ColumnImtiaz Aasi

وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، پنجاب کے وزیراعلیٰ کے منصب سے پرویز الٰہی کو محروم رکھا گیا۔ایک خط کو بنیا د بنا کر سیاست کا پانسہ پلٹ دیا گیا۔حکومت کو آئے سو دن سے زیادہ ہو گئے ہیں ۔کون سا معرکہ سر کرکے دکھایا جو تحریک انصاف کی حکومت سے سر نہیں ہوسکا تھا۔بس ایک ہی رٹ لگائی ہوئی ہے کہ معیشت کا بیڑاغرق عمران خان نے کیا۔تجوریاں بھرنے والوں کو ملک اور عوام کا احساس ہوتا تو پہلے معیشت کو ٹھیک کرنے کی طرف توجہ دیتے نہ کہ نیب قوانین میں من پسند ترامیم لاتے۔پرویز الٰہی کی درخواست پر سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ چیف جسٹس کی سربراہی میں کیس کی سماعت کر رہا ہے اور توقع ہے کہ رواں ہفتے کیس کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔

پی ڈی ایم کو نجات دہندہ سمجھنے والوں سے بھلا کوئی پوچھے اقتدر سنبھالنے کے بعد حکومت نے ملک اور عوام کیلئے کیا خدمات انجام دی ہیں۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ بارے کسی قسم کا کوئی ابہام تو تھا نہیں۔شجاعت حسین کمزور آدمی ہیں ان کی اپنی کوئی سوچ نہیںان کی سیاست بیساکھیوں کے سہارے چلتی ہے انہیں تو نوجوان بچوں کی سوچ سے اتفاق کرنا چاہیے تھا۔ ڈپٹی سپیکر کے نام مراسلہ لکھ کر کانوں کان کسی کو خبر نہیں ہونے دی ۔ وزارت اعلیٰ کا انتخاب ہوا ہے، ٹی وی چینلوں پرسنیئر قانون دانوں کاواویلا ہے ڈپٹی سپیکر نے فیصلہ غلط کیا ہے۔پنجاب کے سابق وزیر قانون راجہ بشارت نے ٹھیک کہا ہےکہ ڈپٹی سپیکرنے توارکان کا candidatureہی ختم کر دیا ہے۔عجیب تماشا ہے ووٹ کاسٹ کرنے والوں کو پتا ہی نہیں کہ کوئی مراسلہ بھی ہے۔

دراصل اب ساری قوم کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی ہے، عمران خان کی کال پر لوگ فوری سٹرکوں پر نکل آتے ہیں۔روز بروز عام انتخابات کا مطالبہ زور پکڑرہا ہے۔آصف زرداری عام انتخابات جلدکرانے کے حق میں کیوں نہیں، انہیں پتا ہے آئندہ انتخابات میں سندھ ان سے جاتا رہے گا۔ جب سے فلور کراسنگ کرنے والوں کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی خاصے خوف زدہ ہیں فلورکراسنگ کی تو ڈی سیٹ ہوجائیں گے۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے الیکشن میں کم از کم لین دین کی منڈی تو نہیں لگی ورنہ عام طور پر ایسے موقعوں پر لوگ لین دین کرکے وفاداریاں بدل لیتے تھے۔

معاشی استحکام تو پہلے بھی نہیں تھا۔سیاست دانوںکامطمع نظر لوٹ مار ہو تو ملک میں معاشی استحکام کیسے آئے گا۔پی ڈی ایم کی حکومت کے آتے ہی فیصل آباد میں ٹیکسٹائل انڈسٹری بند ہو چکی ہے حالانکہ یہی ایک انڈسٹری ہے جس سے ہمارا ملک خاطر خواہ زرمبادلہ کما سکتا ہے۔نواز شریف اور فضل الرحمان نے تحریک انصاف سے آئینی ہاتھوں سے نپٹنے کا عندیہ دیا ہے۔پہلے کم لوگوں کو مارا گیارہتی کسر اب نکال لو۔پرامن احتجاج عوام کا آئینی حق ہوتا ہے جس سے لوگوں کو محروم نہیں رکھا جا سکتا۔حیرت تو اس پر ہے کہ ارکان اسمبلی کو خط کا علم ہی نہیں اور انہیں ووٹ سے یکسر محروم کر دیا گیا۔ایسی بات تھی تو پارٹی ارکان کا ہنگامی اجلاس طلب کرکے انہیں سپیکر کے نام خط کے مندرجات سے آگاہ کیا جاتا نہ کہ خفیہ طریقہ سے خط بھیج کر جمہوری روایات کی نفی کی گئی۔

