ColumnNasir Naqvi

بھرپور توجہ۔۔۔۔مگر کیسے؟ ۔۔ ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

سیاسی جوڑ توڑ اور ایک دوسرے کو فتح کرنے کے جذبے میں کئی ماہ کی دھینگا مشتی کے بعد بھی کمی نہیں آ سکی، پھر معاشی استحکام کیسے آئے گا؟ یہ بات عام آدمی تو سوچ رہا ہے لیکن خاص آدمی جو حقیقی معنوں میں اس بحرانی کیفیت کے ذمہ دار ہیں، انہیں احساس ہے کہ نہیں، فکر مند ہرگز نہیں اس لیے کہ وہ توانا اور ضد کی لڑائی میں صرف اور صرف فتح یابی کے خواہشمند ہیں۔ڈالر بہادر کی اْڑان اور غربت کے مارے ’’روپے‘‘ کی بے توقیری نے پاکستان اور اس کی معیشت کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ ذمہ داران کا مباحثہ اور تکرار محض یہ ہے کہ کس نے ہمیں اس دلدل میں دھکیلا۔ سب سیاست ،سیاست کھیل کر جمہوریت اور جمہوری اقدار کا ’’بول بالا‘‘ کرنے کے دعویدار ہیں لیکن کوئی اس بات پر سر جوڑ کر بیٹھنے کا روادار نہیں کہ اس بحران سے نکلیں گے کیسے؟ حکومت ماضی کے حکمرانوں پر الزامات لگا کر خود بری الذمہ ہونا چاہتی ہے اور سابقہ حکمران صرف اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ موجوہ حکومت جعلی، بین الاقوامی سازش میں سہولت کاری کے انعام میں بنی اور اب بندر بانٹ پالیسی کی بدولت محدود وسائل میں اَن گنت مسائل پر قابو نہیں پا رہی بلکہ اپنی غلط پالیسیوں سے مستقبل کے لیے نئے مسائل پیدا کر رہی ہے، نہ درآمدات ہیں نہ ہی برآمدات میں اضافہ، بحرانی حالات میں غیر ملکی سرمایہ کاری ناممکن اوراپنے سرمایہ کاروں نے بھی ہاتھ کھینچ لیاہے، پھر معاملات میں بہتری کیونکر ممکن ہو گی۔ ان حالات میں روزگار کے مواقع ناپید بلکہ برسرروزگار بھی نکالے جا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

آزمودہ دوست عوامی جمہوریہ چین نے گوادر کو فعال کیا اور سی پیک اقتصادی راہداری سے خطے کی ترقی و خوشحالی کا نسخہ دیا تو معاہدے کے باوجود اس پر عمل درآمد اس لیے نہیں ہو سکا کہ پہلے مقامی لوگوں کو ورغلا کر رکاوٹ پیدا کی گئی لیکن ناکامی کے بعد عالمی ٹھیکیداروں نے پس پردہ ہاتھوں کو سرگرم کر کے اپنا مقصد پورا کرنے کی راہ ہموار کر لی۔ جو لوگ بلوچستان اور شمالی علاقہ جات جا چکے ہیں وہ عالمی معیار کی شاہرائیں دیکھ کر حیران ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ جن علاقوں میں اقتصادی راہداری کے حوالے سے کام مکمل ہو چکا ہے وہ مقامات پاکستان کے نہیں لگتے، یعنی خطیر سرمائے سے چین نے مشکل مقامات اور مشکل ترین حالات میں وہ کام کر دکھایا جو ناممکن تھا،پھر بھی بہترین منصوبہ بندی، باصلاحیت انسانی طاقت اور پاک چین ہنرمندوں نے مکمل کیا، پاکستان کے بڑے شہروں میں بسنے والے اس ترقی اور کامیابی کے خواب بھی نہیں دیکھ سکتے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ حالات کے پیش نظر ٹکڑیوں میں یہ کارنامہ انجام پا چکا ہے۔ بدقسمتی سے سابق عمرانی حکومت میں یہ منصوبہ تعطل کا شکار رہا، یقیناً اس کی وجوہات بھی ہوں گی، پھر بھی تاثر یہی ہے کہ اگر اس ترقی و خوشحالی کے منصوبے میں رکاوٹ پیدا نہ ہوتی تو اس کے ثمرات مختلف ہوتے اور اس سے پوری قوم اب تک آشنائی حاصل کر چکی ہوتی، اس نقصان کے باوجود ’’ہم اور آپ‘‘ نہیں، سب کے سب اس بحث میں وقت ضائع کر رہے ہیں کہ کس نے کیا کیا؟کیوں کیا؟ماضی کے حکمران ذمہ دار ہیں یا کہ موجودہ، ہمارے معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں پھر بھی نہ بحث و تکرار ختم ہو رہی ہے اور نہ ہی الزامات کی جنگ۔

ہر ذی شعور یہ جانتا ہے کہ وقت ضائع کیے بغیر قومی یکجہتی اور مملکت کو بحران سے نکالنے کے لیے ایک نکاتی ایجنڈے پر سب کو سرجوڑ کر جنگی بنیادوں پر کوئی مثبت حل نکالنا ہوگا۔اس صورت حال میں اتحاد واتفاق سے پہلا محاذ’’معاشی‘‘ہونا چاہیے، لیکن ہمارے ہاں پہلا محاذ ’’سیاسی‘‘ بن چکا ہے جس میں محاذ آرائی بھی جاری ہے، لہٰذا اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جب تک سیاسی استحکام نہیں ہو گا معاشی استحکام بھی نہیں ہو گا۔

