Editorial

درآمدی اشیا پر عائد پابندی کا خاتمہ

وفاقی حکومت نے موبائل فون، سی بی یو اور گھریلو اپلائنسز کے سوا وزارت تجارت کے نوٹیفکیشن کے تحت درآمد کے لیے ممنوع قرار دی جانے والی اشیاء کی درآمد پر عائد پابندی ختم کر دی ہے۔ سینٹری باتھ روم ویئرز، سگریٹ، کنفیکشنری کی اشیا، کارن فلیکس، ٹشو پیپر، کراکری، ، مچھلی، فٹ وئیر، آئس کریم، لگژری لیدر جیکٹس اور دیگر اشیاء شامل ہیں۔ وزارت کامرس نے اپنی سمری میں کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارہ کو ختم کرنے کے لیے 33کیٹیگری کی اشیاء پر پابندی لگا دی گئی تھی اور ان اشیاء کی درآمد میں69 فی صد کمی آ ئی ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ان ممنوعہ اشیاء کو چھوڑ کر یکم جولائی کے بعد بندرگاہوں پر آنے والی اشیاء پر25 فی صد سرچارج لگا کر کلیئر کر دیا جائے۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی صدارت میں اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں متذکرہ فیصلے سمیت گندم کی درآمد کے لیے ٹینڈر سمیت کئی ایک معاملے زیر بحث آئے۔ رواں سال مئی میں وفاقی حکومت نے جولائی سے اپریل تک ملک کو39ارب 20کروڑ ڈالر کے تجارتی خسارہ کے باعث درآمدات کو محدود کرنے کا فیصلہ کیااور گاڑیوں،کھانے پینے کے آئٹمز، سامان تزئین اور آرائش سمیت لگژری آئٹمز کی درآمد پر پابندی یا ان پر ڈیوٹی ریٹس میں اضافہ کرکے مزید مہنگا کیا جس کا واحد مقصد تجارتی خسارے پر قابو پانا تھا۔ جن اشیا پر پابندی لگائی گئی ان میں سپر سٹورز پر فروخت کے لیے درآمد کی جانے والی اشیاء مثلاً کتے اور بلیوں کی خوراک، چیز، مکھن اور دیگر اشیاء ، 1800 سی سی اور اس سے زائد کی گاڑیوں کی درآمد پر 100 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی اور 35 فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد کرنا بھی شامل تھا اسی طرح موبائل فونز اور سرامک ٹائلز کی درآمد پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی اور درآمدی مشینری پر بھی 10 سے 30 فیصد ڈیوٹی عائد کی گئی یوں کارنیول جیپ، لگژری واٹر بوٹس، امپورٹڈ موبائل فون اورگھڑیاں بھی بھاری ڈیوٹیز کی زد میں جبکہ دیگر اشیا پابندی کی زد میں آئیں۔ لگژری اشیا استعمال کرنے والے اور تجارتی طبقہ اگرچہ اِن پابندیوں سے ناخوش تھا لیکن معاشی ماہرین ، عامۃ الناس اور معیشت کی سمجھ بوجھ رکھنے والے خوش تھے کہ ملک شدید معاشی بحران سے دوچار ہے، تجارتی خسارہ قابو سے باہر ہوچکا ہے لیکن لگژری زندگی گزارنے والوں کی خواہشات پھر بھی پوری کی جارہی تھیں ۔ وفاقی حکومت کی طرف سے اِن اقدامات کا مقصد ملک کے درآمدی بل کو کم سے کم کرنا تھا تاکہ تجارتی خسارے کے ساتھ ساتھ اکائونٹ کے خسارہ پر بھی قابو پایا جاسکے، دو ماہ قبل جب متذکرہ اشیا پر پابندی لگائی گئی اُس وقت مالی سال کے دوران گیارہ ارب ڈالر سے زائد کے موبائل فونز، گاڑیاں ، لگژری آئٹمز اور امراء کے استعمال میں آنے والی خوراکیں درآمد ہوچکی تھیں اور پابندی

