ColumnM Anwar Griwal

غیر مخلص سیاستدان اور عوام! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

آج کالم کا دن ہے، صبح سے سَر میں گیس بھری ہے، طبیعت بوجھل ہے۔ واضح رہے کہ صحت کی یہ خرابی حالات کی وجہ سے ہے۔ کسی موضوع پر ذہن ٹِکتا نہیں، خیالات ہیں کہ چَکّی کی طرح دماغ میں چل رہے ہیں۔ کسی بھی میڈیا کو دیکھیں تو ایک جھکڑ ہے، جو چلا ہوا ہے، نہ کسی کی بات سمجھ میں آتی ہے، نہ کسی کی آواز سنائی دیتی ہے، نہ کوئی کسی دوسرے کی بات سنتا ہے۔ ایک ہنگامہ ہے جو برپا ہے۔ تازہ صورتِ حال تو پنجاب کے وزیراعلیٰ کے انتخاب پر پیدا ہوئی ہے۔ سیاست ایک کھیل ہے، شطرنج کی چالیں ہیں جو سیاستدان چلتے ہیں، جس کی چال کامیاب ٹھہرتی ہے وہ جشن مناتا ہے، جو پیچھے رہ جاتا ہے وہ تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔ پھر عدالت کے دروازے پر دستک ہوتی ہے، عدالت کسی کے لیے رات کو کھل جائے تو قابلِ مذمت قرار پاتی ہے، مگر جب اپنی ضرورت کے مطابق عدالت رات کو کھلے تو یہ اس کا فرض ہوتا ہے۔ عدالت ہمارے حق میں فیصلہ کر دے تو انصاف کا بول بالا ہوتا ہے، دوسروں کو ریلیف مل جائے تو عدالتوں اور وہاں بیٹھے ہوئے منصفوں کو مہینوں تک کوسا جاتا ہے، تاآنکہ خود ہمارے حق میں کوئی فیصلہ نہ آجائے۔

ہمارے سیاستدانوں نے اپنے مسائل خود حل کرنے کی بجائے اپنی داڑھی عدالت کے ہاتھوں میں دے رکھی ہے۔ ان معزز و محترم منتخب نمائندوں کا انتخاب تو اس لیے کیا جاتا ہے کہ اسمبلی میں جاکر قانون سازی کریں، ملک و ملت کے لیے بہتری کی منصوبہ بندی کریں، اپنے حلقے ، علاقے بلکہ پورے ملک کے لیے بہتر سوچیں، مگر اِن کی نگاہ تو پیٹ سے آگے تک بھی نہیں جاتی۔ جن گلیوں اور گٹروں کی تعمیر و مرمت کاکام کارپوریشن کے کونسلروں کا ہے، وہ یہ معززین اپنے ذمہ لے لیتے ہیں۔ ترقیاتی کاموں سے کمیشن کھاتے ہیں، اسمبلی جائیں یا نہ جائیں تنخواہ اور مراعات وصول کرتے ہیں، اسمبلی میں نہ سہی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی اپنے قائد کے سامنے سچی بات کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔

