ColumnM Anwar Griwal

وزیر ِ تعلیم اور تربیت ؟ .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

پنجاب کی نئی کابینہ ظہور پذیر ہو چکی ہے، وزارتیں بانٹی جا چکی ہیں۔ کسی بھی صوبے میں محکمہ تعلیم کا شمار اہم ترین محکموں میں ہوتا ہے۔ عثمان بزدار کے وزارتِ علیا کے زمانے میں اس اہم محکمہ کا قلمدان مراد راس کے پاس تھا۔ مراد راس خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال شخص ہیں، انہوں نے آتے ہی محکمہ تعلیم کو اپنی رفتار سے چلانے کی کوشش کی، بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔ ایک خاص بات جو اُن کے دور میں دیکھی گئی وہ اُن کا جارحانہ انداز تھا، وہ اساتذہ یا محکمہ کے انتظامی افسران کو بہت جذباتی انداز میں ہدایات دیا کرتے تھے، یا یوں کہیے کہ ڈانٹ ڈپٹ کرنا، سخت سست کہنااُن کی مستقل عادت تھی۔ دھمکی آمیز گفتگو کرنا انہیں مرغوب تھا۔ اُن کا خیال یہی تھا کہ اِن (یعنی اساتذہ کرام وغیرہ ) کو دبا کر رکھیں گے تو یہ کام کریں گے، ورنہ یہ نکمے، نکھٹو اور کام چور وغیرہ ہوچکے ہیں۔وزیر صاحب کی ویڈیوز، تقاریب سے خطابات یا ویڈیو پیغامات سب اُن کے مخصوص انداز کے گواہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں کافی اُتھل پَتھل ہوئی، ایک حکومت آئی، ابھی کابینہ نے حلف اٹھائے ہی تھے کہ کابینہ اٹھا دی گئی۔ نئی حکومت منظرِ عام پر آگئی ۔ مراد راس اُسی شان و شوکت سے دوبارہ اہالیانِ پنجاب کی تعلیمی و اخلاقی معیار کر بہتر کرنے کے لیے میدان میںموجود ہیں۔ چار سالہ تجربہ بھی وہ رکھتے ہیں اور اب دوبارہ آنے کے بعد انتقامی مزاج بھی پہلے سے جارحانہ ہوگا۔ پی ٹی آئی کی نئی یعنی دوبارہ آنے والی حکومت نے ڈپٹی سپیکر پر عدم اعتما د کر دیا تھا، تحریک کامباب ٹھہری، راجہ واثق قیوم نئے ڈپٹی سپیکر منتخب ہو گئے۔ اس موقع پر قوم نے سوشل میڈیا پر اسمبلی کی کارروائی دیکھی، جب سابق ڈپٹی سپیکر کو ’’بے غیرت، بے غیرت‘‘ کہہ کر آوازے کسے گئے، جو صاحب چودھری پرویز الٰہی کے پہلو میں کھڑے ہو کر مندرجہ بالا نعرے لگا رہے تھے، وہ مراد راس ہی تھے، جنہوںنے پنجاب کے سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے کروڑوں بچوں ، اُن کے اساتذہ اور اُن کے والدین کو اخلاقی لیکچر دینے ہیں، اُن

کی تربیت کرنی ہے، انہیں اچھائی کا درس دینا ہے، انہیں بتانا ہے کہ اچھا شہری کیا ہوتا ہے اور اچھے شہری ملک و قوم کے لیے کس طرح مفید ہوتے ہیں۔ انہیں قائل کرنا ہے،بلکہ مجبور کرنا ہے کہ اساتذہ اپنا کردار بہترین بنائیںاور اسی کی روشنی میں بچوں کی کردار سازی کریں۔ مراد راس بہت خوب جانتے ہیں کہ اساتذہ خود عمل کریں گے تو ہی اُن کی شخصیت کا عکس اُن کے طلبہ میں دکھائی دے گا۔