دنیا کا دستور بھی یہی ہے کہ جہاں ’’امن و سلامتی‘‘ نہ ہو وہاں سرمایہ کاری نہیں ہوتی، ہم نے بھاری جان و مال کی قربانی دے کر دہشت گردوں کو اپنی دھرتی سے دور دھکیل دیا لیکن سیاسی بحران نے مملکت کی سلامتی خطرے میں ڈال دی، پوری قوم حکمرانوں کے جائز و ناجائز قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے پھربھی سیاسی استحکام کی بھول بھلیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سری لنکا کی مثال سب کے سامنے ہے، وہاں انتخاب بھی ہو گئے پھر بھی بحران ختم نہیں ہو سکا۔ ہمیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے کہ ہم بھی اگر سری لنکا کے حالات سے سبق نہیں سیکھیں گے تو ہماری حالت بھی سری لنکا جیسی ہو گی لیکن ہم تو مستقل مزاج لوگ ہیں، ہم نے نہ تو ملک کے دولخت ہونے سے کچھ سیکھا اور نہ ہی ہم بنگلہ دیش کی ترقی سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں، حالانکہ ان کی ترقی اور بہتری ہمارے لیے باعث شرمندگی اور ندامت ہونی چاہیے۔ بڑے بھائی تو ہم ہیں، کسی سے بات کر کے دیکھ لیں اس کی حیثیت کچھ بھی ہو وہ سو دلیلیں دے گا لیکن اپنی اور حکمرانوں کی غلطی نہیں مانے گا اور جب کچھ نہیں بنے گا تو آمریت کا رونا روئے گا۔ کوئی یہ نہیں بتائے گا کہ وہاں بھی دو مرتبہ آمریت آئی تھی لیکن انہوں نے جذبہ حب الوطنی سے ابتداء میں مشکلات برداشت کر کے مسائل پر قابو پا لیا، حالات کا تقاضا ہے کہ اقتدار کی لڑائی سے ہٹ کر معاشی ایجنڈے پر بھرپور طریقے سے توجہ دی جائے،آئی ایم ایف کی قسط کے انتظار میں معاملات مزید خراب کرنے کی بجائے سدھارنے کے لیے ملک و ملت کے اجتماعی مفاد میں صرف اور صرف پاکستانی بن کر سوچا جائے اور مشترکہ حکمت عملی میں تمام قومی ادارے اور سیاسی جماعتیں متحد ہو جائیں۔ معیشت درست ہو گی تو مملکت بھی مستحکم ہو جائے گی پھر سیاست سیاست کھیل لیں۔ فی الحال الزامات کی سیاست سب کو لے ڈوبے گی۔مہنگائی نے غریب اور متوسط طبقے کومار ڈالاہے۔اب یہ دیمک ریاست کی بنیاد یں کھوکھلی کر رہی ہے ابھی وقت ہے قومی جذبے اور ڈائیلاگ سے اجتماعی حل تلاش کیا جائے ورنہ حالات اس بات کی چغلی کھا رہے ہیں کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں ’’باغ‘‘ اْجڑجائے گا اس سے پہلے کہ کوئی نازک حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی اور مقتدرہ کے ہاتھیوں کے شکار کو نکل کھڑا ہو، اپنی صف بندی کر لیں، ورنہ جب شکاری شکار کو نکلا تو وہ یہ نہیں دیکھے گا کہ کون سا ہاتھی جنگلی ہے اور کون سا پالتو؟

سری لنکامیں ایوان صدر میں رہنے والوں کو اپنی لمبی چوڑی گاڑیوں اور سرکاری سہولیات و مراعات میں عام لوگ بھول گئے تھے لہٰذا جب کرپشن، لو ٹ مار اور قومی خزانے کے دیوالیہ ہونے کی خبر طاقت کا سرچشمہ عوام تک پہنچی تو انہوں نے اپنی ٹوٹی ہوئی کمر کس کر حساب کتاب کی ٹھان لی، پھر جو کچھ ہوا اسے نشان عبرت ہی کہا جا سکتا ہے۔ اب اس نشان سے ہمارے حکمران کس حد تک آگاہ ہیں اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ تاہم ہم اپنی ’’جمع تفریق‘‘ میں مستقبل کا منظر کچھ اچھا نہیں دیکھ رہے، ان حالات میں صرف حکمرانوں پر ذمہ داری عائد نہیں ہوتی بلکہ مملکت کی فلاح اور عوام کو مشکلات سے نجات دلانے کا فرض تمام سیاست دانوں پر عائد ہوتاہے وہ سابق حکمران ہوں کہ مستقبل کے خواہشمند، دھرتی ماں معاشی بدحالی کا محض شکار نہیں، وینٹی لیٹر پر ہے اس ریاست پاکستان نے ہم سب کو پہچان دی، آزاد فضاء میں جینے کا حق دیا۔ ہمارادعویٰ ہے کہ یہ ہماری جان اور شان ہے لیکن اس کے سانس اُکھڑنے سے پہلے ہمیں پیار، محبت، خلوص، بھائی چارے اور قومی یکجہتی کا نعرہ لگا کر آکسیجن فراہم کرکے اسے پائوں پر کھڑا کرنا ہے۔’’بھرپور توجہ مگر کیسے؟‘‘ یہ ذمہ داروں، حکمرانوں، سیاست دانوں، سرمایہ کاروں، زمینداروں اور صنعت کاروں کا کام ہے۔ عام پاکستانی کا نہیں، ان کا یہ حوصلہ کیا کم ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری میں مبتلا ہونے کے بعد بھی سری لنکن عوام کی طرح بے حوصلہ نہیں ہوئے، کچھ کر گزریں اس سے قبل کہ صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور خلق خدا ایوانوں تک پہنچ جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button