Editorial

سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ اور پریشان عوام

وفاقی کابینہ نے ممنوعہ فنڈنگ پر تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف پولیٹیکل پارٹیزآرڈر2002کے تحت کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ عاشورہ کے بعد وزارت قانون تمام قانونی اور آئینی پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے ڈیکلریشن سپریم کورٹ بھیجنے کیلئے کابینہ میں پیش کرے گی، فارن فنڈنگ کیس کی تحقیقات ایف آئی اے کرے گی۔وفاقی وزیر اطلاعا ت مریم اورنگزیب نے کہاہے کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت حکومت آئین اور قانون کے مطابق اس پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہے،کیس اکبر ایس بابر الیکشن کمیشن میں لے کر گئے تھے‘مسلم لیگ نون اور حکومت وقت کا کوئی تعلق نہیں،تحریک انصاف غیر ملکی امدادلینے والی پارٹی ڈکلیئرہوئی ہے۔ جمعرات کو وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے کی روشنی میں آئندہ کے لائحہ عمل پر مشاورت کی گئی۔دوسری طرف پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے غیر ملکی شہریوں سے ممنوعہ فنڈنگ لینے پر سابق وزیر اعظم عمران خان کو نااہل قرار دینے کے لیے الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کردیاہے اور رکن قومی اسمبلی بیرسٹر محسن شاہ نوازرانجھا نے نااہلی کے لیے ریفرنس چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو جمع کروایا۔تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اسی معاملے پر کہا ہے کہ غیرملکی کمپنیوں سے پیسے لینا 2012ءمیںجرم نہیں تھا، فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے میں واضح تضادات ہیں، پیچھے سے ڈوریوں کو ہلایا جاتا ہے،ایسا کیا غلط کیا جس پر نااہلی اور کارروائی کی باتیں شروع ہوگئی ہیں، پیسے کے بغیر سیاسی جماعت کیسے چل سکتی ہے؟ الیکشن کمیشن نے بیرون ملک پاکستانیوں کے پیسے کو فارن فنڈنگ قرار دیا ،اگر یہ فارن فنڈنگ ہے تو جو اوورسیزپاکستانی 31 ارب ڈالر پاکستان بھیجتے ہیں تو پھر وہ کیا ہے؟تحریک انصاف کے قائدین نے کارکنوں کے ساتھ کراچی، لاہوراور اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے دفاتر کے باہر احتجاجی مظاہرےکئے جن میں چیف الیکشن کمشنرکے استعفے کا مطالبہ کیاگیا اور یاد داشت بھی جمع کرائی گئی۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کے کیس میں سزا سنائے جانے کے بعد ذرائع ابلاغ کے مطابق پی ڈی ایم کی قیادت کی طرف سے چیئرمین پی ٹی آئی اور دیگر عہدیداروں کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے اور اِس معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرنے کا فیصلہ سامنے آیااور ابتک سامنے آنے والی صورتحال کے مطابق اِس فیصلے پر عمل درآمد ہوچکا ہے۔ فارن فنڈنگ کا فیصلہ آنے کے بعد حکومت اور اپوزیشن یعنی پی ٹی آئی قدم بڑھاکر ایک دوسری کی سیاسی حکمت عملی کا جواب دے رہی ہے، یہی نہیں گذشتہ روز پی ٹی آئی کی قیادت کی طرف سے اعلان سامنے آیا ہے کہ ایک دو روزمیں اسلام آباد میں بڑا جلسہ کیا جائے گا جس میں حکومت سے فوری انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا جائے گا۔ سب سے پہلے انتخابات کے فوری یا مقررہ وقت پر انعقاد کی بات کی جائے تو حزب اقتدار کا واضح موقف ہے کہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کریں گی اور کسی دبائو میں نہیں آیا جائے گا دوسری طرف حزب اختلاف یعنی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت فوری انتخابات کے مطالبے کو دہرارہی ہے اور اِس معاملے پر ایک قدم پیچھے ہٹنے کو یعنی ذرا سی بھی لچک دکھانے کو تیار نہیں یوں کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ یہ معاملہ افہام و تفہیم کے ساتھ حل ہوجائے اور جہاں تک وفاقی کابینہ نے ممنوعہ فنڈنگ پر تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف پولیٹیکل پارٹیزآرڈر2002کے تحت کارروائی کرنے کا فیصلہ ہے تو آئین کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان حکومت کو کیس بھجواتی ہے اور حکومت اپنی سفارشات کے ساتھ سپریم کورٹ کو، یعنی کیس کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہی کرنا ہے،اِس لیے حکومت اپنی سفارشات سپریم کورٹ کو بھیجتی ہے تو یہ آئینی حق ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان آئین و قانون کے مطابق اس کیس کا فیصلہ کرے گی۔ مگر اِس ساری صورتحال میں جو تکلیف دہ باتیں عام پاکستانی محسوس کررہے ہیں سیاسی قیادت کو اُن کا بھی ادراک کرنا چاہیے کہ عوام کی مالی مشکلات میں بے حد بلکہ ناقابل بیاں حد تک اضافہ ہوچکا ہے، حالیہ چند ماہ میں پہلے سے غربت اور بے روزگاری کا شکار کوزہ پشت عوام کو پہلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑے اضافے سے دھچکا لگا اور لوگ سراپا احتجاج ہوئے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں مہنگائی کا بڑا طوفان آیا اس کا بوجھ بھی عوام کی شکستہ کمر پر آیا، بجلی مرحلہ وار مہنگی کی گئی اور اب کوئی گھر ایسا نہیں جس کو تین سے چار گنا زیادہ بجلی کا بل نہ آیا ہو، جو لوگ پہلے بمشکل تین سے چار ہزار بل بھرتے تھے ان کو بارہ پندرہ ہزار روپے کے بل موصول ہوئے ہیں اور ملک میں ایسے گھرانوں کی کمی نہیں جن کی آمدن کا نصف صرف بجلی کی مد میں اور باقی مہنگا پٹرول خریدنے میں خرچ ہورہا ہے، عوام معاشی مسائل کی وجہ سے پریشان ہیں لیکن کہیں سے بھی ریلیف ملنے کے آثار نظر نہیں آرہے، صرف اور صرف سیاست ہورہی ہے اگر کوئی رہنما زمینی حقائق دیکھے تو یقیناً اسے گھروں میں بھوک رقصاں نظر آئے گی، وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل فرماتے ہیں کہ انہیں مہنگائی کم کرنے کا ٹاسک نہیں ملا بلکہ معیشت کو سنبھالنے کا ٹاسک ملا ہے پھر غریب اور متوسط پاکستانی کس سے سوال کریں کہ مہنگائی کب کم ہوگی اور عوام کی زندگی کیسے سہل ہوگی، سیاسی قیادت کا مقصد ملک و قوم کو ریلیف دینا نہیں تو پھر کیا ہے؟ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست دانوں کو موجودہ ملکی معاشی حالات اور خطے میں تیزی سے رونما ہوتی تبدیلیوں کو انتہائی سنجیدگی بلکہ تشویش کے ساتھ لینا چاہیے کیونکہ دونوں جانب فوری توجہ کی ضرورت ہے، ماضی میں کئی حکومتیں قومی اور بین الاقوامی سطح کے بڑے بڑے کارنامے انجام دینے کے باوجود عام انتخابات میں عوام سے پذیرائی صرف اسی لیے حاصل نہیں کرسکیں تھی کہ اُن قومی اور بین الاقوامی سطح کے بڑے بڑے کارناموں میں غربت کا خاتمہ، عام پاکستانی کو ریلیف اور عوام کی مشکلات کا خاتمہ شامل نہ تھا، عوام کس حال میں گذر بسر کررہے ہیں اور ان کو ریلیف دینے کے لیے سیاسی قیادت کیا کررہی ہے یہ سیاسی قیادت کو ضرور دیکھنا چاہیے،موجودہ معاشی صورتحال کا سیاسی عدم استحکام کے ساتھ قطعی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، بہتر یہی ہے کہ باہمی مسائل اور سیاست کو معاشی بحران اور عوام کا معیار زندگی بہتر ہونے تک ملتوی کردیاجائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button