Ahmad NaveedColumn

کاش افروز شاہ ہمارے پاس ہوتا ۔۔ احمد نوید

احمد نوید

 

اس تحریر کو رقم کرنے سے قبل میں کافی دیر تک سوچتارہا کہ کیا لکھوں اور کیسے شروع کروں۔ ممبئی کے 35سالہ نوجوان وکیل ، افروز شاہ کا کارنامہ اتنا حیرت انگیز ہے کہ میں سمجھ نہیں پا رہا کہ کس طرح سے اُس کے عزم کی تعریف یا ستائش کی جائے ۔ افروز شاہ ممبئی کا رہائشی ہے اور ساحل سمندر کے پاس ہی اُس کا گھر ہے ۔ اُس نے 2015میں فیصلہ کیا کہ وہ ممبئی کے ساحل سمندر کی ہفتہ وار صفائی شروع کرے گا۔افروز شاہ نے ساحل سمندرکی صفائی شروع کرنے سے قبل اپنے 84 سالہ پڑوسی ہربنش ماتھور سے بھی اپنے اس ارادے اور خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ممبئی کے ساحل سمندر کو صاف کرنا چاہتا ہے۔ ہربنش ماتھور جو عمر میں افروز شاہ سے کہیں بڑے اور عمر کے اُس حصے میں تھے جب انسان محنت طلب کام کرنے کے لائق نہیں ہوتا۔ اُنہوں نے افروز شاہ کے عزم کو سراہا اور کہا کہ واقعی ہمیں ممبئی کے ساحل کو صاف کرنا چاہیے اور اس کام میں ، میں بھی تمہارا ساتھ دوں گا۔

افروز شاہ کی یہ خواہش ابھی تک پبلک نہیں ہوئی تھی تاہم افروز شاہ کا کہنا تھا کہ جب وہ صبح اُٹھ کر اپنی کھڑکی سے ساحل سمندر کی جانب دیکھتے تو اُنہیں کچرا ہی کچرا نظر آتا ہے ۔افروز شاہ نے جو سوچا تھا،وہ ناممکنات میں سے تھا ۔ ممبئی کے اس ساحل پر ہزاروں ٹن پلاسٹک اور کچرے کا وسیع میدان دور تک پھیلا ، کچرے کا ریگستان دکھائی دیتا تھا، جسے کوئی انسان صاف کرنا تو درکنار اُس کے قریب کھڑے ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ممبئی کے ساحل پرپھیلا کچراپانچ ہزار ٹن سے بھی زیادہ وزنی تھااور کچرے کی اتنی بڑی مقدار جمع ہونے کی ایک وجہ یہاں آباد اور قائم وہ غیر قانونی کچی بستیاں بھی تھیں ، جن کے پاس صفائی اور نکاسی آب کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگ اپنا کوڑا کرکٹ ساحل پر پھینک دیتے تھے۔

افروز شاہ نے جو کیا وہ ایک طلسماتی اور دیو ملائی کہانی لگتی ہے ۔ اس پہاڑ جیسے بڑے کام کو اکیلے ، تن تنہا اپنے ہاتھوں سے شروع کرنے سے قبل افروز شاہ نے ممبئی کی بہت سی فلاحی تنظیموں اور سرکاری اداروں سے ساحلی پٹی کو صاف کرنے کی درخواست کی۔ افروز کی درخواست کو سنجیدگی سے لینا تو دور کی بات ، فلاحی تنظیموں یا سرکاری اداروں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ ممبئی کے اس ساحل کو صاف بھی کیا جا سکتا ہے ۔ بالآخر افروز شاہ ایک روز اکیلا ہی سمندر پر آبیٹھا اور ہاتھوں سے کوڑا کرکٹ اُٹھانے لگا۔ اس کے ہاتھ میں پلاسٹک کا ٹب تھا اورسامنے کچرے کا سمندر۔ افروز شاہ نے ممبئی کے ساحل کی صفائی کا آغاز کیا تو اُس کے پڑوسی 84سالہ ہربنش ماتھور بھی اُس کے ساتھ شامل ہوگئے ۔

