CM RizwanColumn

کچھ اسداللہ غالب کے متعلق ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

برصغیر پاک و ہند کی صحافت کی مجموعی ہیئت کی بات کی جائے تو ماننا پڑے گا کہ مولانا ظفر علی خان کے زمانے تک آتے آتے اگرچہ خبر اور تبصرہ الگ الگ زمروں میں منقسم اور مستحکم ہوچکے تھے لیکن صحافت بذاتِ خود ادب کی ایک ذیلی صِنف سے زیادہ کچھ حیثیت قائم نہ کر پائی تھی اور ہر معروف اخبار نویس بنیادی طور پر ایک مستند اور برکار ادیب، شاعر اور انشاء پرداز ہونے کے باوجود محض ایک صحافی تھا۔ اس دور میں عربی فارسی کا عِلم ہر اچھے صحافی کا بنیادی وصف بھی تھا اور ضرورت بھی جبکہ انگریزی سے شناسائی ایک اضافی صلاحیت مانی جاتی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ مولانا ظفر علی خان، محمد علی جوہر، عبدالمجید سالک، غلام رسول مہر اور چراغ حسن حسرت وغیرہ کے بعد آنے والی اخبار نویسوں کی کھیپ میں اپنے کلاسیکی علمی و ادبی سرمائے سے واقفیت کم ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ اس زمانے تک آتے آتے عربی اور فارسی بالکل اجنبی زبانیں بن گئیں۔ اس طرح صحافت کا چمن شعر و ادب کے نگینوں اور زبان و بیان کے درخشاں ہیروں سے یکسر محروم ہوگیا۔ اب جبکہ اردو صحافت اخبار کی وادی سے نکل کر ٹیلی ویژن، سوشل میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا اور ویب سائٹ کے میدان میں آکر نقاب رخ الٹ چکی ہے تو زبان وادب اور شیرینی بیان کی حیثیت محض اُس قدیم صندوق کی سی ہو چُکی ہے جس میں پرانا اور غیر مستعمل سامان ڈال کر اس غیر ضروری اور غیر آباد مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے، جہاں عام طور پر کسی کا گزر ہی نہیں ہوتا۔ زبان وکلام اور کلاسیکل ادب سے یکسر منہ موڑ کر اب تمام تر توجہ اِطلاع اور خبر پر مرکوز کر دی گئی ہے اور یہ سوال پس منظر میں چلا گیا ہے کہ مواد یا مضمون کس طرح کی زبان یا کون سے الفاظ کی مدد سے یا کس طرزِ تحریر کے ذریعے سننے، دیکھنے اور پڑھنے والوں تک پہنچایا جا رہا ہے۔

اب تو ایک ملکی سطح کا سیاستدان بھی اردو ادب اور زبان وکلام کی مہارت سے محرومی کے باعث اگر بندوق کی شست باندھنے کو ’’نشست لگانے‘‘کے الفاظ دے کر قوم کو متوجہ کرنے کی کامیاب کوشش کرلیتا ہے تو ملک وقوم کے کسی ادب پسند صحافی کا ماتھا نہیں ٹھنکتا اور کوئی بھی ادیب، دانشور یا اہل زبان آگے بڑھ کر تصحیح کرنے کا ادبی و علمی فریضہ ادا نہیں کرتا بلکہ مشینی انداز میں تقریر جوں کی توں رپورٹ کردی جاتی ہے کیونکہ مقابلہ اب ریٹنگ اور فوری خبر پہنچانے کا ہے۔ اس بھاگم بھاگ میں ادب اور علم ثانوی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔

