ColumnKashif Bashir Khan

غلاموں کے غلام! ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

پاکستان بنے 75 سال ہو چکے اورقریباً 7 دنوں کے بعد 14اگست کو ہم پاکستان کی آزادی کی 75ویں سالگرہ منائیں گے۔پاکستان کی سالگرہ منانے کے لیے حکومت سے دو ارب روپے کے قریب فنڈ مانگے گئے ہیں جو شاید اب تک انہیں مل بھی چکے ہوں گے لیکن حیران ہونے کی ضرورت نہیں، آج ہم بدترین معاشی دلدل میں نہ پھنسے ہوتے تو یہ یوم آزادی منانے کا فنڈ 8 سے 10 ارب بھی ہو سکتا تھا۔جس ملک کے چاروں صوبے بدترین سیلاب کا شکار ہوں اور اب تک کی سرکاری خبروں کے مطابق اس سیلاب سے ساڑے پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہوں اور ہزاروں مکانات اور لاکھوں ایکڑ پر زراعت برباد ہو گئی ہو، وہاں ایک یا دو ارب کے آزادی فنڈ کی ہی ڈیمانڈ کی جا سکتی ہے۔ مہنگائی، یوٹیلیٹی بلوں اور غربت کے مارے جمہور کے لیے اگر حکومت دو چار ارب سے آزادی کا جشن منانا چاہتی ہے تو جمہور کو حکومت اور اس کی وزیر اطلاعات کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ عوام کی دکھ بھری زندگیوں میں کوئی خوشی لانا چاہتی ہے۔جمہور کو اس آزادی(جو کبھی ملی ہی نہیں)کی سالگرہ کی خوشیاں منانے کا موقعہ دینے پر اتنا تو ان کا حق بنتا ہی ہے۔خیر حکومتی فنڈز کے وحشیانہ استعمال کا رونا تو ہمارا دہائیوں پرانا ہے اور ہم اس رونے دھونے کے علاؤہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔بات آزادی سے شروع ہوئی اور جشن آزادی تک پہنچ گئی۔ آج پاکستان کے جمہور کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟1947میں جب ہم انگریز کی غلامی سے نکلے تھے تو ہم کیا تھے اور آج 75 سال کی آزادی کے بعد ہم کہاں کھڑے ہیں اور کتنے آزاد ہیں؟یہ سوچنے کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ 50 کی دہائی میں جمہور کو جس شخص نے حقوق سے محروم کر کے ان کی آزادی قید کی وہ شخص پاکستان بننے کے بعد پلاٹ مانگتا تھا اور قائد اعظمؒ نے اس کے فعل پر نفرت کی تھی۔70 کی دہائی میں جس شخص نے جمہور کی آزادی کو بری طرح مسل کر رکھ دیا وہ نظام مصطفیٰ ﷺ کی تحریک کے نتیجے میں اقتدار پر قابض ہوا اور پھر اس نے جمہور پر ظالمانہ جبر صرف اور صرف اسلام کے نام پر کیا۔اس کے لگائے ہوئے بدبودار پودے آج بھی ریاست کو پراگندہ کئے ہوئے ہیں اور جمہور کی نا صرف بوٹیاں نوچ چکے بلکہ ان کی زندگیاں مشکل ترین کرتے ہوئے انہیں غلام در غلام بنا کر اپنی آنے والی نسلوں کو بھی جمہور پر مسلط کرنے پر بضد ہیں۔
جمہور پاکستان جنہیں انگریز کے زمانہ غلامی میں کم از کم انصاف تو ملتا تھا آج جس حالت میں ہیں وہ زمانہ غلامی سے بھی بدترین ہے اور ہماری نسلیں چند گروہوں کی غلام بن چکی ہیں۔عام آدمی کو انصاف ملنا ایک خواب بن کر رہ چکاکیونکہ جس ریاست میں عہدے و ادارےبکتے ہوں اور انصاف طاقتور کے گھر کی باندی ہو وہ کیسے آزاد ہو سکتی ہے؟پاکستان کی جمہور کی غلامی کے دور مختلف رہے ہیں اور ہر دور میں جمہور کے ہر قسم کی آزادی پر قدغن لگا کر انہیں زنجیروں میں جکڑا گیا اور ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو بھی روزی روٹی کی دوڑ تک محدود کر دیا گیا۔انگریز جب حاکم تھا تو وہ جمہور کو تقسیم کر کے حکومت کیا کرتا تھا لیکن اس کے بھی کچھ اصول تھے اور عوام یعنی جمہور کو بنیادی آزادیاں حاصل تھیں بلکہ انصاف ضرور ملتا تھالیکن تقسیم ہند کے بعد جمہور پاکستان کوچلانے والوں نے جمہور کو انگریز کی طرز پر بری طرح تقسیم ضرور کیا لیکن ایسا کرتے وہ جمہور کو انصاف دینے کا بنیادی اصول منفی کر گئے۔اس کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ پاکستان کی تاریخ میں زیادہ وقت مالی طور پر کرپٹ گروہوں نے عنان حکومت سنبھالی رکھی اور اگر انصاف کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے حکومتیں چلائی جاتیں تو سب سے پہلا اس کڑے احتساب کی زد میں یہی گروہ آتے اور پھر راج کرتی خلق خدا۔
