ColumnImtiaz Ahmad Shad

ہرزہ سرائی .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

ہرزہ سرائی

بطور ریاست وطن عزیز تیزی کے ساتھ زوال کی جانب گامزن ہے۔ اہل دانش نہایت فکر مند اور دکھی ہیں۔ریاستی اداروں کو سوچی سمجھی سازش کے تحت آلود کیا جا رہا ہے۔آئین اور قانون جو ریاست کے مضبوط بازو ہیں،انہیں موم کی ناک بنا دیا گیا ہے۔ طاقتور آئین اور قانون کو سر بازار رسوا کررہے ہیں مگر ہماری ریاست میں اتنا دم خم ہی نہیں رہا کہ ان طاقتور افراد کو لگام ڈال سکے۔ریاست اس وقت سیاسی، اخلاقی اور معاشی زوال کا شکار ہو چکی۔ بلا تفریق سیاسی قیادت سے لے کر کارکنان تک تمام افراد اداروں کے خلاف کھل کر ہرزہ سرائی کر رہے ہیں مگر ریاستی ادارے بے پناہ مصلحتوں کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

طاقت کے حصول میں تمام سیاسی جماعتیںہر وہ حد پار کر چکیں جو کسی بھی ریاست کی تباہی کی بنیاد ہوتی ہے۔ریاست کو اس وقت ہر طرح کے بحران کا سامنا ہے۔اگر تباہ شدہ ریاستوں کے اسباب کا مطالعہ کریںتو یقیناً ریاست پاکستان میںوہ تمام عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں جو وطن عزیز کی تباہی کیلئے کافی ہیں۔رہی سہی کسر نظام عدل پر عدم اعتماد کر کے ہماری سیاسی قیادت نے نکال دی ہے۔افسوس شعور کی بیداری کیلئے کام کرنے والا میڈیا بھی ان طاقت کے حصول کیلئے سب کچھ برباد کرنے والوں کا مہرہ بن چکا ہے۔ جب کسی قوم میں بدعملی، بدخلقی اور نا انصافی اجتماعی طور پر آ جائے تو تباہی و بربادی اس کا مقدر اور زوال پذیری لازم ہو جاتی ہے۔

جب ہم حیات انسانی کے ارتقاء پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس کا رخ اجتماعیت کی طرف ہی نظر آتا ہے اور جب وہ فطرت کے خلاف چلیں، قانون قدرت کو بھلا دیں، نافرمانی و گستاخی کریں، خدا تعالیٰ کے متعین کردہ اصولوں سے روگردانی اور انحراف کریں تو خداتعالیٰ کی پکڑ میں آ جاتے ہیں۔ قومیں اجتماعی طور پر بدعمل ہوجائیں تو اس کی سزا دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔ اس ضمن میں قرآن کریم نے مختلف قوموں کی تباہی کا ذکر کیا ہے،جن میں یہ برائیاں پائی جاتی تھیں۔ ترجمہ! کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے ہم نے کتنی ہی قومیں ہلاک کردیں مزید یہ کہ اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوموں کو پروان چڑھایا۔ (سورۃ الانعام: 7)

قدرت قوموں کے عروج و زوال اور تباہی و بربادی کے اصولوں کے اطلاق میں قوموں کے درمیان فرق نہیں کرتی۔ جو قوانین اور اصول یہود و نصاریٰ کیلئے ہیں وہی امت مسلمہ کیلئے ہیں اور جو ضابطے اہل کفر کیلئے ہیں وہی اہل ایمان کیلئے ہیں۔ قرآن کے اصول اٹل ہیں ان میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں۔دکھ میں اس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب ہم امت مسلمہ کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ریاست پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے قریباً تمام مسلم ممالک اس کا شکار ہیں۔

دنیا آج جن افسوس ناک حالات سے گزر رہی ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ عیسائیت و یہودیت جس ملک کو چاہتی ہے اپنی بربریت کا نشانہ بناتی ہے اور مسلم دنیا ہاتھ پر ہاتھ دھرے دیکھتی رہتی ہے۔ یورپ و امریکہ کے صلیب بردار مسلمانوں کو لقمہ تر سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ فلسطین و لبنان، افغانستان اور عراق اس کی زندہ اور تازہ مثالیں ہیں۔ جن ممالک میں وہ جنگ نہیں کرتے ان میں رجیم چینج کر کے کٹ پتلیاں بٹھا دیتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مسلم قوم اس قدر لاچار و بے بس ہے جبکہ تعداد کے اعتبار سے مسلمان ہی دنیا کی دوسری بڑی قوم ہے۔ اگر غور و غرض کریں تو اسباب واضح ہیں۔

