Editorial

معیشت میں نمایاں بہتری کے آثار

ملکی معیشت میں قریباً تین ماہ کے بعد نمایاں بہتری کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں،چین نے سب سے پہلے مالی تعاون کی یقین دہانی کے بعد پاکستان کے سکڑتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے سیف ڈپازٹس کی مد میں دو ارب ڈالرز دینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ درپیش اقتصادی بحران کے باعث پاکستان کو زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا ہے ، دوسری طرف آئی ایم ایف کے بورڈ کی میٹنگ کے اعلان کے بعد ڈالر کی قیمت میں ریکارڈکمی دیکھنے میں آئی ہے، گذشتہ روز روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں مزید کمی ریکارڈ کی گئی اوراوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 220 روپے ہوگئی ہے پھر یہی نہیں سٹاک مارکیٹ میں بھی تیزی کا رجحان دیکھا جارہا ہے اور ایک روز پہلے سٹاک مارکیٹ میں 490 سے زائد پوائنٹس کا اضافہ ہوا جس کے بعد 100 انڈیکس 41 ہزار 560 پوائنٹس پر پہنچ گیا۔معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کی قسط جلد ملنے کی تصدیق کے بعد مارکیٹ میں ڈالر کی مانگ کم ہوئی ہے اور حکومت نے روپے کی قدر میں بہتری کے لیے اقدامات جاری رکھے تو چند روز میں ڈالر کی قیمت مزید نیچے آ سکتی ہے۔ماہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ رواں ماہ درآمدی بل میں کمی ہوگی اور اس کے اسباب بتائے گئے ہیں کہ اس وقت ملک میں فوری ضرورت کا تیل بھی موجود ہے اور عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات سمیت خوردنی اشیا کی قیمتوں میں بھی کمی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے قسط ملنے کے بعد دوست ممالک سے پیسے ملنے کی بھی امید ہے جس کے بعد صورتحال میں مزید بہتری آئے گی اور سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کرنسی کا کاروبار کرنے والے اداروں پر چیک اینڈ بیلنس بڑھانے سمیت ملک سے افغانستان ڈالر کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں۔ بلاشبہ چین کی یقین دہانی اور آئی ایم ایف کے بورڈ کی میٹنگ کے اعلان کے بعد ملکی معیشت میں قریباً تین ماہ کے بعد نمایاں بہتری کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں،ڈالر کی قیمت بھی کم ہورہی ہے اور سٹاک مارکیٹ میں بھی کاروبار بہتر ہوا ہے اور ہمارے نزدیک ملک میں جاری سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہوجاتا ہے تو معاشی لحاظ سے مزید استحکام آئے گا اور روپے کی قدر میں اضافہ ہوگا۔ چند روز قبل ہی پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کی گرتی معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف )سے قرض کی جلد فراہمی میں تعاون کے لیےواشنگٹن سے رابطہ کیا اور غیر ملکی میڈیا کے مطابق آرمی چیف نے وائٹ ہاؤس سے کہا تھا کہ آئی ایم ایف پر1.2بلین ڈالرکی قسط فوری جاری کرنے کے لیے دباؤڈالے۔ آرمی چیف کی اس معاملے پر امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین سے فون پر بات ہوئی تھی اور اب آئی ایم ایف کے بورڈ کی میٹنگ کے اعلان کے بعد ڈالر کی قیمت میں نمایاں اوربتدریج کمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ سربراہ پاک فوج کی خصوصی کاوش سے اب آئی ایم ایف سےقریباً 1.2 بلین ڈالر کی فوری فراہمی یقینی ہے اور اتنی ہی پیش رفت کے نتیجے میں ڈالر کی قیمت

