Arshad AzizColumn

سرکاری شعبے میں مثبت تبدیلی کی نئی مثال ۔۔ارشد عزیز

ارشد عزیز

 

پاکستان میں سرکاری شعبہ اپنی کم افادیت اور غیر متاثر کُن کارکردگی کے باعث تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ اگرچہ کئی دہائیوں کے دوران اصلاحات سے متعلق کافی باتیں ہوتی رہی ہیں تاہم اب تک حقیقت میں کچھ بھی نہ ہوسکا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سرکاری شعبے میں اصلاحات کبھی بھی تقاریر اور پالیسیز سے آگے نہ بڑھ سکیں تاہم حال ہی میں ایک خاموش انقلاب برپا ہوتا محسوس ہوتا ہے جو سرکاری شعبے کے لیے بہت نایاب امر ہے۔ یہ سب کچھ سوئی ناردرن گیس میں ہورہا ہے۔ سوئی ناردرن گیس قدرتی گیس کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے شعبے میں گزشتہ چھ دہائیوں سے کام کررہی ہے۔

یہ ادارہ جس کا صدر دفتر لاہور میں ہے، نے بہت نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ یہ ادارہ جو کبھی اپنی بہترین کسٹمر سروسز اور قابل و ایمان دار افرادی قوت کی وجہ سے جانا جاتا تھا، کو کافی برے حالات کا بھی سامنا رہا اور وجوہ وہی تھیں جو کم و بیش ہر سرکاری ادارے کو درپیش رہتی ہیں۔یو ایف جی کی بلند شرح، کسٹمر سروسز کا گرتا ہوا معیار اور توانائی کے شعبے کو مارکیٹ کے لیے کھول دینے سے سوئی ناردرن گیس کا مقدر اس سے پہلے موجود سرکاری ادارے جیسا ہی نظر آتا تھا۔

سوئی ناردرن اس حوالے سے خوش قسمت کہی جاسکتی ہے کہ اسے کچھ عرصہ قبل علی جے ہمدانی کی صورت میں قابل چیف ایگزیکٹو ملا جو مشکل حالات سے نبرد آزما اس ادارے کے لیے گیم چینجر ثابت ہوئے۔ اس وقت سوئی ناردرن میں ایک اہم اصلاحات پروگرام پر عمل ہورہا ہے جس کے نتائج آنا بھی شروع ہوگئے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں سوئی ناردرن گیس نے زبردست منافع اور ڈیوڈنڈ وغیرہ کا بھی اعلان کیا۔علی جے ہمدانی پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور بین الاقوامی سطح کے اداروں میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ وہ اپنے کیریئر میں سیمنز، اے جی، لِنڈے ہیلتھ کیئر اور شنائیڈر الیکٹرک جیسے اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔ ان کا وسیع اور متنوع تجربہ اور کام کی بہترین صلاحیت نے انہیں سوئی ناردرن کے کامیاب ترین مینیجنگ ڈائریکٹرز میں سے ایک بنادیا ہے۔علی جے ہمدانی کے دور میں سوئی ناردرن گیس کا یو ایف جی کم ہوکر سنگل ہندسوں میں آگیا۔ یو ایف جی میں کمی کے تین سالہ پروگرام کے تحت سوئی ناردرن گیس نے پہاڑ جتنا ہدف طے کرنے کی ٹھانی۔ ادارے کے تحت آنے والے بہت سے علاقں خصوصاً خیبر پختونخوا کے کچھ علاقے کمپنی کے لیے بڑا چیلنج تھے۔ علی جے ہمدانی کو عہدے کا چارج سنبھالتے ہی مسئلے کی سنگینی کا ادراک ہوگیا

چنانچہ انہوں نے خیبر پختونخوا میں سوئی ناردرن کے نیٹ ورک کا طویل دورہ کیا۔ اس دورے سے انہیں وہاں کے زمینی حقائق سمجھنے میں مدد ملی۔ اُن کی صوبائی حکومت کے حکام، سیاسی اثرورسوخ کے حامل افراد اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں سے کئی میٹنگز ہوئیں تاکہ ایک قابلِ عمل حکمت عملی تیار کی جاسکے۔فیصلہ کیا گیا کہ گیس چوری کے خاتمے کے لیے منتخب علاقوں میں میٹر لگانے کی مہم شروع کی جائے گی۔

اس مہم نے یو ایف جی کے مسئلے سے نمٹنے میں بہت مدد دی۔ تمام ریجنز کو سختی سے ہدایات جاری کی گئیں کہ کسی بھی صنعتی صارف کی جانب سے گیس چوری کی کوشش کو ہرگز نہ برداشت کیا جائے۔ گیس چوری میں ملوث صنعتی اداروں پر فوری چھاپے مارے گئے۔ ان اجتماعی کاوشوں کے نتیجے میں ادارہ یو ایف کی شرح میں زبردست کمی لانے میں کامیاب ہوا اور یو ایف جی 12.32 فیصد سے کم ہوکر 8.6 فیصد تک آگئی جو قریباً پندرہ بی سے ایف بنتا ہے۔ یو ایف جی میں کمی کوئی معمولی کامیابی ہرگز نہیں ہے کیونکہ اس میں مسلسل اضافہ ہی کمپنی کو مکمل طور پر ڈبوسکتا تھا۔ ادارے کی یہ کامیابی ہر سطح پر ٹیکنولوجی کے موثر استعمال کے بغیر ناممکن تھی کیونکہ اس طرح ادارہ بدعنوانیوں پر قابو پانے اور موثر جوابدہی کا نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوا اور اسے رئیل ٹائم بنیادوں پر ڈیٹا تک رسائی حاصل ہوئی ۔

