ColumnQaisar Abbas

فیری میڈو بھی نیلام ہو گیا! .. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

 

آج قراقرم ہائی وے پر، دریائے سندھ کے چوڑے پاٹ کے پاس فیری میڈو کے ایک چراغ عرفان اللہ سے ملاقات ہو گئی ۔ وہ چلاس کے ضلعی اختیارات برائے سیاحت نبھاہتے ہوئے رائے کوٹ پل سے گونر فارم تک چلے آئے اور پھر یوں بغل گیر ہوئے جیسے فیری میڈوز ہمارے بغیر اُداس تھا ۔ہم چند برس پہلے رائے کوٹ پل سے بذریعہ جیپ تو گئے تھے اور وہیں کسی پرستان سے علاقے میں شب بسری کی تھی۔ اگلی صبح جب ہم پیدل چلتے ہوئے، نانگا پربت کے قدم چھونے میں کامیاب ہوئے تو وہ عرفان اللہ ہی تھا جس نے نئی نویلی رضائیوں سے ہمیں برف ہوتے موسموں سے بچایا تھا۔ فیری میڈوز کے لان میں ، الاؤ کی روشنی میں جب ہمارے چہرے تانبے کے ہو گئے تو انہوں نے نیند سے بھری آنکھوں میں زندگی بھرنے کے لیے چائے تیار کروائی تھی۔

نانگا پربت پر جب چاند کی مکمل رات نے اپنا لمس چھڑکا تو بت بن چکے دو سائے ہمارے ہی تھے جو برف کے ساتھ برف ہی بننے والے تھے کہ عرفان اللہ نے آگ کی تپش سے ہماری سانسیں بحال کی تھیں ۔

عرفان اللہ فیری میڈو کی یادوں کے مزار کا آخری مجاور ہے۔ عرفان بھائی کے پاس جو دوربین تھی، ایسی دور اندیش چیز ہمیں نہ مل سکی۔ گزر چکے موسموں میں انہوں نے وہ دوربین ہمیں دی تو چاند اپنے کھردرے بدن کے ساتھ جیسے آسمان سے اُتر کر فیری میڈوز میں آگیا تھا ۔ نانگا پربت تو ذرا ذرا آنکھوں کے سامنے تھی ۔ ہم انہی کی رفاقت میں ریفلیکشن جھیل اور پولو میدان تک گئے تھے ۔ رات گئے فیری میڈو کے جنگل میں میرے ہمراہ وہی تھے ۔ اس کے بعد ہم جب بھی گونر سے گزرتے ، عرفان اللہ کو مل کر جاتے ۔ رائے کوٹ پل پر جیپ ڈرائیورز کو عرفان اللہ کے لیے سلام پیش کرتے اور پھر دریائے سندھ کے دوسرے کنارے پر منتقل ہوتے۔ آج اچانک ان کا مل جانا ملاقات مسیحا و خضر جیسی تھی ۔ کس پرتپاک انداز میں وہ ملے اور پھر قراقرم ہائی وے پر کھڑے ہوکر یادیں تازہ کیں ۔ وہ بھی ذرا بوڑھے نہیں ہوئے تھے ۔ تازہ دم اور جوان نظر آئے ۔

جب جب کہیں بھی ، کسی زمانے میں فیری میڈوز کی زعفرانی گھاس یاد کے دریچوں میں اپنی نرم گدگدی کے ساتھ دستک دیتی ہے تو فقط عرفان اللہ یاد آتے ہیں کہ انہوں نے تب، ایک مختلف دنیا میں ہم سب کو اجنبیت محسوس نہیں ہونے دی تھی ۔ انہوں نے ہمیشہ فیری میڈو کے بلاوے سنائے مگر ہم دوسرے جہانوں کی طرف کھوئے رہے ۔ ترشنگ جا کر جب نانگا پربت کی دیوار کا ٹھنڈا سایہ میسر آیا تو بھی فیری میڈوز کی کشش ہمارے قدموں کو کھینچتی رہی۔ وہ تمام مناظر جن کا تعلق فیری میڈوز سے تھا ، دراصل عرفان اللہ سے بھی وہی تعلق تھا کیونکہ انہوں نے اُنگلی پکڑ کر تمام نقاب الٹ کر دکھائے تھے جو کسی اور مقدر میں نہ تھے۔ آج تین برس بعد عرفان اللہ آفیسر بن چکے تھے اور چلاس سے فیری میڈوز تک ان کا حکم چلتا تھا ، ایسا حکم وہ
مجھے بھی دے چکے تھے کہ ’’ چلو چلو فیری میڈوز چلو‘‘ مگر ہمیشہ حکم عدولی کا گناہ سرزد ہوتا رہا ۔

