ColumnImtiaz Aasi

آئین کی فتح .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد اصولی طور پر سیاسی کشمکش کا خاتمہ ہوجاناچاہیے ۔جب آئین اور قانون کی بات آئے تو اسے کسی ایک فریق کی فتح قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ سپریم کورٹ کا ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف فیصلہ حقیقت میں آئین کی فتح ہے۔عدالت عظمیٰ میں منصف کے منصب پر فائز جج صاحبان نے کسی کی شخصیت سے متاثر ہو کر فیصلہ کرنے کی بجائے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوتا ہے۔جسٹس منیر، جسٹس ملک قیوم اور جسٹس رفیق تارڑکو بعض حوالوں سے یاد کیا جاتا ہے، اس کے برعکس جسٹس سجاد علی شاہ،جسٹس اے آر کارنیلس، جسٹس ایم آر کیانی کوان کے تاریخ ساز فیصلوں کے حوالے سے پاکستان کے عوام مدتوں یاد رکھیں گے۔سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ جو نواز دور میں عتاب کا نشانہ بنے کراچی میں ایک چھوٹا سا مکان ان کا کل اثاثہ تھالیکن اقتدار بھوکوں نے عدالت عظمیٰ پر حملہ کرکے اپنے ماتھے پر ہمیشہ کیلئے کالک مل لی۔

تعجب ہے کہ ایک طرف سیاست دان عدلیہ کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف عدلیہ سے اپنی مرضی کے فیصلوں کی تمنا رکھتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں میں انصاف نہیں ہوتا وہ صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں۔عدالت عظمیٰ ایسا فورم ہے جہاں تعینات جج صاحبان نے عمر کا بہت سا حصہ قانون کی پریکٹس اور ماتحت عدلیہ میں گذارا ہوتا ہے۔ جہاں تک ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کی بات ہے، نہ تو وہ قانونی ماہر ہیں اور نہ ہی قانونی موشگافیوں سے واقف ، بلکہ محض ایک منتخب رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔ انگریز سرکار نے عدالتوں میں بہت سے فورم ایسے ہی نہیں بنائے جن کا مقصد فریقین کو انصاف کی فراہمی تھا۔ماتحت عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹس میں اپیل کا مقصد اگر کسی موڑ پر فیصلے میں کوئی غلطی رہ جائے تو اس کا ہائی کورٹ میں ازالہ ہو سکے ۔جب کسی کے خلاف ہائی کورٹ کا فیصلہ آجائے تو اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا مقصد فیصلے میں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو اس کا ازالہ ہو سکے۔

قانون میں تو اس حد تک گنجائش رکھی گئی ہے اگر سپریم کورٹ میں کسی کے خلاف کوئی فیصلہ آجائے تو اسے نظرثانی کا حق دیا گیا ہے۔ماتحت عدالتوں میں ایک جج فیصلہ سناتے ہیں۔ جب اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل ہوتی ہے تو اس کی سماعت کیلئے دو جج مقرر کئے جاتے ہیں۔ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دو کی بجائے تین جج صاحبان سماعت کرتے ہیں تاکہ متاثرہ افراد کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔

سپریم کورٹ جیسے فورم پر مفروضوں کی بجائے قانونی نکات زیر بحث لائے جاتے ہیںڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف جیسے معاملات میں لارجر بینچ بنانے کی کوئی نظیر موجود نہیں تو رونا دھونا کس بات کا ہے۔ عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کا بائیکاٹ کرنے سے جج صاحبان کو مرعوب نہیں کیا جا سکتا بلکہ عوام کی نظروں میں ایسی جماعتیں بے توقیر ہو جاتی ہیں۔ سیاست دانوں کو نہ تو ملک کی فکر ہے اور نہ ہی ابدی زندگی کا خوف ہے انہیں صرف اقتدار سے لگائو ہے خواہ وہ کسی صورت میں مل جائے۔عدلیہ کے لحاظ سے مسلم لیگ نون کی تاریخ کوئی اچھی نہیں اس کے مقابلے میں سابق وزیراعظم عمران خان نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف عدالت عظمی کے فیصلے کو دل وجان سے قبول کرنے کی مثال قائم کی۔

سوال تو یہ ہے سیاست دان جنہیں حکومتی امور چلانے کی ذمہ داری دی جاتی ہے عدلیہ پر بداعتمادی کریں گے تو عام لوگوں سے کس بات کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمہ کو غیر ملکی سازش سے تعبیر کیا نہ انہوں نے اعلیٰ عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔مسلم لیگ نون نے تو عدلیہ کے ساتھ کھلواڑ بنا رکھا ہے۔ دراصل انہیں عدلیہ سے من پسند فیصلوں کی عادت ہے جب کوئی فیصلہ خلاف آجائے تو جج صاحبان پر بے جا تنقید کی جاتی ہے۔ عدالتوں سے بات نہ بن سکے تو اداروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔بھلا کوئی پوچھے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے وہ تو پارلیمنٹ کا حصہ نہیں ہیںاس کے باوجود ہر معاملے میں پیش پیش ہیں۔ کے پی کے جسے جے یو آئی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا پی ٹی آئی نے اس کی کمر توڑ دی ہے ۔جے یو آئی پیپلز پارٹی کی طرح بلوچستان تک رہ گئی ہے۔ملک دیوالیہ ہونے کو ہے کسی کو ملک کی فکر نہیں، اقتدار کی ہوس نے سیاست دانوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ پنجاب حکومت نے تین ماہ کے اقتدار میں عوام کیلئے کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہائی ہیں۔مرکز میں اتحادی حکومت نے عوام کیلئے کیا خدمات انجام دی ہیں۔مولانا کو مدارس کے بچوں کو سٹرکوں پر لانے کی روش ترک کرنی چاہیے۔پنجاب کے ضمنی الیکشن میں تمام جماعتوں کو اپنی اپنی حیثیت کا علم ہو گیا ہے عوام کا جھکائو کس طرف ہے۔وفاق میں اتحادی حکومت کو کچھ سمجھ نہیں آرہا انہیں کرنا کیا ہے۔بس اخباری بیانات اور ٹی وی چینلوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ایک دوسرے کے خلاف بدزبانی کے سوا سیاست دانوں نے ملک اور قوم کیلئے کون سی خدمات انجام دی ہیں۔نواز شریف نے جو انتخابات کا انہیں مشورہ دیا تھا وہ ٹھیک تھا۔

پیپلز پارٹی کے قائد آصف زرداری نے سندھ میں اپنے اقتدار کو دوائم دینے کی خاطر وفاق میں حکومت لینے کا مشورہ دیا۔مولانا کو تو اپنے فرزند کو نفع بخش وزارت دلوانا تھی جس میں وہ کامیاب رہے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے اختلامات ایک طرف رکھتے ہوئے ملک کی معاشی حالت کی فکر کرنی چاہیے ملک ہے تو ہم بھی ہیں۔سیاسی جماعتوں کو اعلیٰ عدالتوں پر بوجھ ڈالنے کی بجائے اپنے معاملات کو پارلیمنٹ کے اندر حل کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔اعلیٰ عدلیہ کے پاس عوام کے لاکھوں مقدمات التواء میں پڑے ہیں عدالتوں کو اور بھی بہت سے امور کو نپٹنا ہوتا ہے ۔اب توسیاسی کشیدگی کا ایک ہی حل ہے سیاسی جماعتوں کو نئے انتخابات کی طرف جانا چاہیے تاکہ ملک میں معاشی استحکام آسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button