Ali HassanColumn

بیابان میں کون سنتا ہے؟ ۔۔ علی حسن

علی حسن

 

محکمہ موسمیات نے کہا ہے کہ ملک کے بیشتر علاقوں میں معمول سے زائد بارشیں ہوئیں ہیں جو 61 سال بعد رواں سال جولائی میں سب سے زائد بارشوں کا نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ ملک بھر میں معمول سے181 فیصد زائد جبکہ رواں سال بلوچستان میں معمول سے 450 فیصد زائد بارشیں ہوئیں۔سندھ میں معمول سے 308 فیصد زائد، پنجاب میں 116 فیصد ، گلگت بلتستان میں 32 فیصد اور خیبرپختونخوا میں 30 فیصد زائد بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔معمول سے بہت زیادہ بارش اپنی جگہ درست ہے، جس کے بارے میں محکمہ موسمیات کی پیش گوئیاں موجود تھیں، لیکن خصوصا بلوچستان میں عام لوگوں کو بے آسرا چھوڑ دیا گیا، وہ عوام کے ساتھ انتہائی ظالمانہ مزاق ہے۔ ایک دفعہ پھر ثابت ہو گیا ہے کہ اس ملک میں بیک وقت دو نظام کام کرتے ہیں۔ ایک نظام وہ جو نام نہاد اشرافیہ، نو دولتیوں اور حکمرانوں کے لیے کام کرتا ہے دوسرا ان لوگوں کے لئے جس میں ان کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف جو بلوچستان میں ایک جگہ متاثرین سے ملاقات کے لئے پہنچے تو لوگوں نے ان سے ترش انداز میں شکایات کیں کہ انہیں لا وارچھوڑ دیا گیا ہے۔ کسی نے پانی کو نہیں پوچھا، کسی نے کھانا نہیں دیا۔ بقایا تکالیف تو اپنی جگہ ہیں۔ لوگوں نے جو کہا کہ کسی سے پانی کو نہیں پوچھا اور کسی نے کھانے کو نہیں پوچھا، ان کی شکایت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے خلاف تھی۔ یہ تو صوبائی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ بارش ہو، سیلاب ہو، زلزلہ ہو، بڑے پیمانے پر آگ لگنے کا واقعہ ہو، وغیرہ وغیرہ ، ان حالات میں حکومتوں کے ماتحت کام کرنے والی انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان کا کوئی بھی علاقہ ہو، بارش تو پورے ملک میں برسی ہے، انتظامیہ کے لوگ اپنی ذمہ داری ادار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر بلوچستان کے علاقوں میں تباہی آتی ہے یا سندھ کے علاقے سڑک کے نظام سے کٹ جاتے ہیں تو کیا لوگوں کو بے یار و مددگا چھوڑ دیا جائے گا۔ ایسا ہی ہوا ہے۔ بلوچستان میں تو پانی کے بڑے ریلوں میں لوگ بہہ گئے ہیں، لیکن انہیں بچانے والا کوئی نہیں تھا۔
لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم ہوں یا وزیر اعلیٰ ، انہیں متاثر ہونے سے بچا نہیں سکتے ہیں لیکن ان کی موجودگی کی وجہ سے انتظامیہ چوکس رہتی ہے ۔ یہ بار بار کا آزمیا ہوا نسخہ ہے لیکن اگر وزراء وغیرہ سر پر نہ ہوں تو انتظامیہ خود کچھ نہیں کرتی ہے۔ پہاڑوں سے بہہ کر نیچے آنے والے پانی کے ریلے کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے لیکن حکومت کی موجودگی کی وجہ سے انتظامی اقدامات اور احتیاطی تدابیر کم سے کم وقت میں اختیار کی جاتی ہیں۔ انتظامیہ نے ایک گھساپٹا رویہ اختیار کر لیا ہے، وہ خود اقدامات کرنے سے کتراتی ہے۔
سرکاری تعمیرات کے نقائص بھی ایسے ہی موقوں پر سامنے آتے ہیں۔سڑکیں بہہ گئیں۔ پل بیٹھ گئے۔ یہ وہ نقائص ہیں جو انگریز کے دور میں کی گئی تعمیرات میں آج بھی نہیں ملتے ہیں۔ کہیں بھی ایسا نہیں لگا کہ انتظامیہ پہلے سے کسی احتیاطی اقدامات کے ساتھ صورت حال سے نمٹنے کے لئے تیار تھی۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہے۔ یہ ملازمین کے بڑے حجم رکھنے والے ادارے پی ڈی ایم اے کہاں سو رہے تھے۔ صورت حال پیدا ہونے کے بعد تو انہیں جاگنا ہی ہوتا ہے لیکن پہلے سے اقدامات کرنا بھی تو ان کی ہی ذمہ داری میں آتے ہیں۔ بس پتہ نہیں کیا ہوا ہے کہ اس ملک میں انتظامیہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی ہے۔