فیری میڈوز پر اتر آئے ستارے بھی اور ٹھہر چکا چاند بھی ، جھیل میں نانگا پربت کا رقص کرتا عکس بھی ، بلند درختوں کے سائے میں تازہ گھاس بھی ، کچھ النگ بھی ، کچھ رنگ بھی ، شدید سردی بھری رات میں بدن کا عرق بھی ، بلند ہوتے الاؤ کی روشنی میں چہروں پر چڑھا ہوا تانبے کا لیپ بھی ، رائے کوٹ گلیشیئر کی گرج دار آواز بھی ، رات کو بلند ہوتی راگنی بھی اور ہواؤں کا دھیما شور بھی ۔سب کچھ فیری میڈوز سے جڑا ہے اور جہاں جہاں پریوں کی چراگاہیں ہیں، وہاں وہاں عرفان اللہ ہے۔
شاید وقت پھر وہاں لے چلے تو دیکھیں ۔

سنا ہے کہ جہاں پر بیٹھ کر ہم نے پولو میچ دیکھا تھا، وہاں پر کنکریٹ کی دیوار ہے اور اس کے اندر کئی منزلہ ہوٹل ہیں ۔ سنا ہے جہاں ننگے پاؤں ہم گھاس پر چلتے تھے تو گھاس مرجھا جاتی تھی ، وہاں پتھریلے بنچ دھرے ہیں ۔ سنا ہے جہاں بیٹھ کر ہم چڑھتا ہوا ماہتاب دیکھتے تھے اور چاند نانگا پربت پر اپنی کرنیں نچھاور کرتا تھا ، وہاں اب پکوان پکتے ہیں اور دھوئیں اٹھتے ہیں ۔مری اور ناران کے بعد فیری میڈوز بھی ویسا نہ رہا ، جیسا رہنا چاہیے تھا ۔ کچھ بھی تو ویسے نہ رہا تو پھر فیری میڈوز ویسے کیوں رہتا۔ جب اپر کچورا جھیل میں کشتیاں چل گئیں ۔جب عطا آباد لیک پر گندگی پھیلا دی گئی ۔ جب سکردو کے ٹھنڈے صحرا کی خاموش ریت کو موٹے ٹائروں والے موٹر سائیکلوں نے کچل ڈالا ، تب فیری میڈوز کیسے محفوظ رہتا۔ فیری میڈوز جو ایک مقدس مزار تھا ، اس کے مجاوروں نے اسے تماش بینوں کے ہاتھوں بیچ ڈالا۔ عرفان اللہ کب تک ماضی کے مزاروں پر چراغ جلاتا؟ کب تک وہ فطرت کو سنبھالتا۔ وہی عرفان اللہ اب گلگت سرکار سے ملنے والے احکامات پر ایک سرکاری مہمان کی خدمت سے واپس لوٹا اور ہماری ملاقات ہو گئی۔

ہم گرم رت جھیلتے آگے بڑھ گئے اور فیری میڈوز کہیں اوپر موسم نچھاور کرتا رہ گیا ۔ عرفان اللہ سے کئے گئے وعدے پھر رائے کوٹ پل پر سجے رہ گئے ۔ اچھا ہوا ہم ان کے بہکاوے میں نہیں آئے ، ورنہ ہم اس زمانے کے فیری میڈوز کا نوحہ لکھتے ، جب وہاں موت بھی زندگی میں بدل جاتی تھی ۔ میری یاد داشت کے کسی کونے میں جو فیری میڈوز تھا وہ اب تک زندہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button