یا تو پاکستان کو دریائوں کا ڈیٹا فراہم ہی نہیں کررہی اور اگر فراہم ہوتا بھی ہے توتسلسل سے نہیں۔ پاکستانی حکام کا خیال ہے کہ ممکنہ سیلاب کے دنوں میں پاکستان کو دریائوں کا ڈیٹا فراہم نہ کرنے کا بھارتی مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کو ڈیٹا فراہم نہ کرنے کے باوجود کچھ عرصہ تک پاکستان پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہو ا کیونکہ جس ڈیٹاکی بھارت نے براہ راست فراہمی بند کی پاکستان نے اسے بھارتی ویب سائٹس سے حاصل کرنا شروع کردیاتھا۔جب بھارتی حکومت نے یہ دیکھا کہ دریائوں کا ڈیٹا فراہم نہ کرنے سے پاکستان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا تو اس نے ایسا انتظام کر دیا کہ پاکستان میں ایسی کوئی بھارتی ویب سائٹ نہ کھل سکے جس پردریائوں، ہیڈورکس اور ڈیموں کا ڈیٹا درج ہو۔ بھارت کی اس حرکت سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ کچھ بھارتی اداروں کو بھی ڈیٹا تک رسائی میں مشکلات پیش آئیں۔ اپنے لوگوں کی مشکلات کا ازالہ کرنے کیلئے بھارت نے دریائے ستلج پر بھاکڑا ڈیم اور دریائے بیاس کے پونگ ڈیم کا ڈیٹا تو ایک ویب سائٹ کے ذریعے نشر کرنا شروع کر دیا مگر دریائے راوی پر موجودرنجیت ساگرڈیم کا ڈیٹا خفیہ ہی رکھا۔ بھارت اگربھاکڑا اور پونگ ڈیم کا ڈیٹا ظاہر اور رنجیت ساگر ڈیم کا ڈیٹا خفیہ رکھ رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماچل پردیش میں موجود بھاکڑا اور پونگ ڈیم سے اگر بھارت کو اس قدر پانی کا اخراج کرنا پڑے جس سے سیلاب آجائے تو اس سیلابی پانی کے بھارت کے بہت سے اضلاع میں تباہی مچا کر پاکستان میں داخل ہونے سے کئی روز پہلے پاکستانی حکام آگاہ ہو جائیں گے کہ بھارت سے کتنا پانی
پاکستان میں داخل ہو سکتاہے ۔ یوں پاکستان کے لیے سیلاب سے نمٹنے کے خاطر خواہ انتظامات کرنامشکل نہیں ہے۔دریائے راوی پر موجود رنجیت ساگر ڈیم پاکستان کے اس قدر قریب ہے کہ اگر بھارت کو اس ڈیم سے اچانک پانی چھوڑنا پڑے تو پاکستان میں کسی بھی طرح کے حفاظتی انتظامات کرنا ممکن نہ ہو گا پاکستانی حکام کا خیال ہے کہ بھارت اسی وجہ سے پاکستان کو رنجیت ساگر ڈیم کا ڈیٹا فراہم نہیں کر رہا۔
راوی پربنائے گئے مادھو پورہیڈورکس کا رنجیت ساگر ڈیم سے فاصلہ صرف 30 کلومیٹر ہے۔ مادھوپور ہیڈورکس سے 95 کلومیٹر دور پاکستان میں دریائے راوی کے پانی کی پہلی پیمائش جسٹر کے مقام پر کی جاتی ہے۔ دریائے راوی کا بہائو میلوں تک پاک بھارت سرحد کے ساتھ ساتھ اس طرح ہے کہ یہ دریا بل کھاتا ہوا جزوی یا مکمل طور پر کبھی پاکستان اور کبھی بھارت میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ پاکستان میں واقع راوی سائفن کے بالائی حصہ تک جاری رہتا ہے اور اس کے بعد راوی مکمل طورپرپاکستانی علاقوں سے گذرتا ہے۔ یہاں یہ تفصیل بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر بھارت کی طرف سے رنجیت ساگر ڈیم سے اچانک چھوڑے گئے پانی کی وجہ سے سیلاب آجاتا ہے تو اس سے بھارت کے صرف تین اضلاع پٹھان کوٹ، گورداسپوراور امرتسر کے کچھ علاقے متاثر ہوں گے مگر پاکستان میں نارووال سے ملتان تک راوی سے ملحقہ تمام علاقے بری طرح اس کی زد میں آجائیں گے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بھارت کے پہاڑی علاقوں میں مکتسر تک دریائے راوی کی کل لمبائی209 کلومیٹر اورڈھلوان 71 فٹ فی کلو میٹر ہے۔ دریائے راوی کا رنجیت ساگر ڈیم سے مادھو پور ہیڈ ورکس تک کا فاصلہ قریباً30 کلومیٹر اور یہاں فی ہزار فٹ ڈھلوان تین اشاریہ اٹھائیس فٹ ہے۔ مادھوپور سے جسڑ تک کا فاصلہ 95کلومیٹراور ڈھلوان فی ہزار فٹ میں ایک اشاریہ اٹھارہ فٹ تک ہے ۔ جسڑ کے مقام سے دریائے چناب سے ملنے تک دریائے راوی کی فی ہزار فٹ ڈھلوان صفر اشاریہ گیارہ فٹ سے صفر اشاریہ تیس فٹ تک رہتی ہے۔
سطور بالا میں دریائے راوی کی جو ڈھلوان بیان کی گئی ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر اس دریا سے ملحقہ بھارتی پہاڑی علاقوں میں شدید بارشیں ہوتی ہیں تو وہاں کی شدید ڈھلوان کی وجہ سے پانی انتہائی تیزی سے رنجیت ساگر ڈیم تک پہنچے گا اور اگر یہ ڈیم اپنی انتہائی گنجائش تک پہلے سے بھرجا چکا ہو گا تو بھارت اپنے ڈیم کو بچانے کے لیے اس کاپانی پاکستان کی طرف چھوڑنے میں ذرا دیر نہیں لگائے گا۔ یہ ڈیم 1732 فٹ اونچا ہے جس میں1724 فٹ اونچائی تک ایک اشاریہ نو صفر ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ رنجیت ساگر ڈیم کی موجودہ صورت حال جاننے کیلئے انٹر نیٹ پر جگہ جگہ ٹکریں مارنے سے صرف یہ معلوم ہو سکا ہے کہ اس ڈیم میں 4 اگست 2022 کو1694.27 فٹ اونچائی تک پانی بھرا جا چکا ہے ۔ 4 اگست سے پہلے رنجیت ساگر ڈیم کا جو ڈیٹا دستیاب ہوا وہ 17 جولائی 2022 تک کا ہے ۔ اس تاریخ کوڈیم میں ذخیرہ کیے گئے پانی کی اونچائی 1663.32 فٹ تھی۔ واضح رہے کہ ایک سال قبل 17 جولائی 2021 کو اس ڈیم میں1637.66 فٹ تک پانی ذخیرہ کیا جاسکا تھا۔ گو کہ اس ڈیم میں ابھی مزید 30 فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود مگر پاکستان کے لیے یہ بات تشوشناک ہونی چاہیے کہ تین ہفتے قبل اس ڈیم میں گزشتہ برس کی نسبت 25 فٹ زیادہ پانی ذخیرہ کر لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ تشویش کی بات یہ بھی ہے دریائے راوی کی آبیاری کرنے والے علاقوں میں بھی جنوبی ایشیا کے دیگر علاقوں کی طرح رواں مون سون میںمعمول سے زیادہ بارشوں کی پیش گوئی کی گئی تھی۔
کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگست کے آخر تک رنجیت ساگر ڈیم کے انتہائی سطح تک بھرے جانے پر مون سون کا زورکیونکہ ٹوٹ چکا ہوگا اس لیے موجودہ صورتحال کو زیادہ تشویشناک نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ بات درست ہے کہ اکثر ستمبر تک مون سون کا زور ٹوٹ جاتا ہے مگریاد رہے کہ دریائے راوی میں آخری بڑا سیلاب ستمبر1988 میں اس وجہ سے آیا تھا کیونکہ اس مہینے کے آخر میں مون سون جاتے جاتے دریائے راوی کے پہاڑی علاقوں میں انتہائی غیر معمولی بارشیں برسا کر گیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button