Columnعبدالرشید مرزا

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی ۔۔ عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

(آخری حصہ)

ہادی مکرمﷺنے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عظمت و جلالت بیان کی، کائنات اور انسان کی تخلیق کی حقیقت اور جمیع مخلوقات کے مابین عبودیت اوربندگی کے تعلق کو قرآن مبین نے بھی کھول کھول کر بیان کیا ۔ قرآن حکیم نے آفاق و انفس کے اندر اللہ تعالیٰ کی حیرت انگیز نشانیوں سے انسان کو آگاہ کیا، اس ابدی حقیقت کو انسان کی فطرۃ بالقوہ کے اندر موجودہ بصیرت نفس نے قبول کیا عالم امر سے تعلق رکھنے کی بنا پر روح تو ویسے بھی یوم الست سے ہی حقیقت الحقائق سے آشنا تھی اسی طرح انسان کا نفس، جس کا تعلق عالم خلق سے تھا اس کے اندر بھی فطرۃ بالقوہ کی وجہ سے اقرار الوہیت اور خیر و شر کے درمیان فرق کرنے کا داعیہ اور زمین پر اللہ کی نیابت و خلافت کا احساس موجود تھا

یہ بھی پڑھیے

لہٰذا اللہ سبحانہ کی بارگاہ اقدس میں سر جھکانے والے ان نفوس قدسیہ کو اپنی حقیقی خودی بارے جلد ہی آگہی حاصل ہوئی، اپنے خالق سے شدید محبت اور عشق نے ان کو اپنی خودی بارے مزید جاننے پر آمادہ کیا، خود آگاہی یا خودی کیا ہے؟ اس کے متعلق دنیا کے سب سے عظیم انقلاب کے داعی حضورنبی ﷺ نے اپنی امت کے افراد کے سامنے اللہ سبحانہ و تعالی کی آیات کی تلاوت فرمائی، ان کا تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کیا اورخود آگہی بارے علم و حکمت کی تعلیم عطا فرمائی ۔ قرآن مبین کے مطالعہ سے انسان نے دیکھا کہ وہ روح، نفس، قلب اور جسم کے حسین امتزاج سے مرکب ہے، اس کا وجود بنیادی طور پر مادہ کے مختلف مظاہر، مٹی، نمکیات، لوہا، پانی اور ہوا وغیرہ کے اربوں، کھربوں خلیوں سے بنایا گیا ہے لیکن ایک متوازن اور مربوط نظام کے تحت ان سب کو حرکت میں لانے کی ذمہ داری روح کی ہے، جو مجرد اور منفرد ہے اور جس کی پیدائش انسانی جسم کے خلیات سے کھربوں سال پہلے ہو گئی تھی۔ انسان اس حقیقت سے آگاہ ہوا کہ روح کی بیداری کو خودی کہتے ہیں،

خودی ایک لازوال حقیقت ہے جو فطرت انسانی کی منتشر اور غیر محدود کیفیتوں کی شیرازہ بندی کرتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فطرت بالقوہ کے تحت انسان کو بصیرت نفس کا احساس و دیعت فرمایا ہے ۔ نفس کے اندر پنہاں اس احساس سے انسان کو اپنی ذات کا شعور و معرفت حاصل ہوتا ہے، جس سے اس کی تکمیل ذات ہوتی ہے، اسی بصیرت کی روشنی میں انسان اپنی ذات سے آشنا ہوتا ہے، پھر خود شناسی کے بعد اسے خدا شناسی حاصل ہوتی ہے۔ اپنی ذات کے تعین اور عرفان کے بعد جب وہ مخلوقات الہیہ کے بارے تجسس، تفکر، تعقل اور تدبر کو بروئے کار لا کر ماہیت خلق کو سمجھتا ہے تو یہی تجسس اسے اس کے خالق کے بارے میں بتاتا ہے، یہ سارا عمل انسان کی خودی یا خود آگہی کہلاتا ہے، خالق کے مقابلے میں انسان جب اپنی اور دیگر مخلوقات کی تخلیق بارے کسی نتیجہ پر پہنچتا ہے، تو اسے اپنی حیثیت اور خالق کی حیثیت کا الگ الگ پتا چلتا ہے، اور اس کا سرخالق کے سامنے جھک جاتا ہے ۔

جب اسے دیگر مخلوقات خدا کی صحیح حقیقت کا پتہ چل جاتا ہے، پھر اس کا سر ان کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتا، اسے اپنی زندگی کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے، اس کو خود آگاہی کی طرف مائل کرنے والا عنصر درحقیقت جستجوے خالق کی وہ شدید محبت ہوتی ہے جسے اقبالؒ عشق کا نام دیتا ہے۔عشق میں سرشاری کی کیفیت جنوں کے مترادف ہوتی ہے، جب اسے خالق کی دیگر تخلیقات اور اپنے آپ میں ایک واضح فرق دکھائی دیتا ہے، اس کو زمین پر اللہ کے نائب ہونے کا احساس ہوتا ہے، تو پھر روح پرور ارشادات ربانی کی قوت اور توانائی سے اس کے اندر ذوق تسخیر سر اٹھاتا ہے، وہ ان مخلوقات میں انسانی فطرت بالفعل کے تحت جدت اور ندرت پیدا کرتا ہے، اسے اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا پورا یقین ہو جاتا ہے اور وہ خالق کی منشاء کے عین مطابق مطالعہ و مشاہدہ کر کے خودی کی طاقت سے تسخیر کائنات کی نت نئی راہوں کی تلاش کرتا ہے۔