سوئی ناردرن سے متعلق دوسری عام ترین شکایت کسٹمر سروسز کا معیار تھی۔ علی جے ہمدانی ابتدا سے ہی اس پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔ انہوں نے ٹیکنولوجی کے موثر استعمال کے ذریعے کسٹمر سروسز میں انقلابی تبدیلی لانے پر زور دیا۔ کرونا کی وبا نے ان کے موقف کی تائید کردی۔ سوئی ناردرن نے اس صورتحال میں اورمنیجنگ ڈائریکٹر کے وژن کی روشنی میں فوری ردعمل دیا۔

صارفین کو سہولت پہنچانے کے لیے سوئی ناردرن کی ویب سائٹ کے ذریعے گیس کنکشن کی آن لائن درخواست جمع کرنے کی سہولت فراہم کی گئی۔ صنعتی صارفین کے لیے خصوصی سہولت فراہم کی گئی جس کے تحت کمپنی سے ایک نمائندہ خود صنعتی درخواست دہندہ کے مقام پر پہنچ کر تمام تر رہنمائی فراہم کرتا اور کنکشن کے لیے درکار دستاویزات مکمل کرواتا ہے۔ اسی طرح جس مقام پر کنکشن درکار ہوتا ہے، اُس مقام کے سروے کے عمل کو ڈیجیٹائز کردیا گیا ہے جس سے نہ صرف اس عمل کے لیے درکار وقت میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے بلکہ اس سے کسی بھی قسم کی بدعنوانی یا انسانی غلطی کے عنصر کا امکان بھی کم ہوگیا ہے۔ یہاں سوئی
ناردرن کی کنیکٹ آن ایپ کا ذکر کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ کنیکٹ آن ایپ کی مدد سے صارفین گیس کنکشن کی درخواست جمع کرنے، گیس بل کی ادائیگی، بل ہسٹری چیک کرنے اور شکایت کا اندراج بآسانی اپنے موبائل فون سے کرسکتے ہیں۔

اسی طرح سوئی گیس کے صارفین کو ‘ڈیجیٹائم سروس کے تحت کمپنی کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے شکایت درج کرنے کی بھی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایم ڈی سوئی ناردرن علی جے ہمدانی کی ہدایات پر سوئی ناردرن گیس نے عوام کی سہولت کے لیے کیوسک متعارف کروائے ہیں جو معروف عوامی مقامات پر لگائے جائیں گے۔ پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر پہلا کیوسک لاہور کے سب سے بڑے شاپنگ مال میں لگادیا گیا ہے جہاں صارفین تمام بنیادی ضروریات بآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ تمام اقدامات ایم ڈی سوئی ناردرن کی کسٹمر سروسز کے حوالے سے سنجیدگی کا مظہر ہیں کیونکہ یہاں کسی قسم کے بلند و بانگ دعووں کے بجائے عملی اقدامات نظر آتے ہیں۔ٹیکنولوجی کے استعمال اور تکنیکی غیر افادیت میں کمی سے زیادہ اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ آپ اپنے انسانی وسائل کا کس حد تک خیال کرتے ہیں کیونکہ یہی وہ عنصر ہے جو کسی ادارے کے استحکام پذیر مستقبل کا ضامن ہوتا ہے۔

ایم ڈی سوئی ناردرن کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ادارے میں لرننگ اور ڈویلپمنٹ کا کلچر پروان چڑھانے کی ٹھان رکھی ہے تاکہ انتہائی باصلاحیت افرادی قوت تیار کی جاسکے جو ہر قسم کے حالات میں کسی بھی مارکیٹ پلیئر کا بخوبی مقابلہ کرسکے۔ سوئی ناردرن میں تازہ شمولیت اختیار کرنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایم ڈی سوئی ناردرن نے ہر قسم کی مالی تفریق کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کیے اور شفافیت کو فروغ دیا جو صحیح سمت میں درست اقدام ہے۔اب تک پاکستان میں توانا ئی کے شعبے میں اجارہ داری تھی تاہم اب یہ ماضی کا قصہ ہوچکا۔

مارکیٹ پلیئرز اس شعبے میں آچکے ہیں اور حکومت تمام پلیئرز کو یکساں مواقع فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ مقابلے کی فضا اور سرکاری اداروں کی محدودات کے باعث کاروبار کے سکڑتے مواقع کو محسوس کرتے ہوئے ایم ڈی سوئی ناردرن اب بزنس کے نئے مواقعوں کے سرگرداں ہے۔ اس وقت پاکستان میں گیس ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے شعبے میں جتنی اعلیٰ تعلیم یافتہ، ہنر مند اور تجربہ کارافرادی قوت سوئی ناردرن کے پاس ہے، شاید ہی کسی اور ادارے کے پاس ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سوئی ناردرن بڑی پیمانے کے آئل اور گیس کے انفراسٹرکچر منصوبوں میں بطور کنٹریکٹر سامنے آنے کی تیاری کررہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button