تازہ ترینخبریںسیاسیات

پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا 7 سال سے زیرالتوا فیصلہ اب سے کچھ دیر میں سنایا جائے گا

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف 2014 سے زیرالتوا ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ بالآخر آج اب سے کچھ دیر میں سنایا جائے گا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے فریقین کے دلائل سننے کے بعد 20 جون کو محفوظ کیا گیا فیصلہ آج چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں نثار احمد اور شاہ محمد جتوئی پر مشتمل 3 رکنی بینچ سنائے گا۔

دوسری جانب پی ٹی آئی نے چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) کے خلاف 2 صوبائی اسمبلیوں سے قراردادیں منظور کروانے کے بعد ان کے استعفے کے مطالبے کے لیے 4 اگست کا اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

یہ فیصلہ ایسے وقت میں سنایا جا رہا ہے جب 20 جون کو الیکشن کمیشن کی جانب سے فیصلہ محفوظ کیے جانے کے بعد چیف الیکشن کمشنر کے خلاف مہم میں تیزی آئی اور حال ہی میں فنانشل ٹائمز میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ کس طرح برطانیہ میں ایک چیریٹی کرکٹ میچ کے ذریعے جمع ہونے والے 20 لاکھ ڈالر پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس میں آئے اور اس عمل میں بزنس ٹائیکون عارف نقوی کا کیا کردار رہا۔

ممنوعہ فنڈنگ کیس

پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کی جانب سے دائر کیا گیا یہ کیس 14 نومبر 2014 سے زیر التوا ہے، اکبر ایس بابر نے پاکستان اور بیرون ملک سے پارٹی کی فنڈنگ میں سنگین مالی بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا تھا، تاہم عمران خان اور پارٹی رہنماؤں کی جانب سے اس حوالے سے کسی بھی غیر قانونی کام کی تردید کی جاتی رہی ہے جن کا یہ مؤقف ہے کہ مذکورہ فنڈنگ ممنوعہ ذرائع سے نہیں ہوئی۔

مارچ 2018 میں ایک ماہ کے اندر پی ٹی آئی کی غیر ملکی فنڈنگ کا جائزہ لینے کے لیے تشکیل دی گئی الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی نے بالآخر 4 سال بعد 4 جنوری کو اپنی رپورٹ جمع کروائی، اس مدت کے دوران اس حوالے سے تقریباً 95 سماعتیں ہوئیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے طلب کیے گئے ریکارڈ کی 8 جلدوں پر مبنی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ پی ٹی آئی قیادت نے بھارتی شہریوں اور بیرون ملکی کمپنیوں سمیت دیگر غیر ملکیوں سے ذرائع آمدن اور دیگر تفصیلات کے بغیر لاکھوں ڈالرز اور اربوں روپے جمع کرکے فنڈنگ قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔

رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ پی ٹی آئی نے غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے فنڈنگ حاصل کی اور فنڈز کے اصل حجم اور درجنوں بینک اکاؤنٹس کو چھپایا۔

رپورٹ میں پارٹی کی جانب سے بڑی ٹرانزیکشنز کی تفصیلات بتانے سے انکار اور پی ٹی آئی کے غیر ملکی اکاؤنٹس اور بیرون ملک جمع کیے گئے فنڈز کی تفصیلات کے حصول میں پینل کی ناکامی کا بھی ذکر کیا گیا۔

یہ رپورٹ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے دستخط شدہ سرٹیفکیٹ پر بھی سوالیہ نشان لگاتی ہے جو پی ٹی آئی کے آڈٹ شدہ اکاؤنٹس کی تفصیلات کے ساتھ جمع کروایا گیا۔

رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی نے سال 10-2009 اور 13-2012 کے درمیان 4 سال کی مدت میں اکھٹے کیے گئے فنڈز کے اصل حجم سے 31 کروڑ 20 لاکھ روپےکم رقم ظاہر کی، سالانہ تفصیلات بتاتی ہیں کہ صرف مالی سال 13-2012 میں 14 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد کی رقم ظاہر نہیں کی گئی۔

رپورٹ میں پی ٹی آئی کے 4 ملازمین کو ذاتی اکاؤنٹس میں چندہ وصول کرنے کی اجازت دیے جانے کے تنازع کا بھی حوالہ دیا گیا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا کہ ان کے اکاؤنٹس کی چھان بین کرنا کمیٹی کے دائرہ کار سے باہر ہے۔

تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے تمام جماعتوں کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کے مقدمات کو اکٹھا کرنے اور ایک ساتھ اس کا فیصلہ سنائے جانے پر اصرار کیا جاتا رہا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے زیر قیادت حکمران اتحاد کئی روز سے فیصلے کے جلد اعلان کا مطالبہ کر رہا تھا۔

دریں اثنا پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے سے قبل ریڈ زون کی سیکیورٹی کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے جہاں ایک ہزار پولیس اہلکار تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اینٹی رائٹ فورس بھی ریڈ زون میں رہے گی جبکہ غیر متعلقہ افراد ریڈ زون میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔

پی ٹی آئی کا 4 اگست کو الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کا اعلان

دوسری جانب گزشتہ روز چیئرمین پی ٹی آئی نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے استعفے کے مطالبے کے لیے الیکشن کمیشن کے باہر 4 اگست کو احتجاج کی کال دے دی۔

انہوں نے کہا کہ ‘خیبرپختونخوا اور پنجاب کی اسمبلیوں نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف قراردادیں منظور کی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا چیف الیکشن کمشنر پر اعتماد ختم ہو گیا۔

ان کا کہنا تھا کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے آزادانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں (ای وی ایم) متعارف کروانے کی پوری کوشش کی لیکن چیف الیکشن کمشنر نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے لیے دھاندلی کے نظام کو محفوظ بناتے ہوئے ان تمام کوششوں کو سبوتاژ کردیا۔

قبل ازیں 30 جولائی کو عمران خان نے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں سے ملاقات کا الزام عائد کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف جوڈیشل کمیشن میں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کیا تھا، اس فیصلے پر الیکشن کمیشن حکام کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی نے بھی تنقید کی تھی اور اسے الیکشن کمیشن کو ’بلیک میل کرنے کی کوشش‘ قرار دیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button