’’جو تم کو ہو پسند وہی بات کہیں گے‘‘کے مصداق صرف ہاتھ کھڑا کرنا ہے، اگر کبھی اختلاف کی کوشش کی تو اگلی مرتبہ ٹکٹ بھی نہیں ملے گا۔ تمام تر خوشامدی صورت حال کے باوجود یہ نمائندے اپنے قائدین کے سامنے اس قدر اعتماد بھی بحال نہیں کر سکے کہ کسی بھی بڑے عہدہ کے الیکشن کے موقع پر یہ لوٹ پوٹ تو نہیں ہو جائیں گے؟ کوئی انہیں خرید تو نہیں لے گا؟انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہوٹلوں میں قید رکھا جاتا ہے، رَا طوطوں کی طرح پنجروں میں ان کی خدمت کی جاتی ہے۔ خود پارٹی سربراہ دوسروں پر الزام لگانے میں عار محسوس نہیں کرتے کہ ہمارے لوگوں کی پچاس پچاس کروڑ قیمت لگائی جارہی ہے۔ کیا یہ نمائندے اس قدر بے وزن ، ہلکے اور بکائو مال ہیں، کہ کوئی بھی راہ چلتا انہیں خرید سکتا ہے۔اور پھر یہ بھی سیاست کا عجیب فارمولا ہے کہ جو فرد پارٹی چھوڑ جائے وہ لوٹا اور جو دوسری پارٹی چھوڑ کر اِدھر آجا ئے تو اُس کا ضمیر جاگ جاتا ہے۔
یہ حکمران، سیاسی قائدین، منتخب نمائندے ملک وقوم کے اس قدر مخلص ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے، مجال ہے جو کسی نے اپنی مراعات اور عیاشیوں میں ایک روپیہ کمی کی بات کی ہو۔ تھوڑی سی تحریک سوشل میڈیا پر چلی تھی کہ یہ سرکاری پٹرول ہی کم کر دیا جائے، مگر وہ تحریک بھی دم توڑ گئی۔ کون مفت کا مال چھوڑتا ہے؟ کیسا غیر فطری نظام ہے، کہ سرکاری تنخواہ بھی لینی ہے اور مفت پٹرول بھی۔ دیگر بے شمار مراعات بھی۔ اِن سیاستدانوں میں کون ہے جواَرب پتی نہیں،(شاید آٹے میں نمک کے برابر)۔ انہوں نے اگر عوام کی خدمت کرنی ہے تو کریں، قومی خزانے کی لوٹ مار سے تو خدمت کے دعوے نہ کریں۔ بجائے اِن سبز نمبر پلیٹ گاڑیوں کی عیاشیوں کو روکنے کے، عوام نے آپس میں لڑنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے، دوسروں کودُھول چٹوانا، ذلیل کرنا، بے عزت کرنا، الزام تراشی کرنااور دوسروں کی ہر بات کو ہر صورت میں رد کرنا، نام بگاڑنا، مغلظات بکنا اپنا فرضِ اولین جانا ہوا ہے۔ مخالفین کو گھیرنے اور آوازے کسنے کا کام تو شروع ہے، مگر یہ حکمران اور بیوروکریسی کی ظالمانہ عیاشیوں کو روکنے کا کسی کا کوئی منصوبہ نہیں۔

عدم برداشت کا عالم یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اگر کسی نے کسی آیتِ قرآنی کا ترجمہ ڈال دیا، تو اُس کی تشریح بھی اپنی مرضی سے شروع کر دی جاتی ہے۔ جس کی کسی غلطی کی نشاندہی کی جائے ، وہ اپنے قائد کی غلطی کا اعتراف کرنے کی بجائے مخالف سیاسی قائد کی غلطی کی مثال پیش کر دیتا ہے، گویا اُس نے گند ا کام کیا تو ہم کیوں نہ کریں؟ کیا غلطی کو اس لیے دہرایا جاتا رہے کہ وہ پہلے والوں نے بھی کی تھی؟ پھر ہر سیاسی قائد خود کرے تو بالکل درست ہوتا ہے اور دوسرا کرے تو وہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ سیاسی کارکنوں نے مہنگائی، سرکاری عیاشیوں اور دیگر مسائل کو خیر باد کہہ دیا ہے، اب لڑائی صرف قائدین کے بیانیہ کی ہے۔ہم درست ہیں، دوسرے غلط اور جھوٹے ہیں۔ کیا ہمارے جذباتی سیاسی کارکن یہ بتا سکتے ہیں کہ نواز حکومت ہو یا زرداری ، عمران حکومت ہو یا شہباز، کسی حکمران نے اپنی، اپنی کابینہ کی یا بیوروکریسی کی عیاشیوں میں کمی کرکے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی؟ جواب سو فیصد نفی میں ہے، بیوروکریسی اس قدر طاقتور ہے کہ کوئی بھی حکمران اُن کی عیاشیوں میں کمی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ سیاستدان جب حکومت میں آتے ہیں تو حکومتی عیاشیوں اضافہ ہی دیکھنے میں آتا ہے اور اِس ضمن میں یہ لوگ کبھی اختلاف بھی نہیں رکھتے، معاملات کو ملتوی بھی نہیں کرتے، فوری اور متفقہ طور پر تنخواہ وغیرہ میں اضافہ کر لیتے ہیں۔ جن کے کندھوں پر پائوں رکھ کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے ہیں، انہی کو بے وقوف بنا کر اپنا کام چلاتے رہتے ہیں اور عوام ہیں کہ اپنے دشمنوں کو خود اپنے سروں پر مسلط کرتے ہیں، ستم یہ بھی کہ اُن کو دشمن سمجھنے کی بجائے الٹا عقیدت سے اُن کے لیے قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ جب ہم عوام ہی اپنے اندر سے اچھے لوگوں کو ہی آگے نہیں لانا چاہتے تو ہمارے معاملات بہتر کیسے ہو سکتے ہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button