لگاتے وقت حکومت کو توقع تھی کہ فوری پابندی کے درآمدی بل میں مالی سال کی باقی ماندہ مدت میںکم از کم ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی کمی لائے جائے گی۔اگرچہ پابندی کا مقصد معیشت کو بہتر کرنا تھا اور جن درآمدی اشیا پر پابندی عائد کی گئی ان کی مالیت سالانہ 6 ارب ڈالرز بنتی ہے،یقیناً پابندی سے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہونا تھے لیکن ایک روز قبل ہی پابندی ختم کردی گئی اور حیران کن امر تو یہ ہے کہ متذکرہ فیصلہ اِن حالات میں سامنے آیا ہے جب امریکی ڈالر 240روپے کے لگ بھگ ہوچکا ہے، سونے کی قیمت ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور سٹاک مارکیٹ اوپر جانے کی بجائے ہچکولے کھاتی نیچے جارہی ہے اگرچہ گذشتہ روز ڈالر اور سونے کی قیمت میں کمی جبکہ سٹاک مارکیٹ میں بہتری دیکھی گئی مگرڈالر اور سونے کی قیمت کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان اور آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے قرض نہ ملنے کی وجہ سے جو صورتحال ہے اس کو تشویش ناک نہ کہاجائےتو پھر کیا کہا جائے؟ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے فیصلوں پر نظرثانی کرنی چاہیے کہ ایک طرف معیشت کی بحالی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے، دکانیں بازار سرشام بند کرائے جارہے ہیں ایسی ہی کئی پابندیاں روزہ مرہ زندگی کے معمول کو متاثر کررہی ہیں لیکن پھر بھی عوام نہ چاہتے ہوئے بھی ان پابندیوں کو قبول کررہے ہیں مگر دوسری طرف اشرافیہ کی ناراضی سے بچنے کے لیے لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی ختم کی جارہی ہے جو قطعی مناسب فیصلہ معلوم نہیں ہوتاکیونکہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ معاشی حالات اِس سے کہیں زیادہ مشکل فیصلوں کا تقاضا کرتے ہیں، جتنا بڑا بحران ہو اُس کا حل بھی اُتنا بڑا ہی تلاش کرنا پڑتا ہے۔ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا بوجھ عام پاکستانی پر منتقل کرنے کی بجائے اشرافیہ پر منتقل کرنے میں، کوئی حرج نہیں، کوئی قیامت نہیں آئے گی اگر ہم ملک و قوم اور اپنی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے کچھ عرصہ اُڑن طشتری نما گاڑیوں اور پروٹوکول والی زندگی سے باہر نکل کر غریبوں کی سواری موٹر سائیکل یا چھوٹی کار میں سفر کرلیں اور تبھی سفر کریں جب انتہائی ناگزیر ہو، جب بڑی گاڑیوں کا سڑکوں پر استعمال کم ہوگا تو یقیناً پٹرول کی بچت سے درآمدی بل بھی کم ہوگا، یہ ایک چھوٹی سی تجویز ہے حالانکہ معاشی ماہرین اِس حوالے سے بہترین منصوبہ بندی کرکے معاشی مسائل کو کم سے کم کی سطح پر لاکر ختم کرسکتے ہیں، کرونا وبا کے دوران چند دن کے لاک ڈائون کے نتیجے میں نہ صرف فضائی آلودگی میں حیرت انگیز طور پر کمی ہوئی بلکہ لوگوں کی صحت بھی بہتر ہوئی کیوں کہ سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد کم ہوئی ۔ تو کیا ہم ایسے ہی اقدامات کے ذریعے اپنے معاشی مسائل ختم نہیں کرسکتے؟ اگر کچھ عرصے کے لیے سڑکوں پر اُڑن طشتریاں لانے سے منع کردیا جائے تو عام آدمی کی مالی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے تب ممکن ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہ بڑھانی پڑیں یا معمولی اضافہ کرنا پڑے۔ حکومت کو ایسے فیصلے کرنا پڑیں گے جن کے واقعی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں اور عوام کو بھی ’’امپورٹڈ‘‘ کے سحر سے باہر نکلنا ہوگا وگرنہ کسی سیاسی جماعت کےپاس جادو کی چھڑی نہیں ، جو ہلانے سے ملک کے معاشی حالات ٹھیک ہوجائیں، حکمران بھی خلوص نیت سے کمر کس لیں اور عوام کو بھی آمادہ کریں کہ وہ اِس معاملے میں حکومت کا ساتھ دیں، اگر کسی شعبے میں سختی کی ضرورت ہو تو بالکل کی جائے کیوں کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button