ColumnKashif Bashir Khan

مماثلت .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

ملکی سیاست کی موجودہ بدترین صورتحال میں مجھے 1970 اور 1993 جیسی مماثلت نظر آ رہی ہے، جو نہایت پریشان کن ہے۔ماضی میں بھی شیخ مجیب الرحمان کو غدار قرار دے کر پابند سلاسل کیا گیا تھا جس کا نتیجہ عوام کے شدید رد عمل کے نتیجے میں نکلا اور پھر اسی ردعمل کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہوا۔ سب کچھ ہونے کے بعد شیخ مجیب الرحمان کو رہا کر دیا گیا اور وہ پاکستان سے پہلے لندن گئے اور وہاں سے بنگال جا کر نئی مملکت بنگلا دیش کے سربراہ بن گئے۔جمہور کیلئے حقوق مانگنے والے کسی بھی سیاسی رہنما کو غدار قرار دینے کی رسم پاکستان میں نئی نہیں۔ خان عبدالولی خان اور لینن ایوارڈ یافتہ عالمی شہرت کے حامل انقلابی شاعر فیض احمد فیض کو بھی حیدرآباد سازش کیس میں برسوں سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا۔ کچھ اسی طرح کا برا سلوک عوامی شاعر حبیب جالب کے ساتھ بھی مختلف حکومتوں میں جمہور کے حقوق مانگنے کے جرم میں مقدمات درج کئے گئے اور ہمیشہ ان کی شخصی آزادی کو سلب کیا گیا۔سندھ کے حقوق کی بات کرنے والے قائد اعظم کے ساتھی جی ایم سید کو بھی ماضی میں ریاستی جبر کو نشانہ بنا کر غدار ثابت کرنے کی بھرپور حکومتی کوششیں کی گئیں۔اسی طرح اسماعیل راہو اور رسول بخش پلیجو جو پاکستان میں مزاحمتی سیاست کے تناظر میں بہت بڑا نام تھے، کو بھی غدار ثابت کرنے کے ہمیشہ کوششیں کی گئیں اور ان شخصیات کی زندگیوں کو جہنم بنایا گیا۔بدقسمتی سے پنجاب کی مٹی نے 75 سال میں کوئی ایسی شخصیت پیدا نہیں کی جو پنجاب کے عوام کے حقوق کی بات کرسکے۔یہ بہت بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ پنجاب میں حنیف رامے کے علاوہ آج تک کوئی ایسا سیاسی رہنما سامنے نہیں آیا جس نے پنجاب کا مقدمہ لڑا ہو۔ قارئین کو سمجھنا ہو گا کہ پنجاب یا کسی بھی صوبہ کے عوام کے حقوق کی بات کرنا غداری کے زمرے میں ہرگز نہیں آتا۔اس وقت بلوچستان میں جو کچھ سالہا سال سے چل رہا ہے، اس کے پیچھے بھی بلوچ عوام کی محرومی اور ان کے حقوق کی سلبی ہے۔ماضی میں بلوچستان کے سرداروں نے ہر حکومت سے ساز باز کر کے بلوچستان میں ہر قسم کی ترقی اور عوام کو حقوق کی فراہمی غضب کئے جس کا نتیجہ آج ہم بھرپور عسکری کارروائیوں اور اقدامات کے باوجود سہ رہے ہیں۔ماضی میں پاکستان کے مشرقی حصہ بھی اپنی محرومیوں اور حقوق سلب کرنے ہر احتجاج کو طاقت سے کچلنے کی کوشش تاریخ کا بڑا سانحہ برپا کر چکا۔آئین پاکستان کے مطابق افواج پاکستان، پاکستان کی سیاست میں کسی بھی قسم کا حصہ نہیں لے سکتی اور ہر ذی شعور پاکستانی آئین پاکستان کی اس شق کو مانتے اور امید کرتے چلے آ رہے کہ
افواج پاکستان بھی آئین پاکستان کے تابع رہتے ہوئے دنیا کی بہادر ترین فوج کو سیاست سے دور رکھے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان میں مختلف اوقات میں مارشل لاء لگتے رہے یہ صورتحال نہایت افسوسناک اور خطرناک تھی اور ہے۔بات شروع ہوئی تھی پاکستان کی موجودہ بدترین سیاسی صورتحال کی۔

