Editorialتازہ ترینخبریں

سیاسی اور معاشی بحران کا خاتمہ مگر کیسے؟

گذشتہ روز امریکی ڈالر تین روپے اضافے سے 244کا ہوگیا ہے۔کاروباری دن کے اختتام پر ملک میں سونے کی فی تولہ قیمت میں ریکارڈ 10 ہزار 500 روپے اضافہ ہوا۔ مہنگائی سے ہلکان عوام کے لیے نیپرا نے بجلی 9 روپے 89 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری دے دی ہے اور اس کے نتیجے میں بجلی کے صارفین پر ایک ماہ میں 100 ارب روپے سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔

بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق لائف لائن اور کراچی کے شہریوں کے علاوہ تمام صارفین پر لاگو ہو گا۔کئی روز کے بعد جمعرات پاکستان سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کے لیے موزوںدن رہا، اور100 انڈیکس 304 پوائنٹس اضافے سے 40276 پر بند ہوا۔25 کروڑ شیئرز کے سودے 9.34ارب روپے میں ہوئے، مارکیٹ کیپٹلائزیشن 37 ارب روپے بڑھ کر6789 ارب روپے ہوگئی ۔ وزارت خزانہ کی جانب سے قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں بتایا گیا ہے کہ31 مئی 2022 تک پاکستان کا کل بیرونی قرضہ ایک کھرب 26 ارب 6کروڑ ڈالر تھا۔

اس میں سرکاری بیرونی قرضہ 85.64 ارب اور آئی ایم ایف کا قرضہ 7 ارب 29 کروڑ ڈالر ہے۔ نجی شعبے کے ذمے غیر ملکی قرضہ 11 ارب 58 کروڑ ڈالر ہے۔وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کو 2022 سے 2059 تک 95.4 ارب ڈالر قرضہ واپس کرنا ہوگا۔وزارت خزانہ نے پی ٹی آئی حکومت کے حاصل قرضوں کی تفصیلات بھی قومی اسمبلی میں پیش کیں۔2019 سے اپریل 2022 تک حکومت نے 12 ہزار 345 ارب کے قرضے لیے، پی ٹی آئی حکومت نے2019 سے اپریل 2022 تک 8 ہزار 181 ارب روپے مقامی اور 4 ہزار164 ارب روپے بیرونی قرضہ لیا۔معیشت کی منظر کشی کے بعد ہم سیاست قیادت کی طرف سے معاشی بحران سے نبٹنے کے لیے ہونے والے اقدامات پربات کرتے ہیں ،

وفاقی کابینہ نے عدالتی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے،چیف جسٹس کے بنچ تشکیل دینے اور ازخود نوٹس کے اختیارات پر قانون سازی کے لیے پارلیمانی کمیٹی میں بحث کرائی جائے گی،کابینہ نے جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف نظر ثانی درخواست واپس لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور بتایا کہ جسٹس فائزعیسیٰ کو دبائو میں رکھنے کے لیے ریفرنس بنانے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے کابینہ کی سب کمیٹی بنادی گئی ہے ۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ وزارت داخلہ نے پنجاب میں گورنر راج کے لیے سمری کی تیاری پر کام شروع کردیا ہے، اگر میرا پنجاب میں داخلہ بند کیا گیا تو یہ اقدام گورنر راج کے نفاذ کے لیے کافی جواز ہوگا،

اگر وزیراعظم گورنر راج کی ایڈوائس کرتے ہیں تو صدر مملکت کا کوئی استحقاق نہیں ہے بلکہ صدر مملکت نے اس پر عمل کرنا ہے، اگر صدر مملکت عمل نہیں کریں گے تو 10 دن بعد اس پر عمل درآمد ہوجائے گا دوسری طرف سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کو گرانا کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ اس وقت وفاق وینٹی لیٹرپر ہے، ہم جب چاہیں اس کا سوئچ بند کر دیں،

قوم سے مستردہونے اور سیاست میں رسواء ہونے پر 13 جماعتی امپورٹڈ گروہ دستور و ریاست پر حملہ آور ہے۔قائم مقام گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر مرتضیٰ سید کے اِس بیان سے ہم اپنی عرض کا آغازکرتے ہیں جو ریکارڈ پر موجود ہے کہ عالمی معیشت میں کئی بحران بیک وقت ابھرتے نظر آ رہے ہیں، سیاسی بے یقینی کی وجہ سے فیصلہ سازی میں نقصان دہ تاخیر ہوئی۔

اسی طرح وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نےغیر رسمی گفتگو میں بتایا کہ روپے کے مقابلے ڈالر کا ریٹ بڑھنے کی بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے،جب راتوں کو سیاسی صورتحال تبدیل ہو تو دن میں مارکیٹ ایسے ہی اثر دکھاتی ہے، تاہم ڈیفالٹ کے خدشات ختم ہو چکے ہیں اور پالیسی سازوں کو بھی یہ معلوم ہے۔روپے پر دباؤ ایک دو ہفتوں میں ختم ہو جائے گا، آئی ایم ایف سے قرض کی آمد ہفتوں میں مکمل ہو جائے گی۔ زرمبادلہ ذخائر بڑھانے کے لیے دوست ملک سے ڈالر ذخائر کی درخواست کی تھی تاہم دوست ملک نے درخواست یہ کہہ کر رد کردی کہ پہلے کبھی قرض واپس نہیں کیا گیا، پھردوست ملک نے حکومتی ملکیتی اداروں میں حصص خریدنے پر آمادگی ظاہر کی۔

آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام پر دستخط کر دیئے ہیں، بیرونی ذرائع سے 4ارب ڈالر سے زیادہ مل جائیں گے۔ ملک میں حالیہ سیاسی انتشار اور سیاسی قیادت کی ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے متذکرہ کاوشوں کے بعد بھی صورتحال یہ ہے کہ سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے عوام تاریخ کی بدترین مہنگائی کا سامنا کررہے ہیں، کرنسی کی گرتی قیمت نے ملکی انڈسٹری کو سنگین مسائل سے دوچار کیا ہوا ہے اور ایک بارپھر موقف دھرایا جارہا ہے کہ کمرشل بینک درآمد کنندگان کوڈالر دینے سے گریزاں ہیں حالانکہ چند روز قبل قائم مقام گورنر سٹیٹ بینک نے اِس کی تردید کی تھی،

بہت معمولی اور کم مالیت کی کنسائمنٹ کےلیے تو اجازت مل رہی ہے لیکن5ہزار ڈالر سے زیادہ کی کنسائمنٹ پر اسٹیٹ بینک ڈالر کی منظوری نہیں دے رہااور 5جولائی کے جاری کر دہ اس سرکلر سے ہر قسم کی پلانٹ اور مشینری ،کیپٹل گڈز اور خام مال وغیرہ کی درآمد بند ہو چکی ہے مختلف پورٹس پر 2ہزار کے قریب کنسائمنٹ پھنس گئی ہیں جبکہ اتنی ہی مقدار میں راستے میں ہیں ،اس سے قبل حکومت نے لگژری اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کی تھی جس سے ایک ہزار کے قریب کنسائمنٹ ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک پورٹ پر پھنسے رہے اور درآمد کند گان کو لاکھوں ڈالر کا ڈیمرج شپنگ کمپنیوں کا ادا کرنا پڑ رہا ہے۔متذکرہ سیاسی اور معاشی صورتحال قومی سیاسی قیادت کی فوری توجہ کی متقاضی ہے،

ایوانوں سے باہر عام آدمی کو جن مسائل کا سامنا ہے اُن کا فوری ادراک کرنا ضروری ہے، سیاسی مسائل کو معیشت سنبھلنے تک ایک طرف رکھ کر میثاق معیشت کرلیا جائے تو شاید سرخرو ہوا جائے لیکن اگر معیشت کی قیمت پر سیاست ہوتی رہی توشاید پھر ہمارے پاس مزید کسی غلطی کی گنجائش باقی نہ رہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے عام پاکستانی پیٹ بھرکر کھانا کھانے سے قاصر ہیں، ضروریات زندگی پوری کرنا اب عیاشی کی مانند لگتا ہے، مہنگے پٹرول، مہنگی بجلی، مہنگی گیس اور کئی طرح کے ٹیکسوں نے عام آدمی کی کمرتوڑ دی ہے، چھوٹے اوربڑے صنعتکاران تمام مسائل کی وجہ سے آنے والے کل کے لیے پریشان ہیں لیکن افسوس ایسی پریشانی سیاسی قیادت کے چہروں سے عیاں نہیں ہوتے، مرکز اورپنجاب کی سیاسی صورتحال اور گذرے دنوں کے حالات و واقعات سے معیشت کا کس طرح تعلق جوڑا جاسکتا ہے، کوئی بھی سیاسی فریق دوسرے کو تسلیم کرنے کو تیارنہیں،

عدم برداشت کے مظاہرے عام ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نازک معاشی صورتحال میں بھی ملکی قیادت اور عوام میں واضح تفریق موجود ہے، سیاسی اور نظریاتی اختلافات نے قوم کو کئی حصوںمیں تقسیم کیا ہوا ہے، جس طرح سیاسی قیادت کے نزدیک ایک دوسرے کے لیے نرم گوشہ کا تصور نہیں بالکل اسی طرح عام عوام میں بھی یہی رویہ دیکھنے میں آرہا ہے، کس کی مداخلت سے ہماری ترجیحات تبدیل ہوں گی اور ہم ملک و قوم کے لیے سرجوڑ کر بیٹھیں گے ہم نہیں جانتے کیونکہ جنہوںنے قوم کی راہ متعین کرنی ہے وہی فی الحال اپنے سیاسی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں ، عام آدمی کو معاشی بحران کی وجہ سے جس قدر جھٹکے لگ رہے ہیں اس کا ردعمل وہ ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کرکے اٹھارہے ہیں لیکن سیاسی شور میں اُن کی آوازفی الحال دبی ہوئی،

سیاسی قیادت کو حالات کا ادراک کرنا چاہیے کہ عام آدمی کے لیے گذربسر انتہائی مشکل ہوچکی ہے اور لوگ کھل کر بات کررہے ہیں، سیاسی قیادت کو سوچنا ہوگا کہ کہیں سیاسی کشمکش میں ایسا نقصان نہ ہوجائے جو ملک و قوم کے لیے ناقابل تلافی ثابت ہو۔ آج صنعتی انقلاب کے دعوے کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا دینا، مہنگی ترین بجلی، گیس اور ایندھن کے دوسرے مہنگے ذرائع سے اگرکسی ملک نے معیشت کے میدان میں ترقی کی ہے تو اس کا نام یقیناً لیا جانا چاہیے،

ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات مشکل فیصلے کرنے کے متقاضی ہیں لیکن فیصلہ کرنے کے لیے سیاسی قیادت کے پاس وقت نہیں کیونکہ ان کے سیاسی مسائل ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے، ایک کے بعد دوسرا سیاسی محاذکھل جاتا ہے ، خدارا عام پاکستانی اور تاجر طبقے کا خیال کیا جائے جن کی دلچسپی سیاست نہیں بلکہ دو وقت کی روٹی ہے جو موجودہ صورتحال میںپوری کرنا ناممکن کے مترادف ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button