ColumnKashif Bashir Khan

جمہور کی نفی کاخطرناک کھیل! ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

جو کچھ 22 جولائی کو پنجاب اسمبلی میں ہوا اور جس طرح کا کردار بزرگ سیاستدان چودھری شجاعت اور آصف علی زرداری نے عوام کے مینڈیٹ کو روندنے میں ادا کیا، اس نے پاکستان میں موجود نظام کی کمزوری اور اس پر قابض مختلف سیاسی اور دیگر مافیاز کی اصلیت کھول کر رکھ دی ہے۔عوام کے مینڈیٹ کو چوری کرنے کی جو روایات پاکستان میں پائی جاتی ہیں ان کی مثال دنیا میں شاید ہی کسی اور ملک میں ہوں۔حد تو یہ ہے کہ چودھری شجاعت اور آصف علی زرداری کی سرعام ملاقاتوں میں پاکستان کے ایک متنازعہ ترین پراپرٹی ٹائیکون کی موجودگی میڈیا چینلز دکھاتے رہے۔یہ وہ گٹھ جوڑ ہے جس نے اس ملک میں کرپشن کو عام کیا اور جمہور کو ان کے زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

1989 میں محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو اس کے روح رواں بھی نواز شریف ہی تھے اور فیصل آباد کے بزرگ سیاستدان میاں زاہد سرفراز نے راقم کو بہت سے پروگراموں میں ثبوتوں کے ساتھ بتایا تھا کہ بینظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے محرک وہ تھے اور صدر غلام اسحاق کے ایما پر اس عدم اعتماد میں پی پی پی کے اراکین قومی اسمبلی کو توڑنے کیلئے میاں نواز شریف وغیرہ کی مدد کرنے کا ٹاسک ان کو دیا گیا تھا۔ میاں زاہد سرفراز کے مطابق عدم اعتماد کیلئے مطلوبہ اراکین کی تعداد وہ پوری کر چکے تھے اور اس عدم اعتماد کیلئے جو ’’فنڈز‘‘ملے تھے وہ سب میاں نواز شریف نے لے لیے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب میاں نواز شریف نے یہ ڈیڈھ ارب ڈالر اسامہ بن لادن کو یہ کہہ کر لیے تھے کہ بینظیر بھٹو جہاد کے خلاف ہیں اور وہ(نواز شریف)جہاد کے حامی ہیں۔اسامہ بن لادن سے جو ڈیڑھ ارب روپے نواز شریف نے حاصل کئے تھے اس میں سے 26کروڑ روپے بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں استعمال کئے گئے جبکہ باقی سب پیسے میاں نواز شریف کے پاس رہ گئے۔

میاں زاہد سرفراز بتاتے ہیں کہ اس عدم اعتماد کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ جب نواز شریف کو معلوم ہوا کہ عدم اعتماد کیلئے اراکین کی مطلوبہ تعداد پوری ہو گئی ہے اور کامیابی کے بعد غلام مصطفیٰ جتوئی اگلے وزیر اعظم بنیں گے تو پھر انہوں نے کچھ ممبران کو ملا کر بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنا دی تھی۔یہ تھی سیاسی خود غرضی اور بے وفائی کی مثال۔

نواز شریف کےاسامہ بن لادن سے پیسے لینے کا انکشاف رحمت شاہ آفریدی نے میری ٹی وی پروگرام میں کیا اور اس پروگرام کو بعد میں نہ صرف بھارتی و مغربی چینلوں پر دکھایا گیا تھا بلکہ بی بی سی نے اپنی ڈاکیومینٹری ’’پینڈورا آف پانامہ‘‘میں بھی دکھایا تھا۔

پاکستان میں اراکین اسمبلی کو کیسے کیسے پیسوں کے ذریعے خریدا جاتا رہا۔افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اسی اور اور نوے کی دہائی میں ترقیاتی فنڈز کے نام پر اراکین اسمبلی کو کروڑوں روپے دے کر ان کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کروا کر اپنے ساتھ ملایاگیا۔ان ترقیاتی منصوبوں کے پیسوں کے ثمرات جمہور تک کبھی نہیں پہنچے بلکہ ان پیسوں کی بدولت ماضی کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے اراکین اسمبلی آج ارب پتی بن چکے ہیں۔ 1993 میں جب سپریم کورٹ نے 58 ٹو بی کے باوجود جب نواز شریف کی حکومت بحال کی تو پنجاب کی حکومت بچانے کیلئے اراکین اسمبلی کے ساتھ ساتھ سیکرٹری اسمبلی کو بھی قریباً ایک ماہ تک کر کے چھپایا گیا تھا۔جمہور کی رائے کا قتل عام ہر دور میں کیا گیا۔عوام کے ذریعے رکن اسمبلی بننے والے اراکین اپنے ضمیر کے سودے کروڑوں میں پچھلی تین دہائیوں سے سرعام کرتے نظر آرہے ہیں لیکن چارہ سازوں نے دانستہ اپنی آنکھیں بند رکھیں۔2013 سے قبل جمہور کی عمومی رائے یہ ہو چکی تھی کہ ووٹ ڈالنے کا کیا فائدہ۔ہونا تو وہ ہی ہے جو’’وہ‘‘چاہیں گے۔یہاں’’وہ‘‘سے مراد صرف فوج نہیں بلکہ اس ملک کی بیوروکریسی،عدلیہ اور دوسرے طاقتور حلقے ہیں۔

