انتخاباتتازہ ترینخبریںپاکستان

حمزہ وزیراعلیٰ نہیں رہے، سپریم کورٹ نے پرویز الہٰی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنادیا

سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دیدی، ججز نے 11 صفحات پر مشتمل فیصلہ سنانا شروع کردیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے دوران اسپیکر پنجاب اسمبلی کی ق لیگ کے 10 ووٹ مسترد کرنے کی رولنگ کو کالعدم قرار دے دیا۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے 11 صفحات پر مشتمل فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حمزہ شہباز شریف کا وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے حلف غیر آئینی تھا۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ چوہدری پرویز الٰہی ساڑھے 11 بجے تک حلف اٹھائیں، گورنر پنجاب کو بھی ان سے حلف لینے کی ہدایت کردی گئی، اگر گورنر پنجاب حلف نہ لیں تو صدر مملکت وزیراعلیٰ پنجاب سے حلف لیں۔

آج کی کارروائی

گزشتہ روز 25 جولائی کو فل کورٹ بینچ کیلئے اتحادی حکومت کی درخواست مسترد کرنے کے بعد سپریم کورٹ میں آج وزیراعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب سے متعلق دائر درخواستوں پر دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا، تین رکنی بینچ نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی مزید ضرورت نہیں۔

تحریری حکم نامہ

سپریم کورٹ ( Supreme Court Of Pakistan) کی جانب سے 26 جولائی کو گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامے بھی جاری کیا گیا۔ دوبارہ سماعت شروع ہونے سے قبل جاری فیصلے میں کہا گیا کہ حکمران اتحاد کی فل کورٹ بنانے کی تمام درخواستیں مسترد کردی ہے، جب کہ فل کورٹ تشکیل نہ دینے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں ہونے والی سماعت میں فیصلہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے خود پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ قانونی سوال ہے کہ ارکان اسمبلی کو ہدایت پارٹی سربراہ دے سکتا ہے یا نہیں؟۔

آج کی سماعت

ڈپٹی اسپیکر پنجاب کی رولنگ کیس پر آج بروز منگل 26 جولائی کو دوبارہ سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے رولنگ کے خلاف پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب کے وکیل نے عدالت کے روبرو کہا کہ میرے مؤکل کی ہدایت ہے کہ عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بننا، ملک میں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ چل رہا ہے، فل کورٹ کے حوالے سے فیصلے پر نظرثانی دائر کرینگے۔

اس موقع پر فاروق ایچ نائیک کے وکیل نے کہا کہ فاروق نائیک نے بھی کارروائی کے بائیکاٹ سے آگاہ کر دیا، جس پر چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو کیس کے فریق ہی نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اصل سوال تھا کہ ارکان کو ہدایات کون دے سکتا ہے، آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں، اس سوال کے جواب کیلئے کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں، یہ ایسا سوال نہیں تھا اس پر فل کورٹ تشکیل دی جاتی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فریقین کے وکلاء کو بتایا تھا کہ آئین گورننس میں رکاوٹ کی اجازت نہیں دیتا، صدر کی سربراہی میں1988میں نگران کابینہ عدالت نے کالعدم قرار دی تھی، عدالت کا مؤقف تھا وزیراعظم کے بغیر کابینہ نہیں چل سکتی، فل کورٹ کی تشکیل کیس لٹکانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا، ستمبر کے دوسرے ہفتے سے پہلے ججز دستیاب نہیں، گورننس اور بحران کے حل کیلئے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں، دلائل کے دوران اکیسویں ترمیم کیس کا حوالہ دیا گیا، تین رکنی بینچ نے کہا کہ 21ویں ترمیم والے فیصلے میں آبزرویشن ہے کہ پارٹی سربراہ ووٹ کی ہدایت کرسکتا ہے، آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا، تشریح کے وقت سوال صرف منحرف ہونے کے نتائج کا تھا۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے علی ظفر ( Ali Zafar ) کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کریں، دوسرا راستہ ہے کہ ہم بینچ سے الگ ہو جائیں۔

علی ظفر نے معزز عدالتی کے روبرو اپنے معاونت کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں ترمیم کیخلاف درخواستیں 13/4کے تناسب سے خارج ہوئی تھیں، درخواستیں خارج کرنے کی وجوہات بہت سے ججز نے الگ الگ دی تھیں، اکیسویں ترمیم کیس میں آرٹیکل 63 اے کو خلاف آئین قرار دیا تھا، جسٹس جواد خواجہ کی رائے تھی آرٹیکل 63اے آزادی سے ووٹ دینے سے روکتا ہے، جسٹس جواد خواجہ نے فیصلے میں اپنی رائے کی وجوہات بیان نہیں کیں، جسٹس جواد خواجہ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا۔

اس پر چیف جسٹس نے علی ظفر سے سوال کیا کہ آئین کیا کہتا ہے کس کی ہدایات پر ووٹ دیا جائے، جس پر علی ظفر نے کہا کہ آئین کے مطابق ووٹ کی ہدایات پارلیمانی پارٹی دیتی ہے، چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا پارلیمانی پارٹی یا پارٹی سربراہ سے الگ ہے؟ جواباً پرویز الہی کے وکیل نے عدالتی سوال پر کہا کہ پارلیمانی جماعت اور پارٹی لیڈر دو الگ الگ چیزیں ہیں۔

