Editorial

قومی مفاد میں سیاسی کشیدگی کا خاتمہ کیا جائے!

وطن عزیز کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورتحال مسلسل تشویش میں اضافے کا باعث بن رہی ہے، قوم کو ایک طرف ڈیفالٹ کے خطرات سے ڈراتے ہوئے اچھے دور کی نوید سنائی جارہی ہے تو دوسری طرف سیاسی عدم استحکام میں روز بروز ہوتا اضافہ اِس کے اثر کو زائل کررہا ہے، کیونکہ عدم برداشت اور بالادستی کی جستجو نے صبروتحمل، برداشت اور رواداری کو جیسے گہرا گڑھا کھود کر دبادیاہے،

جس طرح کی سیاست مرکزی قیادت کررہی ہے اسی طرح جارحانہ سیاست نچلی سطح پر گلی محلوں میں بھی ہورہی ہے مگر سب سے زیادہ تشویش ناک مظاہرے سوشل میڈیا پر دیکھنے کو مل رہے ہیں جہاں قومی سلامتی اور احترام کے غیر جانبدار اداروں کا وقار انتہائی بے رحمی اور غیر ذمہ داری سے زیر بحث لایا جارہا ہے، چونکہ قد آور سیاسی قیادت ایسا کررہی ہے اِس لیے اُن کے دیگر رہنما اور کارکنان کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں، جن اداروں کی عزت و تکریم اخلاقی اور آئینی لحاظ سے ہم پر واجب ہے ہم اُنہی اداروں کے کردار کو حسب منشا زیر بحث لاکر نجانے کونسا کارخیر انجام دے رہے ہیں، حالانکہ یہ حب الوطنی نہیں بلکہ ملک دشمن عناصر کے ایجنڈے کی تکمیل ہے ، دوسرے معنوں میں ہم ملکی سلامتی اور عزت و وقار کے اداروں کا تحفظ کرنے کی بجائے ان اداروں پر غلط کج بحثی کررہے ہیں ،

چند ماہ پہلے تک ہمیں بتایاگیا تھا کہ پڑوسی ملک ایسے جعلی سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے عوام پاکستان اور قومی اداروں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی سازش کررہا ہے لیکن حالیہ دنوں میں یہی نظر آرہا ہے کہ پاکستان دشمنوں سے زیادہ ہم ہی اپنے اداروں کی عزت و وقار کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ وطن عزیز آج جن معاشی حالات سے دوچار ہے اور عوام دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہیں ، ایسے میں تو ملکی سیاست قیادت کو ایک پیج پر نظر آنا چاہیے تھا کہ پہلے ریاست پھر سیاست کی سوچ اپنائی جاتی، مگر افسوس اِس وقت معاشی بحران ٹھہرا ایک طرف، سیاسی بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور ہر نئے دن کے ساتھ نیا سیاسی بھونچال آجاتا ہے حالانکہ ڈالر کی قیمت روز بروز بڑھ رہی ہے، پاکستانی روپے کی بے قدری لرزہ خیز حد تک پہنچ چکی ہے۔

پاکستان سٹاک ایکسچینج میں کاروبار میں مسلسل منفی رجحان دیکھا جارہا ہے اور سرمایہ کاروں کا سرمایہ ڈوب رہا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے کی وجہ سے پورے ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے، مگرجنہوں نے عملی اقدامات کے ذریعے معاشی صورتحال کو قابو کرنا ہے وہ شاید عملی اقدامات کرنے کی بجائے آسمان کی طرف دیکھنے کو مجبور ہیں اور شاید پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کا خاتمہ، بجلی اور گیس مہنگی کرکے تصور کرلیاگیا ہے کہ بیرون ملک سے ملنے والے قرضوں کے بعد سب ٹھیک ہوجائے گا، بیرون ملک سے ملنے والے قرض کیوں نہیں مل رہے

تاخیر کی وجوہات بھی ایسی بیان کی جارہی ہیں کہ دوست ممالک ہماری معاشی پالیسیوں سے مطمئن نہیں اس لیے وہ اپنا سرمایہ محتاط طریقے سے لگانا چاہتے ہیں۔ پٹرول، بجلی اور گیس کی مہنگائی نے ملک میں مہنگائی کے طوفان کی جو لہر چلائی ہے اِس نے عامۃ الناس خصوصاً غریبوں اور سفید پوش طبقے کو خوب غوطے دیئے ہیں رہی سہی کسر روزانہ کی بنیاد پر ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے نکل رہی ہے، کوئی ایک چیز ایک دن پہلے والے دام پر دستیاب نہیں اور ہر روز نئی قیمتیں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں،

حکومت مخالف سیاسی طاقتیں دعویٰ کررہی ہیں کہ نئی اتحادی حکومت معاشی معاملات کو سنبھالنے میں ناکام ثابت ہوئی اسی لیے ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے جبکہ اتحادی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پچھلی حکومت کے غلط فیصلوں نے ملک میں معاشی بحران پیدا کیا ہوا ہے ، موجودہ اور پچھلے حکمرانوں کے موقف اپنی جگہ لیکن درحقیقت عوام بری طرح پس کر موجودہ نظام سے مایوس ہورہے ہیں کیونکہ انہیں ہمیشہ آزمائش میں ہی ڈالاگیا ہے۔ سپریم کورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ اور فل کورٹ بنانے کی درخواستوں کی سماعت کے دوران جناب چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فرمایا کہ اپریل سے ایک بحران چلا آ رہا ہے، ہم ریاست کے اتنے معاملات کو لمبا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ دو ماہ پہلے عدالت نے ایک فیصلہ دیا جو سب پر ماننا لازم ہے، ہو سکتا ہے ہمارا فیصلہ غلط ہو لیکن ابھی تک فیصلہ پر نظر ثانی نہیں ہوئی، نظر ثانی درخواستیں زیر التواء ہیں، توقع نہیں تھی اسمبلی بحال ہونے کے بعد نئی اپوزیشن واک آؤٹ کر دے گی،

عدالت نے نیک نیتی سے فیصلہ کیا تھا، اپریل 2022ء سے آج بحران بڑھتا ہی جا رہا ہے، آپ شاید چاہتے ہیں یہ بحران مزید طول ہو، فل کورٹ ستمبر میں ہی بن سکے گی، کیا تب تک سب کام روک دیں؟ ریاست کے اہم ترین معاملات کو اس لیے لٹکا نہیں سکتے آپ کی خواہش ہے، آئینی اور عوامی مفاد کے مقدمات کو لٹکانا نہیں چاہیے، ہر شہری کی طرح معیشت کی صورتحال سے ہم بھی پریشان ہیں، کیا معیشت کا یہ حال عدالت کی وجہ سے ہے یا عدم استحکام کی وجہ سے؟ آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور کم لینے والا وزیراعلیٰ ہے، حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ برقرار رکھنے کے لیے ٹھوس بنیاد درکار ہے، ریاست کے کام چلتے رہنے چاہئیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزارت اعلیٰ پنجاب کے کیس کی سماعت آج تک ملتوی کردیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ آئین و قانون کے مطابق ہونے والے فیصلے کونہ صرف تمام فریقین من و عن قبول کریں گے بلکہ ملکی معاشی و سیاسی حالات کو بہتر کرنے کے لیے سیاسی کج بحثی کا خاتمہ کرکے قومی سطح پر ڈائیلاگ کا آغاز کریں گے، کیونکہ یہی ملک و قوم کے مفاد میں ہے اور یہی حالات کی اشدضرورت ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button