کیا بھی واقعہ پیش آجائے،افسران کوئی قدم اس وقت تک نہیں اٹھاتے ہیں جب تک وزیر اعلیٰ اس واقعہ کو ’’نوٹس ‘‘ نہ لے لیں۔ ڈپٹی کمشنر کی ذمہ داری کتابوں میں درج ہے، پی ڈی ایم اے کو کیا کرنا ہے، انہیں علم ہے لیکن کرنا کچھ نہیں ہیں۔ صوبائی حکومت کے ذمہ داروں کی ذمہ داری نبھانے کا کا اندازہ کیا جا سکتاہے کہ ’’وزیر اعظم کی ہدایات پر فوری عملدرآمد پرجھل مگسی میں مویشیوں کے علاج معالجے کیلئے ویٹرنری ڈاکٹر کو پہنچایا گیا‘‘۔ وزیر اعلیٰ کیا کرہے تھے کہ جب تک وزیر اعظم نہیں آئے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ وزیر اعظم نے خود بھی برہمی کا اظہار کیا کہ لوگوں کی کوئی بروقت مدد نہیں کی گئی۔ بلوچستان میں بارشوں سے جاں بحق افراد کی تعداد 164 تک پہنچ گئی ہے جبکہ 13 ہزار سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا ہے ۔ زرعی علاقوں میں کھڑی فصلوں اور باغات کو بھی شدید نقصانات کا سامنا ہے۔پی ڈی ایم اے بلوچستان کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں
67 مرد 43 خواتین اور 54 بچے شامل ہیں ۔ اموات مختلف علاقوں میں ہوئی ہیں۔ زوب میں باپ بیٹا دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے ،ضلعی انتظامیہ کے مطابق گزشتہ شب ڑوب کے علا قے با دینزئی میں سیلاح خان اور اسکا بیٹا شاد گل در یائے ڑوب کے کنا رے اپنی گائے کو تلاش کر نے گئے جہاں وہ اچانک آنے والے سیلا بی ریلے میں ڈو ب گئے ، لیویز نے لاشوں کو تحویل میں لیکر ہسپتال منتقل کر دیا جہاں ضروری کاروائی کے بعد لاشیں ورثاء کے حوالے کر دی گئی مزید کاروائی جا ری ہے ۔ چند ماہ قبل سپریم کورٹ نے آزاد کشمیر میں ۲۰۰۵ میں آنے والے زلزلہ کے بعد متاثرین کی بحالی وغیرہ کے کاموں میں تاخیر پر سخت سرزنش کی تھی لیکن افسران پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ بعض علاقوں میں تو زلزلہ جس روز آیا تھا، ویسی ہی صورت حال اب تک برقرار ہے۔ یہ کس کی ذمہ داری ہے۔
یہ بنیادی طور پر حکمرانوں کی اولین ذمہ داری ہے لیکن سب ہی دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے حکمران حلقے اور طبقے کہاں مصروف ہیں۔ جن پر حکمرانی کی جانی ہے انہیں گلی کوچوں میں بے سہارا، لا وارث چھوڑ دیا گیا ہے۔ عوام کو منتخب کردہ سب سے طاقتور ایوان قومی اسمبلی میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے ساتھ ہمدردی و یکجہتی کی قرارداد کی منظوری دے دی گئی ہے ۔ منگل کو قومی اسمبلی میں مولانا عبدالاکبر چترالی نے قرارداد پیش کی کہ یہ ایوان ملک بھر میں حالیہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے ساتھ بھرپور ہمدردی اور حمایت کا اظہار کرتا ہے۔ اس میں ہونیوالے جانی و مالی نقصان پر افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ وفاقی حکومت متاثرہ لوگوں کے لئے ریسکیو اور ریلیف پیکج اپنانے کے لئے صوبائی حکومت کے تعاون سے بھرپور اقدامات کرے اور ریلیف کے کاموں میں متعلقہ ارکان اسمبلی کو بھی شامل کیا جائے۔ کیا قومی اسمبلی کے آراکین کی یہ ہی ذمہ داری ہے کہ قرار داد منظور کر لیں اور مطالبہ کریں کہ ’’ریلیف کے کاموں میں متعلقہ ارکان اسمبلی کو بھی شامل کیا جائے‘‘۔ یہ قومی اسمبلی کے آراکین ہیں جو اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وفاقی، صوبائی اور ضلعی انتظامیہ کو حکم دے سکتے ہیں لیکن اس بیابان میں ان کی سنتا کون ہے۔ شاعر انجم اخلاق نے کیا خوب کہا ہے: ’’ حاکم شہر کی خواہش ہے کہ حکومت کی جائے، ورنہ حالات تو ایسے ہیں کہ ہجرت کی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button