نیچے آنا شروع ہوگئی ہے اور ڈالر کو ریورس گیئر لگ گیاہے اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ سربراہ پاک فوج کی معیشت کی بہتری کے لیے اِس کوشش نے ملکی معیشت کو ’’ٹانک‘‘ فراہم کیا ہے اور اسی کے نتیجے میں ڈالر اب نیچے آرہا ہے۔ دیر آئید درست آئید مثال اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی حالیہ حکمت عملی پر بھی لاگو ہوتی ہے، گذشتہ مہینوں میں ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے کے بعد بالآخر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرنے کے لیے ایکسچینج کمپنیوں اور بینکوں کے فارن ایکسچینج آپریشنز کی نگرانی سخت کرتے ہوئے کرنسی کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا ہے اور اسی دوران دو کمپنیوں کی چار شاخوں کے آپریشنز معطل کردیئے ہیں۔سٹیٹ بینک کے اعلامیہ کے مطابق ایکسچینج ریٹ میں حالیہ اتار چڑھاؤ نیز بین البینک شرح اور ایکسچینج کمپنیوں و بینکوں کی جانب سے صارفین کو پیش کردہ شرح میں فرق کے پیش نظراسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایکسچینج کمپنیوں اور بینکوں کی سخت نگرانی شروع کردی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے کچھ عرصہ قبل بعض ایکسچینج کمپنیوں پر جرمانے اور اسٹیٹ بینک کی ہدایات کی خلاف ورزی پر کچھ عرصہ قبل مختلف ایکسچینج کمپنیوں کے 13 فرنچائزز کے انتظامات ختم کردیے تھے۔اسٹیٹ بینک نے ان خدشات کی تحقیقات کے لیے کہ، بعض ایکسچینج کمپنیاں اپنے صارفین کو غیرملکی کرنسی فروخت نہیں کررہی ہیں، کارروائی شروع کردی ہے اور گذشتہ روزایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کا خصوصی اجلاس بھی بلایاگیا جس میں ایکسچینج کمپنیز کی توجہ متذکرہ معاملات پر دلائی گئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری معاشی حالت خصوصاً زرمبادلہ کو دیکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک کو پہلے ہی ایسی کمپنیز پر کڑی نظر رکھنی چاہیے تھی تاکہ مارکیٹ میں ازخودڈالر کی قیمت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوتی نہ ہی ڈالر قابو سے باہر ہوتااور معیشت کے حوالے سے تشویش پھیلتی، ایک اورخبر کے مطابق حالیہ دنوں میں ڈالر افغانستان بھی سمگل کیاجاتا رہا ہے ، ایسا ہونا یقیناً ریاستی اداروں کے لیے بے حد لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ ایک طرف ڈالر کی قیمت میں بتدریج اضافہ کیا جاتا رہا ہے اوردوسری طرف ڈالرز بیرون ملک سمگل بھی کیے جارہے تھے اور نجانے کب سے یہ سلسلہ جاری تھا۔ ڈالر کی قیمت میں حالیہ کمی جہاں معیشت کے لیے بہت اچھی خبرہے وہیں ماہرین توقع ظاہر کررہے ہیں کہ دوست ممالک اور آئی ایم ایف سے مالی تعاون ملنے کے بعد ڈالر کی قیمت میں مزید کمی ہوگی اور پاکستانی روپے کی قیمت میں بتدریج اضافہ ہوگا، دوسری طرف امپورٹ پر پابندی کے بھی روپے کی قدر میں مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔انٹرنیشنل مارکیٹ میں آئل کی قیمت میں کمی ہونے کے ساتھ ہمارے امپورٹ کی لاگت بھی کم ہوئی ہے جس سے ڈالر کی قیمت میں کمی آئی ہے۔ آئی ایم ایف کے بیان نے بھی مارکیٹ کو اعتماد دیا ہے اوراب ڈالر کی قیمت میں مسلسل کمی کے باعث اوپن مارکیٹ میں بیچنے والے تو موجود ہیں مگر خریدار نہیں ہیںمتذکرہ وجوہات کے علاوہ حکومت اور اسٹیٹ بینک نے حال ہی میں ڈالر مہنگے داموں فروخت کرنے والوں کے خلاف جو اقدامات کیے ہیں اُن کی وجہ سے بھی ڈالر کی قیمت میں نمایاں کمی ہورہی ہے۔ حکومت کی معاشی ٹیم اضافی مالی اعانت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب اور چین کے ساتھ بات چیت کررہی ہے اور آرمی چیف جنرل باجوہ نے بھی حال ہی میں ان دو ممالک کے دورے کیے تھے اِس لیے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں معیشت کے حوالے سے خوشخبریاں سننے کو ملیں گی مگراس دوران حکومت پرلازم ہوگا کہ وہ عوام کو بھی ریلیف فراہم کرنے کا ساماں کرے کیونکہ پہلے سے دبے اور پسے ہوئے متوسط اور غریب پاکستانی فوری معاشی ریلیف کے منتظر ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button