توقع کی جاتی ہے سپریم کورٹ اس نقطے پر غور کرے گی۔چودھری شجاعت کے مراسلے کے خلاف مسلم لیگ قاف کے ورکرز نے مختلف شہروں میں احتجاج کیا اور دفاتر میں آویزں چودھری شجاعت کی تصاویر اتار دیں۔اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ خراب معاشی صورت حال کا ہے ۔دوست
ممالک اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ہم پر یہ وقت آنا تھا۔ سعودی عرب جیسا دوست ملک جو آڑے وقتوں میں ایسے طریقہ سے مالی اعانت کر تا رہا اس نے بھی مدد نہیں کی ۔آخر کب تک دوست ممالک مدد کرتے رہیں گے۔

پی ڈی ایم کی جماعتوں کے لوگ وزارتوں کے مزے لے رہے ہیں بدنامی تو مسلم لیگ نون کی ہو رہی ہے۔مہنگائی کا ملبہ پی ایل ایم این پر ہے۔نواز شریف پنجا ب کے ضمنی الیکشن میں پارٹی کی شکست سے مغموم تھے۔شاید اسی لیے وہ پارٹی کی تنظیم نو کا ارادہ رکھتے ہیں۔پارٹی کی تنظیم نو سے کیا ہوگا عمران خان نے عوام کے ذہنوں میں یہ بات نقش کر دی ہے کہ شریف اور زرداری خاندان نے ملک وقوم کو لوٹا ہے۔نیب کیسوں کی تیاری پر کثیر سرمایہ خرچ کرنے کے باوجود مقدمات جوں کے توں پڑے ہیں۔

سابق چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ مقدمات کی سماعت میں التواء نہیں دیا کرتے تھے ان کے دور میں سپریم کورٹ میں ریکارڈ مقدمات کے فیصلے ہوئے۔نیب قوانین میں مقدمات کے فیصلوں کے لیے وقت مقرر ہے تو فیصلوں میں تاخیر سمجھ سے بالاتر ہے ۔قارئین کو یاد ہوگا عدم اعتماد کے موقع پر عمران خان نے سپریم کورٹ میں جو موقف اختیار کیا تھا تو عدالت عظمیٰ نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے پارٹی قائد اور پارلیمانی لیڈر کی ہدایات کے برخلاف ووٹ دینے والوں کو ڈی سیٹ کر دیا تھا۔

چودھری شجاعت کے خط والا معاملہ اس سے مختلف ہے چونکہ چودھری شجاعت صرف پارٹی ہیڈ ہیں نہ کہ پارلیمانی لیڈ ر ۔ گویا اس لحاظ سے چودھری شجاعت کا کیس بہت کمزور ہے۔سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی خبروں کی بازگشت ہے۔اللہ کرے ایسا ہی ہواور تمام اسٹیک ہولڈر منصفانہ انتخابات کے انعقاد کی راہ نکال سکیں۔عمران خان کو ملکی مفاد میں اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ کسی کو چور چور یا ڈاکو کہنے سے مسائل حل نہیں ہوتے ۔

ملک میں سیاسی استحکام لانے کی اشد ضرورت ہے۔ جن سیاست دانوں کے خلاف مقدمات عدالتوں میں ہیں ان کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے لہٰذا ملک کی سوچیںکہیں ایسا نہ ہو اقتدار کی جنگ ایک طرف رہ جائے ا للہ نہ کرے ملک دیوالیہ ہو جائے۔دونوں فریقوں کو عدالتوں پر اعتماد کرنا چاہیے ۔اداروں کو دھمکیاں دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔آخر ایک روز انتخابات تو ہونا ہی ہیں جلد انتخابات کے انعقاد میں کیا نقصان ہے ۔اقتدار کے مالک تو عوام ہوتے ہیں عوام جسے اقتدار کیلئے اہل سمجھیں گے وہی جماعت حکمرانی کا حق رکھے گی۔کسی طرح منصفانہ انتخابات کی راہ نکالی جائے تاکہ ہارنے والا فریق اپنی شکست دل وجاں سے قبول کرلے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button