موجودہ حالات میںصحافتی اخلاقیات کا موازنہ کیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب پاکستان میں کتنے صحافی ایسے ہیں جو سو فیصد اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہوں گے اور پھر یہ کہ کتنے کالم نگار اور مضامین نگار ایسے ہیں جو اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے اپنے پاس اردو ادب کے بیش بہا ثقافتی خزینوں کے ساتھ ساتھ جدید انگریزی زبان و ادب کے ذخائر بھی بقدر وافر رکھتے ہیں۔اہالیان صحافت کا یہ قبیلہ یقیناً اب مختصر سا رہ گیا ہے، ان قلم کاروں میں دیگر کے ساتھ ساتھ ایک نمایاں نام اسداللہ غالب کاہے۔ ساری زندگی صحافت کے مختلف شعبوں میں خدمات سر انجام دیتے دیتے اب وہ اپنی ذات میں ہی ایک ادارے اور ایک اکیڈمی کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ ان کا دردمند دِل ہر مصیبت زدہ کے لیے ہمہ وقت تڑپتا ہے۔ سوز دروں سے لبریز ان کا یہ دل دنیا کے ہر مظلوم کی آہ و بکا میں ہر وقت عملاً شامل ہوتا ہے۔ بحیثیت قلم کار کے اسد اللہ غالب کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ فرقہ وارانہ نفرت، مذہبی تشدد،اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ،قومی اخلاقیات کی پامالی اور سوسائٹی میں موجود معاشی و معاشرتی ناہمواریوں کے موضوعات پر قلم آرائی انتہائی سلیقے، جرأت اور اپنے مخصوص دل نشین انداز میں ہمیشہ اپنا فرضِ اولین سمجھ کر کرتے ہیں۔وہ نعرے اور اشارے کے درمیان فرق اور توازن کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ انتہائی مہارت اور سلجھاؤ سے اپنے قاری کو بھی اپنے انداز فکر کا قائل اور کامیاب عامل بنا دیتے ہیں۔جانبداری اور تابعداری کے مقابلے میں کوشاں موجودہ میڈیائی دوڑ میں شامل رہ کر ایک آزاد اور منصفانہ تاثر قائم رکھنا ان کا ہی خاصا ہے۔ ہماری حالیہ سیاسی و صحافتی تاریخ من حیث المجموع کوئی قابل قبول تاریخ نہیں لیکن یہ بات دعویٰ کے ساتھ کی جا سکتی ہے کہ کالم نگار ہونے کے ناطے موصوف کا کام اس قابل ہے کہ اسے مثبت صحافت اور حقیقی تجزیہ نگاری کے مکتب کا ایک اہم ترین باب قرار دیا جا سکے۔ ان کے زندگی بھر کے اس حقیقت نامے کو یقینی طور پر مستقبل کا مورخ بھی اہم دستاویز کے طور پر قدر کی نگاہ سے دیکھے گا اور عام طور پر لازم سمجھے جانے والے سیاسی دباؤ یا اِدارتی مصلحتوں سے ماوراء ہوکر صورتِ حالات کے معروضی تجزیئے پر مبنی ان کے کالم عصر حاضر اور مستقبل کے نو آموز صحافیوں کے لیے پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ حق شناسی اور حق گوئی کی کسوٹی کا درجہ حاصل کریں گے۔

ان کا طرز تحریر یہ ہے کہ وہ دلائل و براہین اور اعلیٰ حکومتی شخصیات کے بیانات کی روشنی میں رائے دیتے ہوئے واضح کردیتے ہیں کہ اصل حقائق کیا ہیں اور پھر یہ کہ کیا کچھ جان بوجھ کر چھپایا جارہا ہے۔ کیا پوشیدہ رکھنا تھا اور ظاہر کیا جارہا ہے اور کیا ظاہر کیا جاتا ہے جو کہ پوشیدہ رکھنا تھا اور یہ کہ اس ساری صورتحال کے کون کون سے نقصانات و مضمرات کا ملک وقوم کو سامنا کرنا پڑے گا۔ سب کچھ لکھ دیتے ہیں۔انہی حالات و حقائق کی روشنی میں وہ انتہائی مہارت اور چابک دستی سے آنے والے دنوں میں سیاسی و سماجی اور مذہبی ومعاشی حالات کی خبر دے دیتے ہیں۔