درمیانی وقفہ سے پہلے جب موصوف اِسی وزارت کی ذمہ داری نبھا رہے تھے، تو اُنہوں نےپنجاب حکومت محکمہ تعلیم کے ایک خود مختار ادارہ پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن پر بھی اپنی خصوصی ’’نظرِ کرم‘‘فرما رکھی تھی۔بہترین کارکردگی کے حامل ادارہ کو کرونا کے دو سالوں میں یوں لتاڑا کہ ایسے ہی لگتا تھا کہ سانس ابھی رُکے کہ اب رُکے۔ بہت واضح الفاظ میں فرمایا جاتا کہ یہ ادارہ یقیناً کرپشن میں ملوث ہے۔ جب تک اس کی مکمل چھان پھٹک نہ ہو جائے ادائیگی نصف کر دی جائے، تعمیلِ ارشاد ہوئی۔ کئی ماہ کی غوطہ خوری کے بعد جب مچھلی پتھر چاٹ کر

واپس آئی تو ادائیگیوں کے بقایا جات کی اجازت مرحمت فرمائی، مگر تب تک پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا،کرونا کی مسلسل چھٹیوں کی وجہ سے بہت سے بچے سکول چھوڑ گئے، اُن کی پے منٹ سکولوں والوں کو نہ ملی ، یوں معاشی طور پر یہ سکول بہت بڑے بحران کا شکار ہو گئے۔ اسی دوران وزیر موصوف نے پیف کے چیئرمین کی بھی ایک نہ سُنی ،کہ تب یہی راجہ واثق قیوم فائونڈیشن کے چیئرمین تھے، اور انہی کی پارٹی کے وزیر صاحب انہیں ناکام کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔ پیف کے پارٹنر سکولوں کو بہت اچھی طرح یاد ہے کہ وزیر تعلیم نے کس قدر مخالفت کی اور چیئرمین پیف کس طرح ادارہ کو بچانا چاہتے تھے۔

پنجاب میں بھی کروڑوں بچے سکولوں سے باہر ہیں، ہر حکومت بچوں کو سکولوں میں لانے کے دعوے کرتی ہے، مگر عملاً ایسی کوئی خاص کامیابی نہیں ہوتی۔ چودھری پرویز الہٰی کے پہلے دور میں پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن نے کم فیس والے نجی سکولوں کے ساتھ الحاق کیا تھا، خود مختار ادارہ ہونے کے ناطے ’’بیرونی مداخلت‘‘ نہیں تھی، بہترین نظام تھا، اب بھی ہے اور امید ہے آئندہ بھی بہت اچھا رہے گا۔ مانیٹرنگ کا بہترین نظام ہے، تعلیمی معیار کا جائزہ بھی بہت اچھے طریقے سے ہوتاہے، بہت ہی تھوڑی فیس میں بہت اچھی سہولتیں بچوں کی دی جارہی ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کی تھوڑی سی توجہ سے آٹھ برس سے اضافہ نہ ہونے والی فیسیں بڑھائی جاسکتی ہیں۔ فائونڈیشن کے سکول حکومت کے بڑے مدد گار ہیں، سرکاری سکولوں میں بچے پر دو ہزار روپے سے زائد خرچہ آتا ہے، جبکہ فائونڈیشن کو ساڑھے پانچ سو سے سات سو تک ہی ٹرخایا جا رہا ہے، یہ استحصال ختم ہونا چاہیے۔ وزیرتعلیم کو بھی قوم کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے اچھی تعلیم کے ساتھ بہترین تربیت اور اچھے اخلاق کا درس دینا چاہیے۔ کسی بھی ادارے کا سربراہ خود اچھا ہوگا تو اپنے ماتحت کام کرنے والوں کو اچھا بنا سکتا ہے۔ کسی کو گالی دے کر دعا لینے کا خیال خام ہے اور محال۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button