جسٹس اعجاز نے کہا کہ آئین کے تحت پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے پر عمل درآمد کراتا ہے، پارلیمانی جماعت اپنے طور پر تو کوئی فیصلہ نہیں کرتی، جماعت کے فیصلے پر پارلیمانی جماعت کو آگاہ کیا جاتا ہے جس پر وہ فیصلہ کرتی ہے۔ علی ظفر نے سابق صدر پرویز مشرف کے دور کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ مشرف دور میں پارٹی سربراہ کی جگہ پارلیمانی سربراہ کا قانون آیا تھا، اٹھارہویں ترمیم میں پرویز مشرف کے قانون کو ختم کیا گیا۔

پارٹی سربراہ کی تعریف کیا ہے؟

دوران سماعت جسٹس منیب نے علی ظفر سے سوال کیا کہ پارٹی سربراہ کی کیا تعریف ہے؟ کیا پارٹی سربراہ صرف سیاسی جماعت کا سربراہ ہوتا ہے؟، علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میری نظرمیں جسٹس عظمت سعید کی آبزرویشن آئین کے خلاف ہے، اکیسویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے ایشو نہیں تھا، جسٹس عظمت سعید کی آبزرویشن کی سپریم کورٹ پابند نہیں۔ اس دوراب جسٹس اعجاز نے سوال کیا کہ پارلیمانی لیڈر والا لفظ کہاں استعمال ہوا ہے؟،جواباً علی ظفر نے کہا کہ 2002 میں سیاسی جماعتوں کے قانون میں پارلیمانی پارٹی کا ذکر ہوا۔

اپنے ریمارکس میں جسٹس اعجاز نے کہا کہ پارلیمنٹری پارٹی کی جگہ پارلیمانی لیڈرکا لفظ محض غلطی تھی،18ویں اور21ویں ترمیم کے کیسز میں63کی شقوں کا سطحی جائزہ لیا گیا، آرٹیکل63اے سے متعلق پارٹی لیڈر کا معاملہ کبھی تفصیل سے نہیں دیکھا گیا،جج کا بار بار اپنی رائے تبدیل کرنا اچھی مثال نہیں ہوتی،جج کی رائے میں یکسانیت ہونی چاہیے، ججز کا ٹھوس وجہ کے بغیر اپنی رائے تبدیل نہیں کرسکتا،اگر کوئی واضح قانون سامنے آئے تو معذرت کر کے رائے تبدیل کرلوں گا، آرٹیکل63اے کی تشریح میں اکیسویں ترمیم کیس کا حوالہ نہیں دیا گیا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل

سماعت کے دورانی عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو روسٹرم پر بلا لیا۔ عدالت کے روبرو عامر رحمان نے کہا کہ عدالت کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں، جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت حکمران اتحاد کے فیصلے سے الگ ہوگئی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل27اے کے تحت عدالت کی معاونت کروں گا، اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فیصلے میں کوئی غلطی نہ ہوجائے اس لئے سب کو معاونت کی دعوت ہے۔

پرویز الہیٰ کے وکیل بیرسٹرعلی ظفرنے اس دوران اپنے دلائل مکمل کیے، جس کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ مجھے چوہدری شجاعت کا خط موصول ہوا، جسٹس عمر عطا نے سوال کیا کہ چوہدری شجاعت کے وکیل نے کہا خط ارکان کو بھیجا گیا، ووٹنگ سے پہلے خط پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پڑھا گیا؟ سوال یہ بھی ہے کہ فیصلے کو ٹھیک سے پڑھا گیا یا نہیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلے سے قبل کچھ باتیں سامنے رکھے، 3 ماہ سے وزیراعلیٰ پنجاب کا معاملہ زیر بحث تھا، ق لیگ کے تمام ارکان کو علم تھا کہ کس کو ووٹ دینا ہے، میری گزارش ہوگی کہ الیکشن سے قبل کا بھی سارا ریکارڈ دیکھا جائے، سپریم کورٹ تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھے۔

علی ظفر کی جانب سے دیئے گئے حوالوں کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے فریقین نے بعض عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا تھا، اس دوران علی ظفر نے کہا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان پر کچھ گزارشات کرنا چاہوں گا، پارٹی کے اندر تمام اختیارات سربراہ کے ہی ہوتے ہیں، پارٹی سربراہ کے اختیارات کم نہیں ہونے چاہیں، آرٹیکل 63 میں ارکان کو ہدایت دینا پارلیمانی پارٹی کا اختیار ہے۔

جسٹس اعجاز الااحسن نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ نائیک صاحب اگر کچھ بہتری آ سکتی ہے تو عدالت سننے کیلئے تیار ہے، اس پر فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ان مقدمات میں ہم پارٹی پالیسی کے پابند ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مخالف فریقین کیس سن رہے ہیں لیکن دلائل نہیں دے رہے، اس وقت ان کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے اقوام متحدہ میں مبصر ممالک کی ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تمام فریقین معاونت کریں تو بہتر طریقے سے فیصلہ پر پہنچ سکتے ہیں، بائیکاٹ کرنے والے اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں تو سب کے لیے بہتر ہوگا۔

