Editorial

ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی برتری

پنجاب کے بیس حلقوں میں اتوار کے روز ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف نے بیس میں سے پندرہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی ہے۔

مسلم لیگ نون نے چار نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ ایک نشست آزاد امیدوار نے جیتی ہے، تاہم راولپنڈی کے حلقہ پی پی سات میں آج دوبارہ گنتی ہورہی ہے، اگر دوبارہ گنتی میں تحریک انصاف کے امیدوار شبیر اعوان کامیاب قرار پاتے ہیں تو پاکستان تحریک انصاف کی ایک نشست بڑھ کر مجموعی تعداد سولہ ہوجائے گی جبکہ مسلم لیگ نون کی ایک نشست کم ہوکر تین رہ جائیں گی۔ ضمنی انتخابات میں ٹرن اوور 49.69رہا ، مجموعی طور پر پاکستان تحریک انصاف نے 46.08اور مسلم لیگ نون نے 39.05فیصد ووٹ حاصل کیے لیکن خوش آئند امر ہے کہ شاید ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی بار کسی سیاسی جماعت نے انتخابات کے نتائج کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کیا ہے ۔

مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے ضمنی انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ عوامی فیصلے کے سامنے سر جھکانا اور کمزوریوں کی نشاندہی ہونی چاہیے، سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، دل بڑا کرنا چاہیے،مزید محنت کریں گے، اسی طرح سینئر نون لیگی رہنما خواجہ آصف اور ملک احمد خان نے بھی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کو تاریخی فتح ہوئی،عوامی رائے کا احترام کرتے ہیں، ووٹ ہمارے خلاف آیا ، الیکشن کے نتائج بتارہے ہیں کہ ہمارے پاس عددی اکثریت نہیں رہے گی۔وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے بھی کہا کہ غیر جانبدار اور شفاف ضمنی انتخابات کے انعقاد پرتمام متعلقہ اداروں کو مبارکباد دیتا ہوں، پرامن ضمنی انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے تمام متعلقہ اداروں نے دن رات محنت کی۔ووٹرز نے پرامن ماحول میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا،کچھ مقامات پر ناخوشگوار واقعات پیش آئے،جس پر فوری ایکشن لیاگیا۔

مجموعی طورپر امن و امان کی صورتحال اطمینان بخش رہی،پرامن ماحول میں ضمنی الیکشن کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات کئے گئے ۔ امن عامہ کی فضا برقرار رکھنے کے لیے تمام ضروری وسائل بروئے کار لائے گئے۔الیکشن کمیشن کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے باوجود پاکستان تحریک انصاف نے اس بڑی کامیابی کے بعد پنجاب اسمبلی میں سادہ اکثریت 186حاصل کرلی ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ اب پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری ہوگیا ہے اور آنے والے دنوں میں پنجاب سمیت ملک بھر کی سیاست پر متذکرہ ضمنی انتخابات کے نتائج اثر انداز ہوں گے لیکن ایک بار پھر ہم یہی کہیں گے کہ جس طرح مسلم لیگ نون کی قیادت نے انتخابی نتائج کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کیا ہے یہ واقعی قابل تعریف اور تازہ ہوا کا جھونکا ہے، اگر سیاست میں اسی طرز عمل کا مظاہرہ دو دہائی یا اِس سے تھوڑا پہلے کیا جاتا اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کیاجاتا تو بخدا آج ملک و قوم اِن حالات سے دوچار نہ ہوتے جن سے آج دوچار ہیں، آج پاکستان مشکل معاشی حالات کا شکار ہے اور اس معاشی بحران سے باہر نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی، قرض اُتارنے اور نظام مملکت چلانے کے لیے مزید قرضوں کی ضرورت ہے ، یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم قرض ملنے کو خوشخبری قرار دے رہے ہیں مگر کیا کیا جائے کہ ملکی معیشت جس صورتحال سے دوچار ہے اِس میں قرض کے سوا کوئی چارہ نہیں،

