Columnمحمد مبشر انوار

بانکا ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

پاکستان میں حکومت گرانے کا منصوبہ ،پاکستان کے داخلی معاملات کے حوالے کامیاب ہوا ہے یا ناکام،اس کے آثار واضح نظر آ رہے ہیں تاہم حکومت گرانے میں سہولت کاری کرنے والے بظاہرابھی بھی اس کو پاکستان کی کامیابی قرار دیتے ہیں،جبکہ بیرونی مداخلت کا اقرار کرنے والے خاموش تماشائی بنے ،اس کھیل کا بخوبی جائزہ لے رہے ہیں اور ماضی کی طرح عین ممکن ہے اس میں سے اپنے مفادات کشید کرنے کیلئے مناسب وقت کا انتظار کررہے ہوں،مناسب وقت کی تشریح صرف اتنی ہی ہے کہ جیسے ماضی میں چار مرتبہ شب خون ماراگیا ۔ اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ دوبارہ اس ملک پر شب خون مارا جائے لیکن صد افسوس کہ سیاسی اشرافیہ اس حقیقت کا ادراک کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے اور باہم جوتم بیزرا ہے۔ اقتدار کے کھیل میں،سیاست وجمہوریت کے بنیادی مروجہ اصولوں کی دھجیاں بری طرح اڑائی جار ہی ہیں ،خرید و فروخت،دھونس و دھاندلی کا بازار گرم ہے،جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے فارمولے پر عمل ہو رہا ہے اور کوئی بھی ادارہ اس طرف عملاً متوجہ نہیں کہ ہر ادارے کو اپنی عزت عزیز ہے ۔

ازخود نوٹس لینے سے گریز کیا جار ہا ہے اور سیاستدانوں کو کھل کھیلنے کی اجازت ہے کہ جیسے چاہو کھیلو ،نتائج سے بے پرواہ سیاستدان ،قانون کی موشگافیوں کا سہارا لیتے ہوئے مسلسل جمہوری اطوار کا خون کرتے نظر آتے ہیں۔مہذب معاشروں میں سیاسی جماعتیں کسی منشور یا نظرئیے پر کاربند نظر آتی ہیں اور ان کے امیدواران بنیادی طور پر اس نظرئیے سے متفق؍قائل ہو کر ان سیاسی جماعتوں کے رکن بنتے ہیں لیکن پاکستان میں نظریہ کی سیاست قریباً دفن ہو چکی اور جو سیاسی جماعتیں کسی نظرئیے کے تحت میدان عمل میں ہیں،

یہ بھی پڑھیے

ان کے اراکین میں ہنوز پرانی جبلت موجود ہے کہ ان کے نزدیک نظریہ فقط اقتدارہے یا مال ہے۔ ان اراکین کی پہلی ترجیح اپنے حلقہ کے ووٹرز کے ساتھ مضبوط رابطہ تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ بڑی ترجیح سیاست میں کی گئی سرمایہ کاری کی مع منافع وصولی ہے،جس کیلئے انہیں کسی اصول،ضابطے یا منشور کی قطعی کوئی پرواہ نہیں۔

اس کا مظاہرہ اس وقت بھی پاکستانی سیاست میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے اور اس کے ذمہ داران کوئی اور نہیں بلکہ سیاسی قائدین ہیں،جو ہر صورت اقتدار سے چمٹے رہنے کے خواہشمند ہیں۔
حکومت گرانے میں سہولت کاری کرنے والوں نے معاشی اور عالمی تعلقات کے حوالے سے جو ہاہاکار مچارکھی تھی،اس کے مطابق وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان میں مہنگائی کا ایک نہ رکنے والا طوفان داخل ہو چکا ہے جس نے غریب کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ لاد کر اس کی معیشت کو تباہ وبرباد کیا جار ہا ہے اور اگر اس کا فوری تدارک نہ کیا گیا تو خدانخواستہ پاکستان کے حالات سنبھالے نہیں جا سکتے اور عمران خان کی حکومت انتہائی ناتجربہ کار ہے،جو ایسے معاملات سے نبرد آزما نہیں ہو سکتی،جبکہ مخالفین انتہائی تجربہ کار ہیں اور ان کے عالمی سطح پر روابط ایسے ہیں کہ ان کی مدد سے وہ پاکستان کی ڈوبتی ناؤ کو بحفاظت نکال سکتے ہیں۔

عمران خان مسلسل کہتے رہے کہ پاکستا ن کی اس ناگفتہ بہ معاشی حالت کے ذمہ دار یہی تجربہ کار ہیں کہ جنہوں نے اندھا دھند بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے ریاست پاکستان کو دبا رکھا ہے اور ان قرضوں سے بجائے پیداواری منصوبوں کے،غیر پیداواری منصوبے لگائے گئے ہیں اور ان قرضوں سے شروع ہونے والے منصوبوں سے بیشتر حصہ کک بیک کی صورت حکمرانوں کی ذاتی تجوریوں میں منتقل ہوا ہے،

عمران خان یہ بھی کہتے رہے کہ وہ اور ان کے رفقاء بڑی مشکل سے معیشت کو پٹری پر ڈالنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اس کے ثمرات سامنے آنے میں تھوڑا وقت لگے گا ،اس لیے حکومت گرانے کی کوشش نہ کی جائے،لیکن ان کی آواز نے کسی پر بھی اثر نہ کیا اور انہیں حکومت سے بیدخل کر دیا گیا۔ بعد ازاں سرکاری اداروں کی رپورٹس نے عمران خان کے معاشی اصلاحات اور ترقی کے دعوؤں کی تصدیق کر دی اور پاکستان کے معاشی اشارئیے چھ دہائیوں کے بعد انتہائی مثبت نظر آئے، ترقی کی شرح ایوب دور کے بعد ،تمام تر مسائل کے باوجود،اس سطح کو چھوتی نظر آئی۔