لیکن 2013 میں عمران خان نے ملکی سیاست میں برسرپیکاردو بڑی جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی نہ صرف اجارہ داری توڑی بلکہ جمہور کے اس بڑے طبقے کو انتخابی عمل میں واپس لے کر آیا جو پاکستان میں انتخابی عمل و سیاست سے بری طرح متنفر ہو کر گھروں میں بیٹھ چکے تھے۔جمہور کی بڑی تعداد کی انتخابی عمل سے لاتعلقی نے کاروبار سیاست میں موجود نواز شریف اور آصف علی زرداری سمیت تمام بڑے خاندانوں کو ملک کے وسائل اور جمہور کی تقدیر کے فیصلوں پر قابض کر دیا تھا۔اس اسٹیٹس کو کی حامل دونوں بڑی جماعتوں اور چند سیاستدانوں کا دراصل پس پردہ معاہدہ ہو چکا تھا کہ جمہورکے سامنے ہم دشمن لیکن اپنے مفادات کے حصول اور تکمیل کیلئے ہم متحد ہیں۔ 2013 سے قبل کے انتخابات سے قبل جمہور کی انتخابات میں شرکت یعنی ووٹ ڈالنے کی شرح کا بغور جائزہ لیں تو بآسانی معلوم پڑتا ہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف کی پاکستان کی
سیاست میں بطور مین اسٹریم پارٹی داخلے کے بعد پاکستان میں ووٹ ڈالنے کی شرح میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔

گو کہ عمران خان کے قریباً ساڑھے تین سال کادور حکومت کوئی بہت سنہری نہیں تھا لیکن ماضی کی حکومتوں کی کرپشن اور ملک کو لوٹنے کے بعد بدحال معیشت کو ٹریک پر لانے کی بھرپور کوشش عمران خان حکومت نے ضرور کی۔جمہور کو شعور دینے کی کوشش جسے اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے مسلم لیگ نون اور پی پی فتنہ قرار دیتے ہیں دراصل و ہی عمران خان کا اصل کارنامہ ہے اور جمہور نے چند روز قبل ہونے والے ضمنی انتخابات میں تاریخی ٹرن آؤٹ کے ذریعے نہ صرف 15سیٹیں جتوائیں بلکہ بڑی تعداد میں باہر نکل کر حکومتی وسائل کے وحشیانہ استعمال کے بوجود حکمران جماعت کو شکست دی۔

اگر جمہور اپنا حق لینا چاہے تواسے شکست دینا ممکن نہیں ہوتا۔آج پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہونے کے بہت قریب ہے اور ملک میں موجود اقلیتی حکومتیں (مرکزی اور سندھ و پنجاب)صرف اور صرف اپنے اقلیتی اقتدار کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں مصروف ہیں، مہنگائی، کرپشن،بیروزگاری اور عدم تحفظ نے جمہور میں جو بے چینی اور گھٹن پیدا کر دی ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔حمزہ شہباز کو ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد کھوسہ(جو خود سیاسی منحرف ہے)کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کی جو کوشش کی گئی اس کی پہلے رات 12 بجے پاکستان بھر میں عوام نے باہر نکل کر بھرپور مذمت کی جبکہ ہفتہ کے روز سپریم کورٹ کے تین رکنی معزز جج نے روک کر حمزہ شہباز کی پرانی پوزیشن جو کہ غیر منتخب کسٹوڈین وزیر اعلیٰ کی ہے، کو بحال کردیا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ آخر ہوتا ہے لیکن اعتزاز احسن اور دوسرے سینئر وکلاء نے حمزہ شہباز کو کسٹوڈین وزیر اعلیٰ بنانے کو ہدف تنقید بنایا ہے۔بادی النظر میں تو جمعہ کو پنجاب اسمبلی میں چودھری شجاعت حسین کے جس خط کو دکھا کر ڈپٹی اسپیکر نے چودھری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ سے محروم کیا اور قاف لیگ کے دس ووٹوں کو مسترد کیا اس کی آئینی حیثیت اس قابل نہیں کہ قاف لیگ کے ووٹ مسترد کئے جا سکیں لیکن اس پر حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کے تین رکنی فاضل بینچ نے دینا ہے لیکن دوست محمد مزاری کے سپریم کورٹ میں طلبی اور سپریم کورٹ کے 17 مئی کے فیصلے کو کوڈ کرنے پر اپنا موقف دینے پر پیش نہ ہونا واضح کررہا کہ جمہور کی رائے کو کچلا گیا ہے اور اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے آئین پاکستان کے آرٹیکل 63اے کو غلط استعمال کر کے اسے موم کی ناک بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

پاکستان کی موجودہ سیاسی اور معاشی بدترین صورتحال میں دھونس،جبر اور حکومتی وسائل کے استعمال سے حکومت کرنا اب بہت مشکل ہو چکا ہے اور جمہور کی رائے کو روند کر اسے اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے والوں کو ہمسایہ ملک سری لنکا کے حالات سے سبق ضرور سیکھنا چاہیے۔ جو اقتدار دھونس اور دھاندلی سے حاصل کیا گیا اور اس میں جمہور کی نفی ہو وہ کبھی دیرپا نہیں ہوتا اور پاکستان میں تو جمہور کی نفی والے اقتداروں کا وجود پرانا ہے۔حکمرانوں کو اب ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور جمہور کے اقتدار پر بزور طاقت حاصل کرنے سے باز رہنا ہو گا کہ پاکستان کے جمہور کا صبر ان کے بدترین مسائل جو پہاڑ جیسے ہیں،کے تناظر میں اب ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔موجودہ حکمرانوں کو عوامی غیض و غضب سے بچنا ہو گا کہ جمہور کی اکثریت اپنی محرومیوں کا بدلہ لینے کیلئے ان تمام طاقتور گروہوں سے لڑنے کو تیار نظر آ رہے ہیں جنہوں نے ان کا پچھلے 40 سالوں سے استحصال کیا۔ جمہور کے شدید ردعمل سے بچنا ہو گا اور جمہور کا اقتدار جمہوری نمائندوں کو واپس کرنا ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button