Editorial

حمزہ شہباز دوبارہ وزیراعلیٰ منتخب

سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے ہونے والے انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ قاف کے متفقہ امیدوار چودھری پرویز الٰہی کو 186جبکہ مسلم لیگ نون اور اتحادی جماعتوں کے امیدوار محمد حمزہ شہباز کو 179 ووٹ ملے تاہم ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے صدر مسلم لیگ قاف چودھری شجاعت حسین کے ایک خط کو بنیاد بناکر مسلم لیگ قاف کے دس ووٹ مسترد کرتے ہوئے اعدادوشمار کی بنیاد پر محمد حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے اور یوں حمزہ شہبازدوسری بار وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئے ہیں لیکن دوسری طرف سے راجہ محمد بشارت نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر اعتراض اٹھایا کہ مسلم لیگ قاف کی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ کے فیصلے کے مطابق اُن کے امیدوار چودھری پرویز الٰہی ہیں اور وہ اُن کو ووٹ دے سکتے ہیں لیکن ڈپٹی سپیکر نے اُن کا اعتراض مسترد کرکے 179ووٹ سے میاں حمزہ شہباز کو کامیاب قرار دے دیا۔ مسلم لیگ قاف کے صدر چودھری شجاعت حسین کا خط چوبیس گھنٹے سے زائد دیر ہر پلیٹ فارم پر زیربحث رہا اور بظاہر یہی نظر آرہا تھا کہ اِس خط کی بنیاد پر یہی نتیجہ نکلے گا جو گذشتہ روز برآمد ہوا ہے اور یقیناً اب یہ معاملہ ایک بار پھر عدالت میں جائے گا اور وہاں پارلیمانی لیڈر اور پارٹی صدر کے آئین میں اختیارات وغیرہ زیر بحث آئیں گے اور عدالت آئین و قانون کے مطابق اِن کا جائزہ لے گی لیکن بالآخر سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود ایک بار پھر وزارت اعلیٰ کا معاملہ متنازع بنادیا گیا ہے کیونکہ مسلم لیگ قاف اوراتحادی جماعت تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کااعلان کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی قیادت کو تمام معاملات آئین و قانون کی روشنی میں افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے چاہئیں لیکن بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں کے معاملات بالآخر عدالتوں کو آئین و قانون کی روشنی میں حل کرنا پڑتے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں آئینی بحران سی کیفیت ہے اور گذشتہ کئی روز سے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پرایک بار پھر حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں اختلافات سامنے آنے کے باعث پھروہی جوں کی توں صورتحال نظرآتی ہے جیسی پچھلے دنوں میں نظر آرہی تھی، دونوں جانب سے ایک دوسرے پر اراکین اسمبلی کی خریدوفروخت کے الزامات عائد کئے جارہے تھے، اور اپنے اپنے اراکین اسمبلی کو ہوٹلوں میں پہرے میں ٹھہرایاگیا اور پھر سکیورٹی حصار میں ایوان تک لایاگیا،وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دونوں اطراف سے جس طرح ایک دوسرے پر الزامات عائد کئے گئے اور جو مناظر قوم نے دیکھے ان کو جمہوریت کے لیے نیک شگون قطعی قرار نہیں دیاجاسکتا اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا نقصان صرف اور صرف جمہوریت اور جمہوری عمل کو ہوگا اور عام لوگوں کا ملکی سیاست پر
اعتماد کم ہوگا۔ ملکی آبادی اور الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں نمایاں فرق دیکھاجاسکتا ہے جو زمین و آسمان کے فرق کے برابر ہے اور جو شہری الیکشن کمیشن کےپاس ووٹر کے طور رجسٹرڈ ہیں ان کی بھی قریباً نصف یا اِس سے زائد تعداد انتخابات کے روز اِس سارے عمل سے دور رہتی ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ وہ جمہوری عمل سے لاتعلق رہنا ہی بہتر سمجھتے ہیں اور درحقیقت یہ صورتحال ہماری سیاسی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کہ آبادی کی انتہائی قلیل تعداد انتخابی عمل میں حصہ لیتی اور زیادہ آبادی اِس جمہوری عمل سے بیزاری ظاہر کرتی ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری کے فیصلے کونہ مانتے ہوئے یقیناً ایسی صورتحال دیکھنے کو مل سکتی ہے جس سے نہ صرف سیاسی بے یقینی اور عدم استحکام میں اضافہ ہوگا بلکہ خدانخواستہ عوامی سطح پر انتشار بھی پھیل سکتا ہے جس کا موجودہ حالات میں ملک قطعی متحمل نہیں ہوسکتااس لیے سیاسی قیادت کو عدم برداشت کی روایت ترک کرنی چاہیے اور ایک دوسرے کو اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو بخوشی قبول کرنا چاہیے جب جمہوری فیصلے منتخب ایوان کی بجائے عدالتوں میں ہوں گے تو یقیناً یہ جمہوری طاقتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہوگا، مرکز اور پنجاب میں تبدیلی آنے کے بعد سے ابتک بظاہر کوئی ایک معاملہ ایسا نظر نہیں آیا جو حزب اقتدار اور حزب اختلاف نے افہام و تفہیم کے ساتھ مل بیٹھ کر کیا ہو اس کے برعکس کم و بیش ہرمعاملے پر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کی سے رجوع کیا جارہا ہے، بلاشبہ عدالتیں آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں لیکن ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت صرف نام لینے اور جمہوری کہلوانے کا نام نہیں، بلکہ یہ رویے اور سوچ کا نام ہے۔ اس کی بنیاد دوسروں بلکہ اکثریت کی رائے کے احترام پر ہوتی ہے بدقسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت بھی پسند اور مرضی کی تابع سمجھی جاتی ہے اور ہر فریق سمجھتا ہے کہ جو وہ کررہا ہے صرف وہی جمہوریت ہے ، اس لیے ہماری سیاسی تاریخ اتنی قابل رشک نہیں رہی کہ ہمارے جمہوری رویوں اور جمہوری اقدار کی عالمی سطح پر مثالیں دی جائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت ملک میں سیاسی اور معاشی بحران دونوں عروج پر ہیں اور بظاہر یہ دونوں بحران جلد ختم ہوتے نظر نہیں آرہے لیکن اس ساری سیاسی کشمکش میں ملک و قوم پس رہے ہیں، ڈالر کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے ، کاروباری طبقہ اور عوام پریشان ہیں لیکن حکومتی ٹیم مطمئن ہے کہ جلد معاشی حالات کنٹرول میں آجائیں گے، بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے اس وقت ہماری قیادت کی ساری توجہ معاشی بحران سے باہر نکلنے پر مرکوز ہونی چاہیے لیکن اس وقت سیاسی بحران بھی معاشی بحران کی طرح درد ِ سر بنا ہوا ہے اور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، معاشی بحران ایک طرف خطرات ظاہر کررہا ہے تو دوسری طرف سیاسی بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، قومی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ اس وقت معاشی خطرات سے نمٹنا زیادہ ضروری ہے یا سیاسی محاذ کو گرم رکھنا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button