دونوں کی ہفتہ وار صفائی میں کوئی شریک نہیں ہوا۔ پھر دو لوگ اُن کے ساتھ صفائی کے عمل میں شامل ہو گئے ۔ دو سے چار ، چار سے چودہ، چودہ سے چالیس۔ آہستہ آہستہ دوسرے لوگوں میں بھی جذبہ پیدا ہونے لگااور افروز شاہ سے شروع سے ہونے والی صفائی کی یہ مہم ہزاروں افراد کی ایک رضا کار ٹیم کی شکل میں بدل گئی ۔ ساحل کے اردگرد کے لوگ ، سکولوں اور کالجز کے طلبہ ، دفتروں کے ملازم آتے جاتے۔ یہاں کچھ دیر کے لیے رُکتے ، صفائی کی مہم میں اپنے حصے کا کام کرتے اور دوبارہ آگے بڑھ جاتے۔افروز شاہ کے ساتھ رضا کاروں کی اس ٹیم نے ممبئی کے ساحل سے تین سالوں میں 2کروڑ کلوگرام پلاسٹک کا کچرا صاف کیا۔ افروز شاہ کے اس کام کی دھو م د نیا بھر میں پھیل چکی تھی ۔ ممبئی کے اس ساحل سمندر کی صفائی مہم کو اقوام متحدہ نے دنیا کی سب سے بڑی ساحل سمندر صفائی مہم قرار دیا۔ اقوام متحدہ کے کئی عہدے داروں سمیت دنیا کی بہت سی فلاحی تنظیموں سے وابستہ بہت سی نامور شخصیات صفائی مشن کا حصہ بن گئیں۔

اقوام متحدہ کی جانب سے افروز شاہ کو ناقابل یقین کارنامہ سر انجام دینے پرچیمپئنز آف ارتھ ایوارڈ سے نواز ا گیااور ایک امریکی نشریاتی ادارے کی جانب سے انڈین آف دی ائیر ، مین آف دی ائیر 2019 ہیرو آف دی 2019کے ایوارڈ بھی افروز شاہ کو دئیے گئے۔افروز شاہ نے جو کچھ کیا ، وہ ناقابل یقین ہے ۔ انسانی دماغ ، سوچ ، تخیل اور تصور سے بھی باہر ، مگر سچ تو یہ ہے کہ انسان کا پختہ ارادہ سب کچھ ممکن بنا سکتا ہے ۔

پاکستان میں بھی بہت سے مسائل ہیں ہمارے شہروں میں صفائی اور کوڑا کرکٹ کے مسائل ہماری توجہ چاہتے ہیں اور نتیجہ خیز ظرر عمل بھی ۔پاکستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب نے خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور خاص طور پر بلوچستان میں جو تباہی مچائی ۔ اُن متاثرہ ہزاروں لوگوں کی داد رسی کے لیے گنتی کے چند افراد بھی باہرنہیں نکلے۔

خوراک ، پینے کا پانی ، بستر، ادویات ، کتنی ضروریات زندگی کی اُن بے آسرا لوگوں کو ضرورت تھی۔فٹ پاتھ پر بیٹھے اُن متاثرہ خاندانوں کے ہزاروں بچوں کے لیے عارضی سکول بنائے جا سکتے تھے لیکن یہ سب کچھ کرنے اور سوچنے کی زحمت کون کرے ۔ ایک سدا بہار فقرہ ہے نا ہمارے پاس ۔ سیلاب یا کسی بھی آفت سے متاثرہ لوگوں کو جب ہم سڑکوں اور کھلے میدانوں میں بیٹھا دیکھتے ہیں تو فوراً کہتے ہیں ۔

یہ حکومت کیا کر رہی ہے ؟
یہ جملہ اور شکوہ زبان پر لاتے ہوئے ہم کبھی اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے اور نہ ہی اُن متاثرہ ، بے آسرا ، غریب خاندانوں کو امداد کا منتظر دیکھ کر خود سے سوال کرتے ہیں۔
ہم کیا کر رہے ہیں اِن کے لیے ؟
بھارت خوش قسمت ہے کہ اُس کو افروز شاہ جیسا بیٹا ملا۔ کاش پاکستان میں بھی افروز شاہ جیسے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہو جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button