جدید ریاست میں آزادی کے مفہوم بھی تبدیل ہو چکے اور کسی ریاست کی آزادی کا تعلق عالمی دنیا میں اس کی پالیسیوں کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ریاست پاکستان میں جہاں جمہور کی بنیادی آزادی پر قدغن لگائی گئی وہاں آہستہ آہستہ ریاست کی عالمی سطح پر آزادی بھی فروخت کر دی گئی اور جمہور کو پتہ ہی نہ چلا کہ وہ کب اپنے اوپر مسلط گروہوں کی غلامی سے عالمی غلام بن گئے۔کبھی افغانستان کی جنگ اور کبھی عالمی طاقتوں کی خواہشات کے تابع ہو کر چین،ایران اور روس کے خلاف ریاست کو بمعہ جمہور جھونک دیا گیا۔آج ریاست پاکستان کے عوام یعنی جمہور کچھ طاقتور گروہوں کے غلام اور یہ طاقتور حکمران گروہ عالمی طاقتوں کے غلام بن چکے ہیں یعنی جمہور کی غلامی دگنی ہے اور وہ ان
غلامی کی زنجیروں میں اس بری طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ انہیں توڑنے اور ان کو تڑوانے والا ہر لیڈر سامراج اور استعمار کی آنکھ میں بری طرح کھٹکتا ہے اور پھر کچھ ہی عرصہ کے بعد اس کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔
بات پاکستان کی آزادی کی ہو رہی تھی ورنہ اسلامی دنیا کی ان گنت مثالیں سامنے ہیں جہاں کے لیڈران کو عالمی سامراجی قوتوں سے اپنی اپنی قوموں کو آزادی دلانے کے جرم میں نشان عبرت بنا دیا گیا۔ پاکستان کی آزادی کی جنگ لڑ کر قربان ہونے والوں میں ذوالفقار علی بھٹو کا نام تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔بھٹو کی پھانسی کے بعد پاکستان کے جمہور نے سالہا سال عالمی اور علاقائی غلامی کی اور اس غلامی کے عوض دہشت گردی،بھوک،افلاس اور محرومیاں جھیلیں۔عالمی اُفق پر گزشتہ عشرے میں جو تبدیلیاں آئیں اور سوشل میڈیا کی یلغار نے بطور خاص پاکستان جیسے ملک(جہاں خواندگی کی شرح آج بھی بہت نیچے ہے)میں جمہور کو شعور دیا اور جو شعور ذوالفقار علی بھٹو نے جمہور پاکستان کو دیا تھا اور اس کے عدالتی قتل کے بعد اس کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا آج 4 دہائیوں کے بعد پھر سے جمہور پاکستان میں جاگتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔عمران خان کی تحریک پر جب لوگ کہتے ہیں کہ ہم کوئی غلام ہیں؟ تو یقین جانیے کہ دل خوش ہو جاتا ہے۔ دعا اور کوشش یہی ہے کہ جمہور دل سے اس غلامی کے طوق کو اتار پھینکیں اور لوکل اور عالمی آقاؤں کو سمندر برد کر دیں۔ عمران خان سے لاکھ اختلافات کے باوجود جمہور کو عالمی ریشہ دوانیوں اور ان کے آلہ کاروں کی عوام کی آزادی سلب کرنے بلکہ عالمی غلام بنانے کی سازشوں سے آگاہ کرنا صرف اور صرف عمران خان کا ہی کارنامہ قرار دیا جاے گا۔آج پاکستان 75سال کے بعد بھی غلام ہی ہے اور اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور کرتا دھرتاؤں نے نہ صرف اسلاف کی عظیم قربانیاں فراموش کردیں بلکہ ان کو اندازہ ہی نہیں کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔کبھی انہوں نے غلام قوموں کی مجبوریاں اور محرومیاں قریب سے دیکھی اور سوچیں ہی نہیں۔آج بھی عمران خان اگر حقیقی آزادی کی بات کرتا ہے(اللہ کرے اس کا دعویٰ سچ اور حقیقی ہو)تو اس کا راستہ ہر گزرتے دن کے بعد مشکل ترین بنایا جا رہا ہے لیکن جمہور کی جاگنے کی تحریک شروع ہوتی نظر آ رہی ہے جو ان تمام طبقات کے لیے سوہان روح ہے جنہوں نے ریاست پاکستان اور جمہور کی آزادی نہ صرف بری طرح سلب کی بلکہ اسے عالمی استعماری اور سامراجی قوتوں کے ہاتھوں بیچ کر جہاں خود طاقتور ترین ہو گئے وہاں جمہور پاکستان کو عالمی غلام بنا چھوڑا۔جب جمہور جاگ جائے اور آزادی حاصل کرنے پر آجائے تو یقین رکھیں کہ پھر سامراجی طاقتیں اور ان کے ایجنٹ علاقائی ہوں یا عالمی روئی کے گالوں کی طرح اڑ جایا کرتے ہیں۔پھر ریاست کی آزادی منانے کے لیے کسی وزیر یامشیر کوایک یا دو ارب کے فنڈز جاری کروانے کی بھی ہمت نہیں ہوا کرتی۔جمہور کی حقیقی آزادی کے حصول کی سوچ تب ہی پایہ تکمیل تک پہنچ سکتی ہے جب انہیں اپنی محکومی کی زنجیروں کا احساس ہو۔پاکستان کےموجودہ ریاستی معاملات میں بیرونی استعماری و سامراجی مداخلت کے تناظر میں عام جمہور کی سوچ و عمل میں نمایاں تبدیلی خوش آئند ہے اور یہ تبدیلی ہی حقیقی آزادی کی اصل راہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button