ColumnKashif Bashir Khan

آگ کا دریا ! ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

پاکستان کی بدقسمتی تھی کہ پہلا مارشل لاء جو 1958میں لگا ،اس کا خاتمہ 1969میں عوام کے شدید احتجاج کے بعد ہوا تو ایوب خان نے اپنے ہی بنائے1962کے آئین کو توڑکراقتداردوسرے جرنیل جنرل یحییٰ خان کو سونپ دیاجنہوںنے پھر سے مارشل لگاکر1970کو عام انتخابات کا سال قرار دے دیا۔ذوالفقار علی بھٹو اس وقت پاکستان اور دنیا کے مقبول ترین لیڈر کے طور پر سامنے آ چکے تھے اور ایوب خان کے کمزور ہوتے اقتدار کے دنوں میں ہی جنرل یحییٰ خان کی نظر اقتدار پر تھی اور کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر ایوب خان صدارت سے استعفیٰ نہ دیتا تو جنرل یحییٰ خان نے زبردستی اقتدار پر قبضہ کر لینا تھا۔اقتدار حاصل کرنے کے بعد جنرل یحییٰ خان نے ایک طرف تو 1970 کے انتخابات کا علان کیاتو دوسری طرف وہ اپنے ناجائز اقتدار کی طوالت کی منصوبہ سازی میں مصروف ہو گیا۔ آئین کی غیر موجودگی کا حل اس نے لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے نکالا اور پاکستان کے ٹوٹنے میں اس لیگل فریم ورک کا بہت بڑا ہاتھ تھا کہ اس فریم ورک کے ذریعے ہی انتخابات کروا کے جنرل یحییٰ خان نے اقتدار عوام کا مینڈیٹ حاصل کرنے والے نمائندوں کو منتقل نہ کیا جس کے نتیجے میں ہم نے نہ صرف اپنا اکثریتی مشرقی حصہ گنوایا بلکہ بھارت سے جنگ بھی ہوئی اورقریباً 95 ہزار قیدی بھی بنوائے اور پانچ ہزار مربعہ میل علاقہ بھی بھارت کے قبضے میں چلا گیا تھا۔جنرل یحییٰ کو اس کے حواریوں نے بتایا تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں کوئی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اور مغربی پاکستان سے مختلف جماعتیں پندرہ یا بیس سیٹوں سے زیادہ حاصل نہیں کر پائیں گی ، بھٹو کی سیٹیں کسی طور تیس سے زیادہ نہیں ہوں گی،مشرقی پاکستان میں بھی کوئی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اور انتخابات کے بعد ایسی کمزور اسمبلی معرض وجود میں آئے گی جس میں کسی کی اکثریت نہیں ہو گی اور وہ بطور صدر پاکستان برقرار رہیں گے۔ جنرل یحییٰ نے اپنے مفاد میں لیگل فریم ورک بنایاتھا اور اس کی شرائط بھی ایسی تھیں کہ صدر پاکستان جب چاہتا منتخب اسمبلی کو گھر بھیج دیتا۔جس لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت 70 کے الیکشن ہونا قرار پائے تھے اس کے مطابق نو منتخب اسمبلی پر لازم تھا کہ 120 دن کے اندر نیا آئین پاکستان بناتی اور اس کی منظوری صدر پاکستان سے لیتی۔اگر صدر اس آئین کی منظوری نہ دیتا تو وہ آئین دوبارہ اسمبلی میں جاتا اور اسے ٹھیک کر کے دوبارہ صدر پاکستان کے پاس منظوری کے لیے بھیجا جاتا۔دوسری مرتبہ بھی صدر پاکستان اس کی منظوری نہ دیتا تو منتخب اسمبلی کو غیر منتخب صدر پاکستان تحلیل کر سکتا تھا۔اگر اسمبلی 120 دن میں آئین نہ بنا سکتی تو لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت اسمبلی خودبخود تحلیل ہو جاتی۔اس ایل ایف او کی سب سے خطرناک بات یہ تھی کہ اس میں کسی بھی کسی قسم کی تبدیلی غیر منتخب اور ڈکٹیٹر صدر کے علاؤہ کوئی بھی منتخب نمائندہ نہیں کر سکتا تھا۔جنرل یحییٰ خان کو یقین دلایا گیا تھا کہ ملک کے دونوں حصوں میں کوئی بھی سیاسی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی اور لولی لنگڑی اسمبلی کو وہ جب چاہئیں گے فارغ کرکے اپنی حکمرانی جاری رکھ سکیں گےلیکن مغربی حصے میں جہاں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی بے پناہ مقبولیت سے انتخابات میں اکثریتی سیٹوں پر کامیابی حاصل کر لی وہاں شیخ مجیب الرحمان نے اپنے چھ پوائنٹس کے بل بوتے پر لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کر کے وزارت اعظمیٰ کی کرسی کا مطالبہ کر دیا۔شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات عملاً ملک کو دو ٹکڑوں میں بانٹنے کے برابر تھے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے مشہور اور متنازعہ چھ نکات تو 1966 میں پیش کر دیئے تھے اور اس پر انتخابات کے وقت اگر تلہ سازش اور غداری کا مقدمہ بھی چل رہا تھا تو پھر اس کے چھ نکات کو اس وقت کیوں نہیں روکا گیا۔اس کا جواب پھر یہی ہے کہ ہوس اقتدار میں مبتلا جنرل یحییٰ خان کو اس کے حواریوں نے یقین دلایا تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اکثریت نہیں ملے گی ۔

شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات پر بھٹو بات چیت کرنے پر تیار تھے اور ان پر مذاکرات ہوئے بھی لیکن مجیب اپنے چھ نکات سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھا اور اس کا ملک کے دونوں حصوں کی الگ ملیشیا اور پیرا ملٹری فورس اور الگ کرنسی کا نکات کسی طور پر بھی پاکستان کی وحدانیت کے حامل نہیں تھے۔ صوبوں کواختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم اور فراہمی سے تو کسی کو بھی اختلاف نہیں ہو سکتا تھا لیکن ملک کے دونوں حصوں کو غیر ممالک سے کاروبار کرنے کو مرکز کی کسی بھی قسم کی اجازت سے بالا قرار دینا بھی ایک خطرناک شق تھی جس کا بالآخر نتیجہ ملک کا ٹوٹنا ہی تھا۔ مجیب دراصل 1940 کی قرارداد کے مطابق ایسی فیڈریشن چاہتا تھا جس میں پاکستان کے تمام صوبوں کی شرکت رضاکارانہ ہو اور وہ جب چاہیں اس فیڈریشن سے علیحدہ ہو سکیں۔اگر اس وقت میں شیخ مجیب الرحمن کی تمام شرائط کو ذوالفقار علی بھٹو مان لیتے تو پھر آج پاکستان کے خدانخواستہ پانچ یا چھ حصے ہوچکے ہوتے۔

اس خطرناک صورتحال میں حالات کی سنگینی کا ادراک کئے بغیر جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن کا اعلان کردیا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور بنگالی جو 1947 سے 1970 تک احساس محرومی کا شکار تھے اور ہمیشہ اپنے حقوق کی بات کرتے تھے ،نے ملٹری ایکشن کو اپنے مینڈیٹ پر ڈالا جانا۔ایسا سوچنے اور سمجھنے میں وہ حق بجانب تھے کہ عوامی لیگ نے غالب اکثریت حاصل کی تھی اور ملک کا اقتدار ان کا ہی حق تھا،گو شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات پاکستان کی وحدانیت اور مرکز کو توڑنے کے مترادف تھے،لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مشرقی پاکستان کے عوام نے 1970 میں اکثریتی فیصلہ شیخ مجیب الرحمٰن اور عوامی لیگ کے حق میں دے کر چھ نکات کی تائید کر دی تھی۔لیکن پھر بھی ہوس اقتدار میں مبتلا جنرل یحییٰ خان نے اکثریتی سیاسی جماعت عوامی لیگ سے انتقال اقتدار کے لیے کوئی بھی مثبت اور سنجیدہ مذاکرات نہیں کئے کیونکہ اگر ہم یحییٰ خان حکومت کے ایل ایف او کو پڑھیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ انتخابات تو کروانا چاہتا تھا لیکن منصفانہ انتقال اقتدار کبھی بھی ان کا مطمع نظر نہیں تھا اور وہ ملک کے دونوں حصوں کو ایک کمزور اسمبلی کے ذریعے زیر اثر رکھ کر صدارت کبھی بھی نہیں چھوڑنا چاہتا تھے۔ دراصل جب یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اس وقت بھی تمام سیاست دان بکھرے ہوئے اور ملک میں گیارہ سالا مارشل لا کے باعث تھکے ٹوٹے تھے اور جنرل یحییٰ کے ایل ایف او پر اعتراض کرنے والوں کی تعداد بہت کم تھی ۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب گو لاتعداد تھے اوربنگالی زبان سے شروع ہونے والے جھگڑے نے بعد میں نفرتوں کو ایسی ہوا دی کہ دونوں جانب کے مسلمان ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو گئے لیکن مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی کے تابوت میں آخری کیل جنرل یحییٰ کا لیگل فریم ورک آرڈر ہی بنا تھا جس میں ہوس اقتدار اور اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا ایک ملک دشمن ایجنڈا موجود تھا۔بنگال کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو وہ مرہٹوں اور انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی ایک تاریخ رکھتے ہیں اور یہی وہ حقیقت ہے جسے 1970 میں ملٹری ڈکٹیٹر جنرل یحیٰی خان اور اس کے اقتدار کے بھوکے حواری بری طرح نظر انداز کر کے اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش میں ملک کے دو ٹکڑے کروا بیٹھے۔آج ہم جب شیخ مجیب الرحمٰن کو غدار کہتے یا لکھتے ہیں تو بنگالیوں کو اس نہج تک لانے والوں کا ذکر نہیں کرتے جو بیت بڑی بددیانتی ہے۔ہاکستان کے موجودہ حالات بھی ایسے ہی ہیں کہ یہاں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی ہوا چلی ہوئی ہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں عوام نے بہت بڑی تعداد میں باہر نکل کر اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے والے تمام طاقتور حلقوں کو بری طرح ناکام کیا ہے۔عوامی بیداری کی تبدیل شدہ صورتحال میرے لیے شدید پریشانی کا باعث اس لئے ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان بلا شبہ اس وقت مقبولیت کے عروج پر ہیں اور عمران خان کی باتیں جمہور کے دلوں میںتیرہو رہی ہیں کہ الیکشن کمیشن اور دوسرے طریقوں سے اقلیت میں تبدیل کرنے کی مسلسل کوششیں ملک کے لیے خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہیں کہ عوام ملکی دولت لوٹنے والوں کے خلاف سینہ سپر نظر آرہے ہیں اور یہ عوامی بیداری ملک میں خانہ جنگی کا آغاز بھی ہو سکتی ہے بزور طاقت اکثریت کو اقلیت میں بدلنا جمہور کے حق کو ضبط کرنے کے مترادف ہے جس کے بہت سنگین نتائج برآمد ہونگے۔چارہ سازوں اور طاقتور حلقوں کو سوچنا ہو گا کہ ملکی بدترین اقتصادی حالت کے تناظر میں پاکستان آگ کے دریا کے دہانے کھڑا ہےاور ایسے کسی ’’تجربے‘‘ کا ہرگز مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button