یہ بھی پڑھیے

تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گل کو جس طرح بنی گالہ کے باہر سے بہیمانہ طریقے سے بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑیوں والوں سفید کپڑوں میں ملبوس اسلحہ سے لیس افراد نے بغیر کسی وارنٹ کے گرفتار کیا اس نے ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال کا عندیہ دے دیا ہے۔اگر آج عوام کی اکثریت کی رائے دیکھیں تو ان کا مطالبہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں افواج پاکستان کے خلاف کھلے عام جلسوں اور میڈیا پر زہر اگلنے والوں پر غداری کے مقدمات فوری درج کر کے انہیں گرفتار کیا جائے۔زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں قریباً ایک دو سال قبل ہی گجرانوالا میں میںپاک فوج کے بہادر جرنیلوں کا نام لے کر ناقابل برداشت زبان استعمال کی گئی لیکن وہ آج بھی آزاد پھر رہے ہیں۔ایک سال قبل جو کچھ سپہ سالار پاک فوج کے بارے میں کہاگیا وہ نہایت شرمناک اور بھارت کو سپورٹ کرنے کے مترادف تھا لیکن اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
1993 میں بھی میاں نواز شریف کی حکومت سپریم کورٹ نے بحال کی تو پنجاب میں ان کی حکومت ختم ہو گئی اور گورنر ہاؤس لاہور پر رینجرز کے ذریعے حکومت کے قبضے کی کوشش نے مرکز اور پنجاب کے اداروں کو آمنے سامنے کھڑا کر کے خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کر دی تھی اس وقت کے گورنر پنجاب چودھری الطاف جو فواد چودھری کے انکل تھے، نے فوراً افواج پاکستان سے رابطہ کر کے فوج کے دستے بلوا کر اس خوفناک تصادم کو رکوایا ۔اس کے بعد نئے انتخابات کا ڈول ڈالا گیا لیکن آج سوشل میڈیا کا دور ہے اور میڈیا پر قدغن صرف پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر لگایا جا سکتا ہے لیکن سوشل میڈیا پر کوئی قدغن لگانا ناممکن ہو چکا ہے۔ایسے میں ماضی میں جو اقدامات مختلف سیاسی شخصیات کے خلاف کئے جاتے تھے ان کو آج دہرانا ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹر شہباز گل کی گرفتاری ، فواد چودھری۔اسد عمر، مراد سعید اور علی زیدی وغیرہ کی گرفتاری کی خبریں اس حقیقت کی غماز ہیں کہ مرکزی حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں کیونکہ جب کوئی حکومت مخالفین کا سیاسی میدان میں مقابلہ نہیں کرسکتی تو وہ پھر گرفتاریاں اور سیاسی انتقام شروع کر دیتی ہے تو معاملات اس کے ہاتھ سے نکل چکے ہوتے ہیں۔کسی بھی حکومت کا چہرہ اس کے وزراء ہوتے ہیں۔سانحہ لسبیلہ کے بعد سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف تحریک انصاف کے جعلی اکاؤنٹس چلا کر فوج کو بدنام کرنے کے انکشاف پر خوفناک کھیل کھیلا گیااور بغاوت کا مقدمہ درج کروا کر ملک میں صوبوں اور مرکز کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔اس سے پہلے ٹی ایل پی کا فیض آباد میں جلسہ منعقد کرانے کی کوشش کو عمران خان نے جلسہ لاہور میں کرنے کا اعلان کر کے بری طرح ناکام کردیا تھا۔منصوبہ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے جلسہ کے دن پر تشدد کارروائیاں کر کے ان کا الزام تحریک انصاف پر لگانا تھاجو ملکی سلامتی کے تناظر میں ایک خوفناک عمل ہے۔کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی مقبولیت اس وقت انتہاؤں کو چھو رہی ہے اور بغاوت کے جھوٹے مقدمات درج کروانے کو عوام کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دنیا میں حکومت کے فسطائیت کے اقدامات پر بہت زیادہ تشویش ہے اور پنجاب حکومت کا پنجاب پولیس کے دستے بنی گالہ بھجوانے اور بنی گالہ کو وزیر اعلیٰ کیمپ آفس کا درجہ دینے کا معاملہ سامنے آ رہا ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے سانحہ ماڈل ٹاؤن اور 25 مئی کے ذمہ داروں کی فوری گرفتاری کا حکم دے دیا ہے۔پاکستان کی اقلیت کا اکثریت میں تبدیل کرنے کو جمہور نے قبول نہیں کیا اور سیاسی حالات اس وقت تمام تر مشکلات کے باوجود عمران خان کے حق میں ہیں۔ملک اس وقت شدید سیاسی بحران ہے۔ مسلم لیگ نواز سیاسی طور پرپے در پے نقصان اٹھارہی ہے۔ آنے والے دنوں میں خطرناک تماشہ اپنے منطقی انجام کو اگر نہ پہنچا تو پھر خطرہ ہے کہ جمہور معاملات اپنے ہاتھوں میں لے سکتے ہیں۔آج اداروں کو اپنی اپنی حدود میں واپس جانے کی ضرورت ہے کہ اب جمہور کی برداشت ختم ہوتی نظر آرہی ہے اور اگر ایسا ہوا تو پھر سب کچھ تنکوں کی طرح اڑ سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button