اہم سبب علم دین سے دوری ہے حالانکہ قرآن میں واضح ہے کہ‘‘نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ تمہی غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو۔(آل عمران آیت139)۔آپسی اختلافات اور گروہ بندی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔حکمرانی سے لے کر گھریلو زندگی تک اختلافات سے لبریز ہیں۔
ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہر سومسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے اور ہم اپنے اپنے کھیل تماشوں میں مگن خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ابن العربی نے کہا تھا کہ جس قوم کا احساس مر جاتا ہے دنیا اسے اپنے قدموں تلے روند دیتی ہے۔ ہر وقت اقتدار کی حوس نے ہمارے لیڈران کو اس قدر بد حواس کر دیا ہے کہ انہیں اقتصادی زبوں حالی نظر ہی نہیں آتی ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی دولت کا بھی زیادہ تر حصہ ڈالروں میں ہے اس لیے ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ان کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہماری پسماندگی اورصنعت و حرفت میںہماراپیچھے رہ جانا کیا ہماری ان پالیسیوں کا نتیجہ نہیں جن کی وجہ سے آج ہماری ریاست زوال کا شکار ہو چکی۔

نسل نو میں اخلاقی عناصر، آداب، تمیز داری، قریباً ختم ہوچکے۔ مثبت انسانی رویے ریاست کو مضبوط اورخوشحال بناتے ہیںمگربد قسمتی ہے کہ ہمارے رویے ہمارے معاشرے کو تباہی کی اس دلدل میں لے کر چلے گئے کہ آج ہم انصاف کے اداروں کو کھلے عام دھمکیاں دیتے ہیں اور ریاست کے محافظ ادارے مصلحت کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ کیا ہم نے یہ فیصلہ کر لیا کہ مملکت خدا داد کو بنانا اسٹیٹ بنا کر ہی رہنا ہے؟کیا یہ اب طے ہے کہ جتھے اور گروہ ریاست میں من مانیاں کریں گے اور انصاف کے ادارے بے بسی کی تصویر بنے ان کا منہ دیکھتے رہیں گے۔
کیا یہ قواعد و ضوابط اب حتمی ہیں کہ چور اچکے ریاست سنبھالیں گے اور غلاموں کا راج ہو گا؟ اگر یہ سب طے ہو چکا تو پھریہ ترانے مت آلاپے جائیں کہ ہم زندہ قوم ہیں، ہم خودار قوم ہیں،ہماری بہادری کی ایک تاریخ ہے وغیرہ وغیرہ۔ہماری ریاست کو زوال ایسے نہیں آیا،

ہماری قوم کی پستی ایسے نہیں نمودار ہوئی ،سب نے مل کر حصہ بقدر جثہ اپنا کردار ادا کیا ہے۔ قرض اور سود کی لعنت نے بے سکونی،بے اطمینانی میں اضافہ کیاہے۔ ذلت، خواری، غربت، بے روز گاری، توانائی کا شدید بحران، سماجی معاشی شدید عدم توازن، اور ناانصافی کے نتائج ہیں کہ آج ریاست عام آدمی کو پانی کا گلاس مفت فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

ابھی وقت ہے انصاف کے اداروں کو متنازع مت بنائیں ، ان اداروں کو اپنی انا اور ضد کی بھینٹ مت چڑھائیں وگرنہ یاد رکھوریاست کمزور ہوئی تو تمہارے ششکے بھی ختم ہو جائیں گے۔ریاستی اداروں کو اپنا تشخص برقرار رکھنے کیلئے ہر جانب سے ہونے والی ہرزہ سرائی کو فوری روکنا ہو گا، اگر یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو ملک میں انتشار پھیلے گا اور وہ انتشار پہلے سے مختلف ہو گا ۔ ڈر ہے کہ موجودہ ہرزہ سرائی کا ماحول ریاست کی بنیادیں ہلا کر رکھ دے گا۔اہل علم و دانش اور ریاست کے ذمہ داران کو فی الفور اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ریاست اس خلفشار کی متحمل نہیں ہو سکتی۔بطور ذمہ دار ریاست ہمیں سیاسی طور پر میچورٹی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ریاست کو کسی صورت خاندانوں اور بچوں کی چپقلش کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button