ملکی تاریخ کے بعض ادوار میں پارلیمان کی امتیازی قانون سازی پر بھی انہیں رنج ہوا اور اس مجموعی زیاں کاری پر افسوس ہوا تو انہوں نے کھل کر تنقید بھی کی اور پر مغز اور قابل عمل تجاویز بھی دیں۔ جب جمہوریت پر آمریت نے شب خون مارا تو بھی شخصی آزادی اور پاکستان کی ازلی مقصدیت کا علم لے کر اسداللہ غالب آواز بلند کرتے سنائی دیئے۔ پھر جب جمہوریت کے لبادے میں آمریت کے پروردہ عناصر پارلیمان میں گھس کر بیٹھ گئے تو بھی ان کا قلم حرکت میں آیا۔ رواجی اجارہ داریوں اور روایتی بدمعاشیوں کے خلاف وہ ہمیشہ قلم بدست رہتے ہیں۔ ان کی یہ ایک واضح اور مستند سوچ ہے کہ کسی بھی ملک کی فوج جب کسی ملک کے اقتدار پر قابض ہوتی ہے تو اس کا مقصد عوام کے بہترین مفاد کو مقدم رکھ کر مجموعی قومی ترقی کی راہیں کھولنا نہیں ہوتابلکہ ہر فوجی حکمران کا خواب ملک کو ایک ایسی چراگاہ بنانا ہوتا ہے جہاں عوام کی شکل وصورت میں بہت سی بھیڑ بکریاں اُس کے تصور میں پر اُترنے والی ہر الٹی سیدھی بات کو نعوذباللہ حکمِ خداوندی سمجھیں۔ اسداللہ غالب کا نظریہ ہے کہ ایک دانش ور اس مجسم انکار اور بیدار سوچ کا نام ہے جو اپنے دور کے ہر چھوٹے بڑے آمر کو للکارتی ہے۔ ہر آمر کا خواب چکناچور کردیتی ہے اور اس کا محاسبہ ومحاصرہ کرنے کے لئے ہمہ وقت اپنے منطقی طرزِ بیان اور فلسفیانہ استدلال کے ساتھ میدان عمل میں رہتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ایک دانشور وقت پڑنے پر سقراط کی طرح زہر کا پیالہ پی لینے پر بھی آمادہ ہو جاتا ہے مگر اپنی قوم کو حق سچ بتانے سے گریز نہیں کرتا۔

بعض اوقات اسے شدید جانی ومالی اور روایتی ساخت کی معاشی و معاشرتی مشکلات سے بھی دست و گریباں ہونا پڑتا ہے لیکن وہ کہیں بھی اپنے طرزِ استدلال پر سمجھوتہ نہیں کرتا۔ اسداللہ غالب کی تحاریر میں جگہ جگہ یہ احساس سر اُٹھاتا نظر آتا ہے کہ اجارہ دارطبقے کی ہمیشہ یہ انتہائی گہری منظم اور مربوط سازش اور کوشش ہوتی ہے کہ ملک بھر کے ہوٹلوں، چائے خانوں میں بیٹھ کر باہمی بحث ومباحثہ کرنے والوں اور بسوں اور ویگنوں میں سفر کرنے والے اردو اخبار پڑھنے والوں کو ملاؤں کے تقدس، مذہبی سیاست کی طہارت، کشمیر اورجہاد فی سبیل اللہ کی بھاری خوراک روزانہ کی بنیاد پر پلانا ازحد ضروری ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عصر حاضر کے اردو صحافت کے غالب کا انداز بیان اپنے منطقی سلجھاؤ کے ساتھ آندھی اور روایتی جانبداری کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا نہیں ہے۔ ان کی جانبداری ضرور ہے مگر قوم کی صحیح خطوط پر رہنمائی اور لٹیروں کے چہروں کی پردہ کشائی کے ساتھ۔ وہ اردو شعر و ادب کے برمحل حوالوں کے ساتھ صحافت کے صحرا کو بھی گل و گلزار کر دینے کی کامیاب کوشش ہمیشہ جاری رکھتے ہیں۔ ان کی تحاریر اور کالمز کا اصل خاصہ یہ ہے کہ یہ قاری کے ذہنی اُفق کو وسیع تر کردیتے ہیں۔ ان کے قارئین خبر اور تجزیہ سے آگے جا کر شعور، ادراک اور حالات کی پیش بینی اور پیش بندی خود کرنے پر قادر اور ماہر ہو جاتے ہیں۔یوں صحافت کے ذریعے نہ صرف ذہن سازی بلکہ قوم کی ترتیب و تشکیل اور ملت کی تزئین و آرائش کا کام بھی ان کے قلم کی نوک سے جاری وساری ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button