تازہ ترینخبریںدنیا

‘اختلاف رائے ضروری ہے’، بھارتی صحافی زبیر کی ایک اور مقدمے میں ضمانت

بھارت میں ہندو مذہبی رہنماؤں کی توہیں کے الزام میں گرفتار صحافی محمد زبیر کو عدالت نے ایک اور مقدمے میں ضمانت دے دی۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی اور بھارت میں مسلم اقلیت پر بڑھتے ہوئے مظالم پر ٹوئٹر میں اظہار کرنے والے صحافی محمد زبیر کو نئی دہلی کی ایک عدالت نے 50 ہزار بھارتی روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرلی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ صحافی ضمانت کے باوجود مزید مقدمات کی وجہ سے بدستور عدالتی حراست میں رہیں گے، جہاں ان کے خلاف 6 مقدمات درج ہیں۔۔

عدالت نے گزشتہ روز محفوظ کیاگیا فیصلہ سناتے ہوئے بتایا کہ ‘مضبوط جمہوریت کے لیے اختلاف رائے ضروری ہے’ اور سیاسی جماعتیں تنقید کا سامنا کرتی ہیں۔

انڈین ایکسپریس میں شائع رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایڈیشنل سیشن جج دیویندر کمار جانگلا نے فیصلے میں کہا کہ جمہوریت اس وقت تک نہ تو فروغ پاتی ہے اور نہ ہی مضبوط ہوتی ہے جب تک عوام اپنے خیالات کا برملا اظہار نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہندو مذہب قدیم ترین مذاہب میں سے ایک اور سب سے برداشت کی حامل ہے، ہندو مذہب کے پیروکار بھی تحمل پسند ہوتے ہیں، ہندو مذہب بہت برداشت کی حامل ہے اور اسی طرح اس کے ماننے والے فخر سے اپنے اداروں، تنظیموں اور مراکز کو ادیوتا یا دیوی سے منسوب کرتے ہیں’۔

فیصلہ میں انہوں نے لکھا کہ ‘ہندو بڑی تعداد میں اپنے بچوں کے نام فخریہ انداز میں اپنے دیوتا یا دیوی کے نام سے رکھتے’۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل پراسیکیوٹر اتل شری واستو نے محمد زبیر کی ضمانت کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ انہوں نے 2014 سے پہلے اور اس کے بعد اپنی ٹوئٹس میں ایسے الفاظ لکھے، جن کی ایک سیاسی جماعت نے 2014 میں نشان دہی کی تھی جب نریندر مودی حکومت میں آئے تھے اور یہ دوسری طرف کے لوگوں کو اکسانے اور اشتعال پھیلانے کے لیے کیا گیا تھا۔

عدالت نے اس حوالے سے کہا کہ ‘بھارت کی جمہوریت میں سیاسی جماعتیں تنقید کا سامنا کرتی ہیں’۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ‘سیاسی جماعتیں اپنی پالیسیوں پر عوام کی جانب سے تنقید کے حوالے سے نہیں ڈرتیں، اسی لیے کسی سیاسی جماعت پر تنقید انڈین پینل کوڈ کی سیکشن 153 اے اور 295 اے لاگو نہیں ہوتی’۔

عدالت نے کہا کہ ‘بلاشبہ آزادی اظہار ایک جمہوری معاشرے کی مضبوط بنیاد ہے، خیالات کا آزادانہ تبادلہ، کسی پابندی کے بغیر معلومات کی فراہمی، آگاہی پھیلانے، مختلف خیالات نشر کرنا، کسی کی ذاتی رائے یا مکالمہ اور اس کا اظہار ہی ایک آزاد معاشرے کا بنیادی عنصر ہے’۔

واضح رہے کہ بھارت کی عدالت عظمیٰ نے 8 جولائی کو ایک مقدمے میں مسلمان صحافی محمد زبیر کی ضمانت منظور کرلی تھی۔

بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش کے ضلع سیتا پور میں جون میں درج کی گئی ایک شکایت میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ محمد زبیر نے ہندو مذہبی رہنماؤں کے ایک گروپ کو ’نفرت پھیلانے والے‘ کے طور پر بیان کرکے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

دہلی پولیس نے جون میں محمد زبیر کو ٹوئٹر پر مذہبی عقائد کی توہین کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

یوپی پولیس کی طرف سے درج کی گئی ایف آئی آر بھگوان شرن نامی شہری کی شکایت پر داخل کی گئی ہے جو اپنی شناخت راشٹریہ ہندو شیر سینا کے ضلعی سربراہ کے طور پر کرتے ہیں۔

دی وائر کے مطابق یوپی کی ایک عدالت نے محمد زبیر کو 14 دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجا تھا اور بعد میں صحافی کی ضمانت کی درخواست بھی مسترد کر دی تھی اور انہیں 8 سے 14 جولائی تک پولیس کی تحویل میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔

بعدازاں، محمد زبیر نے 7 جولائی کو یوپی پولیس کے ذریعے درج کی گئی ایف آئی آر منسوخ کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

محمد زبیر نے حال ہی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ترجمان نوپور شرما کی طرف سے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استمعال کرنے کی طرف توجہ مبذول کرانے میں کردار ادا کیا تھا جس کے بعد اسلامی دنیا میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا تھا کہ بھارت محمد زبیر کو غلط معلومات کا مقابلہ کرنے اور اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک روکنے کے لیے اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button