ایک خرابی کے پیچھے کئی خرابیاں وجوہات کے طور پر موجود ہیں لیکن سمجھا نہیں جارہا اور قریباً قریباً وہی غلطیاں دھرائی جارہی ہیں جو ماضی میں آنکھ موند لینے کی حکمت عملی کے تحت کی جارہی تھیں، اس وقت مجموعی طور پر ہم معیشت سمیت جن مسائل سے دوچار ہیں ان سے نکلنے کی ماسوائے ایک راہ کے، کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی، سیاسی قیادت ان مسائل پر میثاق کی روایت قائم کرے جیسے میثاق جمہوریت کیاگیا تھا اسی طرح میثاق معیشت اورکئی ایک میثاق حالات و وقت کی فوری ضرورت ہیں۔ ملک کی خراب معاشی صورتحال اور اس کی وجہ سے عوام کے لیے بڑھتی ہوئی مشکلات پر موجودہ اتحادی حکومت جس کی سربراہی پاکستان مسلم لیگ نون کر رہی ہے اور اِس صورتحال میں بھی ایک دوسرے کو ملک کی خراب معاشی صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے،

حالانکہ مختلف شعبوں کے ماہرین ہر قدم پر سیاسی قیادت کو متنبہ کرتے رہے ہیں کہ فلاں فیصلوں کے منفی اور دور رس نتائج برآمد ہوں گے لیکن اس کے باوجود بھی حکومتوں نے ڈنگ ٹپائو پالیسیاں اپناکر بعد میں آنے والوں کے لیے مسائل جمع کر چھوڑے، جو قطعی مناسب روش نہیں۔ موضوع پردوبارہ بات کرتے ہیں، حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آچکے ہیں اوریقیناً حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں طاقت کا توازن تبدیل ہونے سے بہت سی تبدیلیاں متوقع ہیں مگر سب سے زیادہ ضروری ہم یہی سمجھتے ہیں کہ سیاسی قیادت جتنا جلد ممکن ہو سیاسی عدم استحکام کو دور کرنے کے لیے کوششیں کرے کیونکہ جب تک سیاسی بحران ختم نہیں ہوگا معاشی بحران اور دیگر اہم ملکی معاملات توجہ طلب ہی رہیں گے ، اگرچہ پنجاب میں ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف اکثریت میں آچکی ہے اور یقیناً سیاسی گرما گرمی اور جوڑ توڑ جیسے معاملات بھی آنے والے دنوں میں دیکھنے کو ملیں گے لیکن بہت ضروری ہے کہ سیاسی قیادت جلد ازجلد اپنے باہمی معاملات کو نمٹاکر سیاسی بحران ختم کرے تاکہ پھر اُن کی توجہ ملک و قوم کو درپیش مسائل پر مبذول ہوسکے، کہاجاتا ہے کہ لنگڑی لولی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے لیکن جب جمہوریت میں عام آدمی کو ریلیف نہ ملے اور اس کے برعکس اُس کے مسائل اور آزمائشوں میں بتدریج اضافہ کیا جاتا رہے تو یقیناً یہ مناسب نہیں،

پاکستان کے عوام ماضی کے حکمرانوں کی غلطیوں یا اُن کے غلط فیصلوں کی قیمت آج تک ادا کرتے آرہے ہیں اور بلاشبہ حالیہ مہنگائی کی لہر بھی ماضی کی ایسی ہی غلطیوں کا شاخسانہ ہے، لیکن کہیں اور کسی موقعے پر تو عوام کو احساس ہونا چاہیے کہ ہماری سیاسی قیادت کی اصل ترجیح ملک و قوم ہیں، سیاسی جماعتوں کی باہمی لڑائیاں، جوڑ توڑ اور ایسے دوسرے معاملات عوام کو مایوس کرتے ہیں، اِس لیے سیاسی قیادت کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ سیاسی تلخیوں اور رقابتوں کو فراموش کرتے ہوئے اب عوام کی طرف دھیان دیں کیونکہ حالیہ چند مہینوں میں پاکستانی قوم کے رویے میں جو نمایاں فرق محسوس کیاگیا ہے ویسا ماضی میں کبھی نہیں دیکھاگیا،

لوگ سوال بھی کرتے ہیں اور جواب بھی مانگتے ہیں لیکن سیاسی قیادت تمام خرابیوں کا ذمہ دار ماضی کے حکمرانوں کو قراردیتی ہے تو عام پاکستانی کو سمجھنے میں قطعی دیر نہیں لگتی کہ اِن کے پاس ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے، لہٰذا بہت ضروری ہے کہ سیاسی قیادت آپسی لڑائیوں سے تھوڑا وقت نکال کر ملک و قوم کا بھی سوچیں تاکہ ملک و قوم کے مسائل بھی کچھ حل ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button