گذشتہ تین ماہ سے پاکستانی معیشت کا بھرکس جس طرح نکلا ہے،اس نے حکومتی تجربہ کاری کا بھانڈا بری طرح پھوڑ کر رکھ دیا ہے،ہر شعبہ ہائے زندگی میں گرانی ریکارڈ سطح کو پہنچی ہے لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔غریب پاکستانی کیلئے زندگی کسی عذاب سے کم نظر نہیں آتی،اس کا چولہا ٹھنڈا ہو رہا ہے،دووقت کی روٹی کا حصول ایک معمہ بن چکا ہے، ضروریات زندگی اس کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں۔ تیل کی مصنوعات ہوں یا بجلی کی قیمتیں،گیس ہو یا پانی، اشیائے خور ونوش ہوں یاادویات غرضیکہ ہر چیز پہنچ سے باہر ہو چکی ہے لیکن حکومت بضد ہے کہ وہ معاملات کو قابو کرنے کی اہل ہے اور کسی صورت نہ حکومت چھوڑنے کیلئے تیار ہے اور نہ ہی اصلاح احوال کرنے پر قادر نظر آتی ہے۔

دوست ممالک کی حالت یہ ہے کہ وہ بتدریج ہماری حمایت سے ہاتھ کھینچتے نظر آ رہے ہیں جبکہ گذشتہ دور حکومت میں بھی صورتحال قریباً ایسی ہی تھی لیکن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے مذاکرات اور ان کے نتیجہ میں دوست ممالک کی طرف سے پاکستان کی مالی مدد جاری رہی تھی۔

موجودہ حکومت کو بھی چین کی طرف سے جو حالیہ قرض ملا ،اس میں بھی آرمی چیف کی ملاقات ہی کام آئی وگرنہ تو دوست ممالک پاکستان کی مالی مدد سے قریباً ہاتھ کھینچ چکے ہیں جس کی انتہائی سادہ وجہ ہمارے اپنے روئیے اور کرتوت ہیں کہ جو قرض بھی ملتا ہے،اس کا بیشتر حصہ ہماری اشرافیہ اپنی تجوریوں میں منتقل کرتی ہے جبکہ باقی ماندہ سے افسر شاہی فیض یاب ہوتی نظر آتی ہے۔

دریں حالات جب ہمیں خود اپنے حالات سدھارنے کی فکر نہیں اور گدھوں کی طرح پاکستان کو نوچنے،لوٹنے اور کھسوٹنے میں مصروف ہیں، ملکی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کو عزیز تر رکھتے ہیں،تو کسی دوست کو کیا ضرورت ہے کہ وہ مسلسل ہماری مدد کرتا رہے؟عمران خان جس امریکی مراسلے کو حکومت گرانے میں بنیادی کردار بتاتے ہیں،اس کے مندرجات میں ایک یہ بھی رہا ہے کہ اگر عمران خان کو حکومت سے نکال دیا جائے تو امریکہ نہ صرف خود بلکہ دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے بھی ،نئی حکومت کی مالی مدد کرے گا۔

افسوس کہ ہمارے اقتدار پرست حکمران ہمیشہ کی طرح امریکی جھانسے میں آ گئے اور آج صورتحال یہ ہے کہ حکومت گرانے کے باوجود موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنوں کے بل ،ایک ارب ڈالر کیلئے ایڑیاں رگڑ رہی ہے لیکن نہ امریکہ اور نہ ہی آئی ایم ایف پاکستان کو یہ رقم دینے کیلئے تیار نظر آتےہیں۔دوسری طرف پاکستان کے معاشی معاملات مسلسل غیر یقینی حالت سے دوچار ہوتے جا رہے ہیں، کچھ خبر نہیں کہ پاکستان کیسے ان حالات سے نبرد آزما ہو سکے گا؟وسائل کی عدم موجودگی میں ڈالر کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے،جس سے درآمدات کا بل مسلسل پاکستانی معیشت کو نچوڑ رہا ہے گو کہ کئی ایک برآمدات پر پابندی بھی لگائی جا چکی ہے لیکن نہ تو تیل کی درآمد رک سکتی ہے اور نہ ہی گیس کی درآمد کو روکا جا سکتا ہے اور ان اشیاء کی قیمتیں عالمی منڈی میں روزانہ کی بنیاد پر اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں۔ بالعموم ان میں اضافے کا رجحان نظر آتا ہے،جس سے پاکستان کی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے کہ پاکستان میں ڈالر دن بدن مہنگا ہونے سے ان اشیاء کی درآمدات پر کثیر زرمبادلہ صر ف ہو رہا ہے۔

بارہا اس امر کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ امریکہ پاکستان کی جغرافیائی صورتحال سے پاکستانی اکابرین سے کہیں زیادہ باخبر ہے اور اس کی خاطر ایک طرف پاکستان کو مسلسل دباؤ میں رکھنے کا خواہشمند ہے تو دوسری طرف اپنے پلان2025پر بھی عمل پیرا ہے۔ جس کے مطابق وہ نعوذ باللہ پاکستان کو حصے بخروں میں دیکھنا چاہتا ہے،بھارت کے سامنے سرنگوں دیکھنا چاہتا ہے،اسرائیل کو تسلیم کروانا چاہتا ہے اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو اپنے اختیار میں دیکھنا چاہتا ہے،اپنے ان منصوبوں کی تکمیل میں اس وقت امریکہ بھرپور طریقے سے روبہ عمل ہے اور موجودہ صورتحال کو امریکی ہانکا ہی سمجھا جا سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button