ColumnMazhar Ch

آزادی کے 75برس ۔۔ مظہر چوہدری

مظہر چودھری

 

قوموں کی زندگی میں آزادی کے 75برس بہت ہوتے ہیں ۔جن قوموں نے ترقی کرنی ہو، وہ آزادی کے پہلے پچاس سالوں میں ہی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جاتی ہیں یا پھر کم ازکم وہ روڑ میپ ضرور بنا لیتی ہیں جو انہیں ترقی و خوش حالی کی منزل پر چند سالوں میں لے جانے میں معاون ومددگار ثابت ہوتا ہے۔ ہمیں آزادی حاصل کیے پون صدی ہو گئی ہے لیکن ترقی و خوش حالی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کی بجائے بار بار ہم دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے بھارت کا شمار اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کے طور پر ہوتا ہے جب کہ ہم سے دو سال بعد آزاد ہونے والا چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے۔بھارت اور چین سے موازنہ تو چلیں رہنے ہی دیں، آج سے اکیاون برس قبل ہم سے آزادی حاصل کرنے والا بنگلہ دیش جی ڈی پی، فی کس آمدنی، ایکسپورٹس اورزرمبادلہ کے ذخائر میں ہم سے کافی آگے ہے۔معاشی اشاریوں میں آگے نکل جانے کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش تعلیم، صحت اور انسانی ترقی کے اشاریوں میں بھی ہم سے کہیں آگے جا چکا ہے۔بنگلہ دیش کی شرح خواندگی 88 فیصد جب کہ ہماری62 فیصد ہے۔ بنگلہ دیش میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات کا تناسب 25فیصد جب کہ پاکستان میں یہ شرح59 فیصد ہے۔بنگلہ دیش میں اوسط عمر72سال جبکہ پاکستان میں67سال ہے۔ پائیدار ترقی کے حوالے سے بنگلہ دیش دنیا میں 109 ویں جب کہ پاکستان 129نمبر پر ہے۔ بنگلہ دیش کی 20فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جب کہ ہماری 35 فیصد سے زائد آبادی غربت کی لائن سے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔
آزادی کے75برسوں میں ہماری شرح خواندگی 75فیصد ہی ہو چکی ہوتی تو ہم کسی حد تک مطمئن ہو سکتے تھے۔قیام پاکستان کے وقت خواندگی کی شرح 10سے 12فیصد کے درمیان تھی۔اگرشرح خواندگی میں ہر سال ایک فیصد بھی اضافہ ہوتا رہتا تو اس وقت ہماری85 فیصد سے زائد آبادی خواندہ ہوتی ۔نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ کہ قوم کو تعلیم سے بہرہ ور کرنے کے معاملے میں ریاست وحکومت کے بڑوںنے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔شرح خواندگی میں پیچھے رہنے کی ایک بڑی وجہ آبادی کا تیز رفتاری سے بڑھتے رہنا بھی ہے ۔اگر ہم بنگلہ دیش کی طرح آبادی کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو محدود وسائل کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو تعلیم دینے کے قابل ہو سکتے تھے۔بنگلہ دیش کی ترقی کا ایک اہم فیکٹر آبادی کو کنٹرول کرنے میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔بنگلہ دیش کے قیام کے وقت اکیلے مشرقی صوبے(مشرقی پاکستان)کی آبادی باقی ماندہ چار صوبوں(مغربی پاکستان) سے 60لاکھ زیادہ تھی لیکن اس وقت بنگلہ دیش کی آبادی پاکستان کی آبادی سے قریباً 6کروڑ کم ہے۔ ہم آبادی پر کنٹرول نہیں کر پائے ۔ معیشت کا سیدھا سادھا اصول ہے کہ آبادی اور وسائل میں توازن ہونا چاہیے لیکن ارباب اقتدار کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے آبادی اور وسائل میں توازن بری طرح بگڑ چکا ہے۔ہر سال 50لاکھ سے زائد نفوس کے اضافے سے جہاں ایک طرف ہمارے دستیاب وسائل تیزی سے سکڑ رہے ہیںتو وہیں دوسری طرف عوام کی ایک بڑی تعداد کو تعلیم اور صحت کی معیاری سہولیات کی عدم فراہمی سمیت شدید قسم کی غربت، بے روزگاری، غذائی قلت، پینے کے صاٖف پانی کی عدم دستیابی، آلودگی اور پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