سماعت میں ڈھائی بجے تک وقفہ کیا گیا، جس کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی سربراہ کے اہم کردار کی بات کی گئی ہے، نواز شریف پارٹی صدارت کیس میں سپریم کورٹ نے کہا پارٹی سربراہ سیاسی جماعت کو کنٹرول کرتا ہے، ہم اس معاملے کو دیکھیں گے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی سربراہ کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں، پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات دے سکتا ہے لیکن ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا، ووٹ کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی نے کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اختیارات پارٹی سربراہ کے ذریعے آتے ہیں، پارٹی سربراہ کا اہم کردار ہے لیکن پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ووٹنگ کے لیے ہدایات جاری کرتا ہے۔

جسٹس اعجاالاحسن نے کہا کہ جو 25 اراکین صوبائی اسمبلی ڈی سیٹ ہوئے، ان میں سے کتنے اراکین نے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ 18 اراکین نے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کا ذکر

جسٹس اعجاز الااحسن نے مزید کہا کہ دوسرے فریق کا یہ کیس ہے کہ پی ٹی آئی ڈی سیٹ کیس میں یہ الیکشن کمیشن کے سامنے پارٹی سربراہ کا سوال تھا، دوسرا فریق کہہ رہا ہے الیکشن کمیشن کا فیصلہ ختم ہو تو پھر حمزہ شہباز کے ووٹ 197 ووٹ پر آ جائیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے یکم جولائی کو اتفاق رائے سے فیصلہ دیا، سپریم کورٹ نے کہا الیکشن ہوگا، کیا اب اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس پر برسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ نہیں اب معاملہ ختم ہو چکا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی سربراہ پارلیمنٹرینز کو کہہ سکتا ہے کہ ووٹ کس کو دینا ہے جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عائشہ گلالئی کیس میں عدالت پارٹی سربراہ کی ہدایات کا طریقہ کار دے چکی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عائشہ گلالئی کیس کا فیصلہ تو آپ کے موکل کے خلاف جاتا ہے جس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ عائشہ گلالئی کیس میرے موکل کے خلاف لیکن آئین کے مطابق ہے، عائشہ گلالئی کیس میں بھی منحرف ہونے کا سوال سامنے آیا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہا کیا عائشہ گلالئی کیس میں لکھا ہے کہ ہدایت کون دے گا؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ عائشہ گلالئی کیس میں ارکان کو مختلف عہدوں کے لیے نامزد کرنے کا معاملہ تھا، عائشہ گلالئی کیس میں قرار دیا گیا کہ پارٹی سربراہ یا اس کا نامزد نمائندہ نااہلی ریفرنس بھیج سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فریق دفاع نے الیکسن کمیشن کے منحرف ارکان کیخلاف فیصلہ کا حوالہ دیا ہے جس پر وکیل نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں الیکشن کمیشن کے فیصلہ ذکر نہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ عدالت میں پڑھ کر سنائی اور کہا کہ اس کیس میں فل بینچ اور درخواست مسترد کرنے کا مطالبہ کیا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں تاثر دیا گیا کہ پارٹی سربراہ زیادہ اہم ہے، ڈپٹی اسپیکر نے جواب میں رولنگ کی بنیاد الیکشن کمیشن کا حکم قرار دیا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن آرٹیکل 63-اے سے منافی کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا۔

آرٹیکل 63 اے کی تشریح

سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے بھی روسٹرم پر آکر آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی۔ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا معاملہ طے ہو چکا، اب مزید تشریح کی ضرورت ہی نہیں، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بھی آرٹیکل63اے کی تشریح کی کوشش کی ہے، کوشش اچھی ہے لیکن ایڈووکیٹ جنرل کی تشریح درست نہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے فواد حسین، شبلی فراز، فیصل جاوید سمیت متعدد رہنما عدالت میں موجود ہیں، جب کہ آج ہونے والی سماعت میں بائیکاٹ کے اعلان کے بعد نہ کوئی حکومتی سیاسی رہنما یا وکیل عدالت پہنچا۔ جب کہ عدالت کو باضابطہ طور پر بائیکاٹ سے آگاہ بھی کیا گیا۔

پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ ان کے موکل نے انہیں مقدمے کی کارروائی میں مزید حصہ نہ لینے کی ہدایت کی ہے اور وہ اس کے بجائے عدالت کے مکمل بینچ تشکیل نہ دینے کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کریں گے۔

منگل کو عدالت میں سماعت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بھی عدالتی کارروائی میں حصہ لینے سے انکار کردیا۔

آج ہونے والی اہم سماعت کے موقع پر کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو ریڈ زون میں داخلے کی اجازت نہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روزسپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ پر حکومتی اتحادیوں کی فل کورٹ بنچ بنانے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button