Columnعبدالرشید مرزا

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی (2) .. عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

 

بے بس انسان ہو کر اس نے انسان پر خدائی کی، انسانی غلامی کی سب سے مکروہ اور بھیانک شکل ذہنی اور فکری غلامی ہوتی ہے، انسان کو ہر قسم کی غلامی میں مبتلا کرنے والے آمروں کا سب سے زیادہ ظالم، جابر اور قاہر طبقہ تاریخ میں رومیوں اور یونانیوں کا رہا ہے، یہ غلاموں سے انتہائی بہیمانہ سلوک روا رکھتے تھے، اسیران جنگ کو غلام بنانے کے بعد ان کو یا تو قتل کیا جاتا تھا، یا ہمیشہ کیلئے غلامی اور بے بسی کی زندگی گزرانے پر مجبور کیا جاتا تھا، روم کے تماشہ گاہوں اور اکھاڑوں میں جنگی قیدیوں کو زندہ جلایا جاتایا سخت ترین عقوبتیں دے کر قتل کیا جاتا تھا۔ انہیں بھوکے شیروں کا نوالہ بنایا جاتااوربسا اوقات پومپیائی کے اکھاڑوں میں ایک ایک دن میں ہزاروں غلاموں کو تہ تیغ کیاجاتا۔عصر حاضر میں دنیا کے بزعم خود ترقی یافتہ اور مہذب اقوام میں بطور وراثت یہ بہیمانہ خصلتیں اب بھی موجود ہیں یہ لوگ طاقت کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور اس کے پجاری ہیں۔ اس طبقہ فکر کی خودآگاہی، انا پرستی، خودپرستی، خودمختاری، خودسری، خود غرضی، غرور، تکبر اور قوت تک محدود ہے، یہ نہ خدا کو جانتے ہیں اور نہ قوانین فطرت کو، ان کی نظر میں یہ دنیا کے سب سے اعلیٰ لوگ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انسانوں کے مختلف طبقات فکر میں ایک طبقہ فکر وہ بھی ہے جس کو نہ اپنی پہچان ہے اور نہ اپنی خودی کی، انہیں دوسرے انسانوں کی پہچان سے کوئی غرض ہے، نہ کائنات میں رہنے والے انسانوں اور دیگر مخلوقات، نباتات، جمادات، حیوانات اور اشیاء کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت، اس کے خیال میں کائنات، دنیا اور اس پر رہنے والی مخلوق ازل سے اسی طرح خود بخود پیدا ہوتی اور مر جاتی ہے، یہ دنیا کس نے بنائی، انسان کو کیوں پیدا کیاگیا، انسان کو احسن تقویم اور اشرف المخلوقات کیوں بنایا گیا، کیا انسان صرف اتنا ہی کچھ ہے جتنا وہ نظر آتا ہے، جانداروں، نباتات، جمادات اور ماحولیات کے
ساتھ انسان کا انفرادی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی تعلق کیا ہے، ان سوالوں کے جواب حاصل کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ یہ پیدا ہوتے ہیں، جوان ہوتے ہیں، کماتے ہیں، خرچ کرتے ہیں اور مر جاتے ہیں، ان کی خودآگاہی کا کل معیار اس حد تک ہے۔

زمانہ اپنے آخری دور میں داخل ہوا تو مہذب دنیا کی مجموعی صورتحال اس حد تک ابتر ہو چکی تھی کہ اس کا پورا سیاسی، معاشی اور تمدنی اور اخلاقی ڈھانچہ آلود ہو چکا تھا، عیش و عشرت، فحاشی اور عریانی کو فن لطیف کا درجہ حاصل ہوگیا، بے حیائی کو آرٹ اور اخلاق باختہ پیشہ ور عورتوں کو معزز فنکارائیں سمجھا جانے لگا، قوم کی لڑکیاں بے حیائی کو رفعت اور اخلاق باختگی کو عزت کا پیمانہ سمجھ اسی راہ پر چل پڑتیں، بادشاہ بے رحم، سفاک اور ظالم اور امراء، روسا اور حکومتی عمال عیش و عشرت میں ڈوب چکے، دوسری طرف غریب اور مفلوک الحال طبقات مصیبتوں اور محرومیوں کا شکار زندگی کو لعنت اور عذاب سمجھتے، تہذیب و تمدن سے متنفر کشمکش زندگی سے فرار چاہتے، اس فکری انحطاط میں افلاطون کے فلسفے، ہندو مت کے نظریات اور بدھ مت کی تعلیمات کا ہاتھ سب سے زیادہ تھا، انہی ایام میں دنیا میں نو افلاطونی نظام فکر کی جڑیں پھیلتی گئیں، اس نے انسانی نظام ذہن کو بری طرح قابو میں لے لیا، حتیٰ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیغمبرانہ تعلیمات کی جگہ، جس کی بنیاد اللہ کی وحدانیت پر قائم تھی، رہبانیت نے لے لی تھی، بڑے بڑے مفکر اور دانشور بھی اس سے متاثر ہوتے چلے گئے، نو افلاطونی فلسفہ، دنیا اور انسان کی حقیقت سے منکر تھا، اس کے نزدیک حقیقت کا علم عقل سے نہیں بلکہ کشف اور مراقبہ سے ممکن تھا، اس نے پیغمبرانہ ہدایت کے برعکس ترک دنیا کے مجہول طریقے اپنا لئے، جس کے باعث ضعیف العقیدہ افراد نے کشمکش اور انقلاب کی راہ ترک کی اور خلوت گزینی کے ذریعے خود آگاہی اور خدا شناسی کا طریقہ اختیار کیا۔

دنیا کے یہ حالات ظہور اسلام سے پہلے تھے، انسانی خون کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی، انسانیت اور اخلاقی اقدار کا شیرازہ بکھر چکا تھا، حرص و طمع لالچ، ہوا ہوس کا بازار گرم تھا، کفر کی یلغار تھی، شرک کی یورش، زمین پر بسنے والے انسان خدا کی رحمت اور تصور نجات سے بہت دور نکل چکے تھے، دنیائے ارضی میں نہ اس کا کوئی شیدائی رہا تھا اور نہ اس سے کوئی محبت اور عشق کرنے والا، کسی کو خودشناسی کی فکر تھی اور نہ خداشناسی کی لو تھی دنیا خدا اور اس کی خدائی سے یکسر لاتعلق ہو چکی تھی۔ حقیقت ازلی کی تلاش سے انسان منہ موڑ کر عقل کے ذریعے اللہ کی تلاش میں مصروف ہو گیا، جبکہ اللہ کی تلاش تو صرف عشق کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انسان کی اس ناآشنائی میں سرزمین مکہ میں اللہ سبحانہ وتعالی کی محبت وعشق میں دھڑکنے والے ایک حق آشنا دل بیتاب سے آواز بلند ہوئی۔

یہ آواز حضرت محمد مصطفی نبی آخر الزماں ﷺ کی تھی، یہ صوت سرمدی، دنیا میں بسنے والی ہر مظلوم اور بے چین نوع انسانی کیلئے پیام نجات اور نوید امن تھی، انسانوں میں محبت کی تڑپ رکھنے والے جس فرد نے یہ آواز سنی، وہ اس صدائے محبت پر ایمان لاکر اللہ سبحانہ وتعالی پر بن دیکھے ایمان لایا۔ بنی نوع انسان کیلئے آداب خود آگاہی کا وہ الوہی درس شروع ہوا کہ جس کا محرک اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے شدید محبت اور عشق تھا ۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button