ColumnNasir Sherazi

جو خواب کِرچی ہوئے ان کا حساب نہیں ۔۔ ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

ستر کی دہائی پاکستان میں تبدیلیاں لے کر آئی، پاکستان دو لخت ہوا سچ اور جھوٹ کی پہچان ختم ہوئی، اخلاقیات کاجنازہ نکل گیا، دودھ میں پانی کی ملاوٹ بھی اسی دورمیں شروع ہوئی اس سے پہلے کوئی گوالے سے اس حوالے سے بات کرتا تو وہ شرم سے ڈوب مرتا پانی نہ ملاتا، اکثر سننے میں آتا میں دودھ تو نور ہے اس میں ملاوٹ نہیں ہوسکتی، آج وہ وقت ہے کہ دودھ پینے والے بچے کو صرف اپنی ماں سے ملنے والا دودھ خالص ہے اس کے علاوہ کچھ بھی خالص نہیں، حتیٰ کہ خون بھی خالص نہیں رہا، جب ہر چیز میں ملاوٹ ہو تو انتخابی نتائج کیسے خالص ہوسکتے ہیں، لاکھ احتیاط کرلیں جنہوں نے پانی ملانا ہے وہ آنکھ بچاکرنہیں آنکھوںکے سامنے ملاوٹ کرتے ہیں۔ 2018ء میں بھی ایسے ہی ہواتھا، تحریک انصاف کو ملنے والے قریباً ڈیڑھ کروڑ ووٹوں میں سے ملایاگیا پانی نکال دیں تو پھر بھی پیچھے ایک کروڑ سے کچھ زیادہ ووٹ رہتے ہیں، ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ خان کے خلاف آنے سے آج کم ازکم کروڑ افراد کے خواب ایک چھناکے سے ٹوٹے ہیں، صادق و امین کے ٹائٹل کی واپسی کے بعد اب جھوٹ، غلط بیانی اور حقائق چھپانے کے معاملات سامنے آئے ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ان غیر ملکی شخصیات اور ان کے اکائونٹس کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو پیش کیں، دیگر ذرائع سے ملنے والے شواہد بھی ان کے خلاف گئے جبکہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے روبرو متعدد اکائونٹس کے بارے میں تسلیم کیا کہ ان میں ممنوعہ فنڈنگ آئی، کیس اگلے مرحلے میںپہنچ گیا لیکن اب اس میں آٹھ برس نہیں لگیں گے رفتار کار تیز ہوگی، تحریک انصاف کی حکومت میں قوم کو سستا اور فوری انصاف گھر کی دہلیز پر پہنچانے کا وعدہ تھا لیکن مقدمہ ان کے اپنے خلاف آیا اور جرم ثابت ہونے لگا تو اِسے تیز رفتاری سے چلانے کی بجائے جوں کی رفتارسے چلایاگیا ، جس سے واضح ہوگیا تھا بچنا محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چھ مرتبہ چیلنج کیاگیا، تیس مرتبہ التوا مانگا گیا غرضیکہ بھرپورکوشش کی گئی کہ 2023کے انتخابات تک اس کا فیصلہ نہ آئے۔ تیرہ اکائونٹ نامعلوم ہیں چونتیس غیر ملکیوں سے فنڈنگ ثابت ہوئی ہے، تین رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ سنایا کسی کے پاس اختلاف کی گنجائش نہ تھی، تیرہ اکائونٹس پی ٹی آئی کے سنیئر لیڈر چلارہے تھے۔ پچیس مارچ 1992 کوسولہ کھلاڑیوں اور دیگر سٹاف کی محنت سے جیتے گئے کرکٹ ورلڈ کی ٹرافی حاصل کرنے والے کپتان نے اِسے اپنی فتح قرار دیا اورتن تنہا اس کا ثمر سمیٹا حالانکہ یہ کریڈٹ پوری ٹیم کا تھا کسی ایک بھی کھلاڑی کی کارکردگی اس سے منہا کردیں تو مقدر میں شکست رہ جاتی ہے۔
فنڈنگ کے معاملات میں طرز عمل ملاحظہ فرمائیے، ہر اہم کاغذ پر بحیثیت چیئرمین پارٹی عمران خان کے تصدیقی دستخط ہیں مگر آج انہوں نے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے اس کا تمام تر ملبہ اپنی ٹیم پر ڈال کر ایک مختلف مثال قائم کی ہے، اس معاملے میں وہ سپورٹس مین سپرٹ نظر نہیں آئی وہ تمام عمر دعوے دار بنے رہے کہیں بھی وہ لیڈر نظر نہیں آرہا جو فرنٹ سے لیڈ کرتے ہوئے فتح کے ساتھ اپنی شکست کی ذمہ داری قبول کرے۔ یہ ہے وہ دہرا معیار جو پارٹی اوران کی حکومت میں ہر سطح پر مسلسل نظر آیا۔ نیک نام اور دیانت دار افراد ان سے علیحدگی اختیار کرتے رہے جن میں سابق جسٹس وجیہہ الدین، ایڈمرل جاوید اقبال اور ممبر قومی اسمبلی جاوید ہاشمی قابل ذکر ہیں۔ درجنوں دوست ایسے ہیں جنہوں نے پارٹی اور خان کی اس وقت ہر لحاظ سے سپورٹ کی جب وہ ایک انتخاب میں صرف ایک سیٹ حاصل کرسکے تھے، یہ سب دوست اپنی آنکھوںسے قول و فعل کا تضاد دیکھ کر ساتھ چھوڑ گئے، پھر انہوں نے کبھی پلٹ کر اِدھرنہ دیکھا، انہی وجوہات کی بنا پر زمانہ ٔحکومت میں کچھ ممبران قومی اسمبلی پارٹی چھوڑ کر مستعفی ہورہے تھے، انہیں ایجنسیوں کے ذریعے روکا گیا، عمران خان کا یہ اعتراف ریکارڈ پر موجود ہے، پارٹی اور حکومتی معاملات پر ان کی گرفت نہ ہونے کے برابر تھی، میرٹ نام کی کوئی شے نہ تھی جس پر عمل ہوتا نظر آتا رہی سہی کسر ان ڈویل نیشنیلٹی کے حامل افراد نے پوری کردی جنہیں قوم کے سر پر مسلط کردیاگیا اس موقعہ پر کسی بھی منصب کے لیے کوئی بھی عظیم پاکستانی ملک بھر میں نظر نہ آیا، انکے چاہنے والوں نے اُس روز اپنا سر پیٹ لیا جب انہیں خان کی زبانی معلوم ہوا کہ اپنے بہنوئی کے پلاٹ پر قبضہ چھڑانے کے لیے انہیں لاہور کے تین اعلیٰ افسر تبدیل کرنے پڑے، قبضہ گروپ حکومت پنجاب سے زیادہ طاقت ور تھے، بنیادی طور پر یہ علاقہ ایس ایچ او کے لیے ایک گھنٹے کا کام تھا جو اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب، صوبائی کابینہ، مرکزی وزیر داخلہ مل کر نہ کراسکے اور وزیراعظم وقت کی کئی روز تک نیندیں حرام رہیں، انہوں نے حکومت میں آنے سے قبل اور اقتدار کے دوران رٹ لگائے رکھی کہ چوروں کونہیں چھوڑوں گا، وہ کسی آٹا چور، چینی چور، ادویات چور کو گرفتار کرسکے نہ اُسے سزا دلاسکے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو درپیش مسائل کا حل ان کی کنٹینر پر کھڑے ہوکر کی گئی تقریروں میں ہے ، لیکن وہ سجدے میں نظر آئے جب قیام کا وقت تھا بلکہ ان کا مافیا کے سامنے سجدہ چار برس طویل تھا، ایک موقعہ پر ایک کارکن نے انہیں کہا کہ جناب پانی، بجلی اور سوئی گیس کے بل مہینے میں تین مختلف تاریخوں پر آتے ہیں ادائیگی کے لیے مہلت چند روزہ ہوتی ہے، تین مرتبہ ہر شخص کو ادائیگی کے لیے لائنوں میں لگنا پڑتا ہے برائے مہربانی کچھ ایسا انتظام کردیں کہ یہ تینوں بل ایک روز صارف تک پہنچ جائیں تاکہ وہ وقت اور پٹرول بچائے انہیں ایک ہی روز جمع کرادے، یہ کام بھی نہ ہوسکا شاید بہت مشکل تھا۔ گذشتہ چار برسوں میں قدم قدم پر محرومیاں سمیٹنے والے نظریاتی کارکن اب نفسیاتی کارکن نظر آنے لگے ہیں۔
جس روز انصافی حکومت کسی غیر ملک سے قرضہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ، وہ روز ان کے لیے روز ِ عید ہوتا، قوم کے ہر فرد کے لیے یوم سوگ، قومی پرچم تو لہلہاتا نظر آتا لیکن دلوںمیں لگا پرچم سرنگوں ہی رہا، گذشتہ متعدد حکومتوں سے زیادہ قرض انصاف حکومت نے لیا، ستم بالائے ستم نااہلی سے حکم دیا کہ ڈالر کو کھلا چھوڑ کر اِس کا رقص دیکھا جائے وہ ناچتا ناچتا زمین سے آسمان پر جا پہنچا اب کسی کے قابو میں نہیں، یہ انہوں نے کیا جنہیں ادراک تھا کہ ڈالر ایک روپیہ مہنگا ہوتو ملکی قرض میں ایک ارب روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے۔
عمران خان امداد کے نام پر خوب خیرات کرکے ووٹرز کا دل جیتنے کی کوششیں کرتے رہے، وہ بھول گئے غربت خیرات سے نہیں انصاف سے ختم ہوتی ہے، خان حکومت کے ناقدین کہتے ہیں وہاں سب کچھ تھا سوائے انصاف کے۔
الیکشن کمیشن کا فیصلہ سننے کے بعد ایک خاندان سے ملنے اور تاثرات پوچھنے گیا جنہوں نے عمران خان اور انکی پارٹی کے دل فریب نعروں میں اپنا تن من دھن سب کچھ لٹادیا، حال پوچھا تو تمام اہل خانہ کا ایک ہی جواب تھا ہم نے اپنی زندگیوں میں سے تحریک انصاف اور اس کے سربراہ کو دیئے چھبیس برس منہا کردیئے ہیں، ہمارا سفر رائیگاں گیا، جواب سن کر مجھے یوں لگا جیسے کرکٹ ورلڈ کپ کی ٹرافی کِرچی کِرچی ہوکر میرے قدموں میں بکھر گئی ہے، جو جانے کب تک قوم کی کئی نسلوں کے پائوں زخمی کرتی رہے گی، جو خواب کِرچی کِرچی ہوئے ان کا حساب نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button