کہنے کو تو آزادی حاصل کیے ہمیں 75برس ہو گئے ہیں لیکن تلخ حقائق یہ ہیں کہ ہر گذرتے برس کے ساتھ عالمی طاقتوں اور مالیاتی اداروں کا ہمارے معاشی و سیاسی نظام میں عمل دخل بڑھ رہا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی حکومتوں کی کامیابی کا معیار آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی اداروں اور حلیف ممالک سے زیادہ سے زیادہ قرضوں اور امداد کا حصول بنتا جا رہا ہے۔ہر آنے والی حکومت نہ ختم ہونے والے معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے ایک طرف آئی ایم ایف پروگرام لینے پر مجبور ہو رہی ہے تو دوسری طرف سعودی عرب اور چین سمیت حلیف ممالک سے ادھار تیل یا آسان قرضے کی فراہمی کیلئے دوڑ دھوپ کرتی دکھائی دیتی ہے۔نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور حلیف ممالک سے آسان شرائط پر قرضے یا امداد کے حصول کیلئے آرمی چیف کو مداخلت کرنی پڑ رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ ہم آخر کب تک دوست ممالک سے ایسے مانگ تانگ کر گذارہ کرتے رہیں گے ؟آئی ایم ایف پروگرامز بھی آخر تک کب تک ہمیں دیوالیہ ہونے سے بچا پائیں گے؟معیشت میں پائیدار بہتری کیلئے سیاسی استحکام ناگزیر ہوتا ہے جو بدقسمتی سے ہمارے ہاں مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ملک کو آگے کی سمت میں لے جانے کیلئے سیاسی جماعتوں اور مقتدرہ دونوں کو اپنے اپنے رویے اور طرز عمل میں مثبت تبدیلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔
آزادی کے75سال مکمل ہونے پر بھارت کا خلائی ادارہ ’’آزادی سیٹ‘‘نامی سیٹلائٹ لانچ کر کے ملک کی750طالبات کے خواب کو خلا میں لے جانے کے مشن کی تکمیل کر رہا ہے ۔ اس سیٹلائٹ کی خاص بات ملک بھر کے75سرکاری سکولوں کی 750 طالبات کو اس پراجیکٹ سے جوڑتے ہوئے لڑکیوں میں سائنسی وتخلیقی سوچ پیدا کرنا ہے۔75 ویں یوم آزادی پر بھارتی خلائی ادارے کی جانب سے لڑکیوں میں سائنسی سوچ کو بیدارکرنے کی غرض سے سیٹلائٹ کا لانچ کیا جانا ہمارے ارباب اقتدار کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کا باعث بننا چاہیے۔75ویں یوم آزادی پر ملک کو آگے کی سمت میں لے جانے کیلئے یوں تو ارباب اقتدارعالمی ٹورازم کو فروغ دینے سمیت کئی شعبوں میں بہتری کی کوششیں شروع کر سکتے ہیں لیکن ارباب اقتدار کی سب سے پہلی ترجیح تعلیم و تحقیق اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کیلئے سنجیدہ اقدامات ہونے چاہیں۔قبائلی افکار سے بندھے معاشرے کے باوجود ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ ریسرچ و جستجواور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہمارے ہاں بہت سے ذہین و فطین افراد نے ملکی و عالمی سطح پر نمایاں کوششیں کی ہیںلیکن سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے سرکاری سطح پر ٹھوس اقدامات نہ کئے جانے پر ہم مجموعی طور پر اس میدان میں بہت پیچھے ہیں۔جدید علوم کے حصول اورسائنس و ٹیکنالوجی پر مبنی صنعت کو پروان چڑھائے بغیرترقی اور معاشی خود کفالت کا خواب دیکھنا فضول ہے۔ملک میں سائنس وٹیکنالوجی کے ارتقاء کیلئے ہمیں ایک طرف اپنے تعلیمی نظام کو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا اور دوسری طرف معاشرے میں شدت پسندی کی راہ ہموار کرنے والے عناصر کی بیخ کنی کر کے سائنسی طرز فکر کو فروغ دینا ہوگا اور یہ دونوں کام ریاست و حکومت کی ترجیحات میں تبدیلی اور سنجیدہ اقدامات کے بغیر ممکن نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button