پھر وہ یہ جان لیتا ہے کہ مظاہر فطرت اور دیگر مخلوقات الٰہی سے ڈرنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ وہ خود مقصود کائنات ہے، کسی مخلوق کے آگے سر جھکانا، کسی کے سامنے جبین نیاز رکھ دینا منشائے فطرت کے خلاف ہے، یہ منصب خلافت کی تذلیل اور انسانیت کی توہین اور خود اس خالق کی معرفت سے ناواقفیت کی دلیل ہے کہ جس کی خلافت کا فریضہ اس عالم میں اس پر فرض ہے ۔ جب انسان کے قلب میں نور معرفت کا چراغ روشن ہوتا ہے۔ اس کی بصیرت نفس پوری طرح جاگ جاتی ہے، تو اس کی بصارت کا دائرہ ساری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اقبال ؒ نے اس کیفیت خود آگاہی کی عکاسی اس طرح کی ہے۔

اقبالؒ مردان خود آگاہ کا مذہب بھی قرار دیتا ہے، ایسا آفاقی مذہب کہ جس کی نماز کے قیام کی اذاں افلاک کی وسعتوں میں گونجتی ہے۔ انفرادی، ملی اور بین الاقوامی زندگی میں خود آگاہی کی الگ الگ کیفیات ہوتی ہیں، لیکن سب کا محور و مرکز اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کا حصول ہوتا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضاکا حصول نفس پر بھاری ہوتا ہے، وہ عقل کے ذریعے اسے مشکل سے مشکل تر پیش کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے، نفس امارہ کا سب سے بڑا فریب یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کے ذہن میں یہ تصور قائم کرتا ہے کہ وہ گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے اللہ کی نظر میں اس درجہ معتوب اور مقہور ہو چکا ہے کہ اس کی توبہ قبول ہو گی اور نہ ہی اسے معافی ملے گی، نفس کی اس چال سے بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ واقعی ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ ان سے ہمیشہ کیلئے ناراض ہو گیا ہے، اب ان پر توبہ کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور ہمیشہ کیلئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا سے محروم، لہٰذا وہ توبہ کی بجائے گناہ پر گناہ کئے چلے جاتے ہیں ۔

اس موقع پر مردان خود آگاہ کے قلوب میں اللہ تعالیٰ کی شدید محبت اور عشق بیدار ہو کر انہیں اللہ تعالیٰ کی صفات غفوری، کریمی اور رحیمی کی طرف متوجہ کرتا ہے، انہیں تو بۃ النصوع کی توفیق ملتی ہے، حتی کہ وہ صدق دل سے توبہ کر کے مکمل تائب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے مردان خود آگاہ زندگی کے ہر مرحلے میں اللہ تعالی کی رضا کے حصول کیلئے عشق کو لازم قرار دیتے ہیں کہ عشق کی آگ ہی نفس امارہ کی مکاری، چالبازی اور مکر و فریب کے باریک جال کو جلا دیتی ہے، جو جنگل میں اُگنے والی ان خود رو جڑی بوٹیوں اور بیلوں کی طرح ہوتی ہے کہ جو سارے جنگل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ جنگل کی بیلوں کو صاف کرنے کیلئے بہت زیادہ عرصہ درکار ہوتا ہے۔

اللہ جل شانہ کی تمام صفاتی شانیں بندے کے سامنے آ جاتی ہیں، اسے اللہ کے سوا دوسری کوئی شئے نظر ہی نہیں آتی، ہر شئے اور ہر طرف اللہ ہی اللہ نظر آتا، عشق کا یہ جذبہ سارے منفی جذبوں کو ختم کر دیتا ہے، قلب سلیم میں کسی دوسرے خیال کا گزر ہی ممکن نہیں رہتا۔ اقبالؒ خودی کے استحکام کیلئے عشق اور محبت کو لازم قرار دیتے ہیں۔ وہ مومن کے ایمان کی تکمیل اور تہذیب حیات انسانی کیلئے عشق کو بنیاد سمجھتے ہیں۔

آداب خودآگاہی سیکھنے کیلئے اقبالؒ نے عشق کے مکتب میں داخلہ کو لازم قرار دیا ہے، کہ عشق کو استاد مانے بغیر خود آگاہی کے آداب نہیں سمجھے جا سکتے ہیں۔ جو مقصد ذندگی سے واقف ہوا، اس نے ہر اللہ کے حکم کے مطابق زندگی گزاری، اس کی رضا کے حصول کیلئے تیار کیا، اور جب اجزائے انسانی پر اس کو دوام نصیب ہوا، جب انسان کو اللہ تعالی جل شانہ کی حاکمیت اعلیٰ اور ہر شئے کے مالک ہونے کا یقین کامل ہو جاتا ہے ۔ تو انسان عقل کے پورے کمال کے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالی سے واصل ہو جاتاہے، عقل عشق کے راز کو پالیتی ہے اور اسے اپنا استاد تسلیم کر لیتی ہے۔

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
عطارؔ ہو رومیؔ ہو رازیؔ ہو غزالیؔ ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگاہی
نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد الہٰی
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button