ColumnImtiaz Aasi

رانا ثناء اللہ کا مقدمہ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

ملک میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان اور نوجوان نسل کو منشیات کی لعنت سے نجات دلانے کے لیے جنرل ضیاء الحق نے اینٹی نارکوٹیکس فورس (اے این ایف) قائم کی۔چونکہ منشیات کے سمگلروں کو قانون کے شکنجے میں لانا پولیس کی دسترس سے باہر تھا اورڈرگ مافیا کے ہاتھ اتنے لمبے کوئی انہیں ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں تھا۔یہ اینٹی نارکوٹیکس فور س تھی جس نے ایوب آفریدی جیسے لوگوں پر ہاتھ ڈالا اور اسے عمر قید کی سزا دلوائی۔ اے این ایف کے قیام سے پہلے منشیات کا کاروبار کرنے والوں کی تھانیدار پولیس اسٹیشنوں میں ضمانت لے لیا کرتے تھے جس سے منشیات کا کاروبار کرنے والوں کے حوصلے بہت بلند تھے۔ حالیہ وقتوں میں عالی شان بنگلے اور قیمتی گاڑیاں بہت سے لوگوں کے پاس ہیںجب کہ اس دور میں بڑی بڑی جائیدادیں اور پجارو گاڑیاں صرف منشیات کا کارو بار کرنے والوں کے پاس ہوا کرتی تھیں۔

 

اے این ایف سے پہلے منشیات کا دھندہ کرنے والوں کو سزائوں کاخوف اس لیے نہیں ہوتا تھا پولیس کسی کو چالان کر دے تو زیادہ سے زیادہ ایک سال تک سزا کے بعد ملزمان دو چار ماہ میں رہا ہو جایا کرتے تھے جس کی وجہ قانون امتناع منشیات میں بہت زیادہ سزا کا تصور نہیں تھا اور سزا پانے والوں کو مذہبی تہواروں پرملنے والی صدارتی معافیوں کے ملنے سے ان کی رہائی بہت کم وقت میں ہو جاتی تھی۔ منشیات کے سمگلروں کو سزا دینے کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام کے ساتھ موت اور عمر قید کی سزائوں کا قانون بنانے سے اس وقت ملک کی جیلوں میںمنشیات کے مجروں کی بہت بڑی تعداد سزائے موت اور عمر قید کی سزا بھگت رہی ہے۔ڈرگ مافیا کا نیٹ ورک وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے کہ افغانستان کے علاقے مزار شریف سے منشیات خصوصاً افیون کی بھاری مقدار بلوچستان کے راستے ایران سمگل ہوتی ہے۔اے این ایف کے اہل کار افغانستان سے آنے والی منشیات کے سمگلروں کی گاڑیوں کی رات کی تاریکی میں ریکی کرکے انہیں پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

ڈرگ مافیا کا طریقہ کار کچھ اس طرح کا ہوتا ہے جن گاڑیوں میں منشیات بھری ہوتی ہیں وہ تو میلوں دور ہوتی ہیں اس سے پہلے بہت سی گاڑیاں راستے کو کلیر کرنے کے لیے پائلٹ کے طور پر بھیجی جاتی ہیں جب تک انہیں کلیرنس نہیں ملتی منشیات سے بھری گاڑیاں روڈ پر دکھائی نہیں دیتی۔اب ہم آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف جس میں رانا ثناء اللہ کے خلاف منشیات کا مقدمہ بنایا گیا۔رانا ثناء اللہ تو اپنے خلاف مقدمہ کا واویلا شروع دن سے کر رہے تھے کہ سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواہد چودھری کے اس بیان نے معاملہ مشکوک بنادیا ہے کہ رانا ثناء اللہ کے خلاف مقدمہ نہیں بنانا چاہیے تھا۔دراصل سیاست دانوں کے خلاف جھوٹے مقدمات کی ابتدا تو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوگئی تھی جب انہوں نے چودھری ظہور الٰہی کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ بنایا ۔پھر یہی نہیں ظہور الٰہی کو پنجاب سے بلوچستان کی مچھ جیل منتقل کیا گیا۔جب بھٹو نے اس وقت کے گورنر بلوچستان نواب اکبر خان بگٹی کو ظہور الٰہی کو ٹھکانے لگانے کی خواہش ظاہر کی تو نواب صاحب نے صاف انکار کرتے ہوئے جواب دیا وہ ہمارے مہمان ہیں۔

 

منشیات کے حالیہ قوانین میں چند کلو گرام منشیات میں کسی کو موت کی سزا کے علاوہ عمر قید ہو سکتی ہے جو کوئی معمولی بات نہیں۔ 1984 جنرل ضیاء الحق نے قانون شہادت میں ترمیم کی تو پبلک کی گواہی کے علاوہ مقتول کے گھر کے افراد کی گواہی کو قابل قبول قرار دیا گیا جس کا مقصد قتل کے ملزمان کو سزائیں دلوانا تھا۔قانون شہادت میں ترمیم سے پہلے قتل کے مقدمات میں عام شہری وقوعہ دیکھنے کے باوجود ملزمان کے خلاف گواہی دینے کو تیار نہیں ہوتے تھے جس سے قتل کے ملزمان بری ہو جاتے تھے۔چنانچہ اسی طرح منشیات کے مقدمات میں سمگلروں کے خلاف عام شہری شہادت دینے سے گریزاں تھے جس کے بعد منشیات کے مقدمات میں سرکاری ملازمین یعنی پولیس اور اے این ایف کے ملازمین کی گواہی کو قابل قبول قرار دیا گیا جس سے منشیات کے ملزمان کو موت اور عمر قید کی سزا ہو جاتی ہے۔اگرچہ اس وقت منشیات کے کسی مجرم کو پھانسی تو نہیں دی گئی ۔موت اور عمر قید کے سزا پانے والوں کو کم از کم بیس برس تک جیلوں میں رہنا پڑتا ہے۔منشیات کی خصوصی عدالتوں سے سزائے موت پانے والوں کو کئی سال تک موت کی کوٹھریوں میں صرف رہنا نہیں پڑتا بلکہ انہیں ہرروز اپنے سیل کو بدلنا پڑتا ہے جسے جیل کی زبان میں اڑدی کہا جاتا ہے۔کئی سال تک سزائے موت کی کوٹھری میں رہنے کے بعد کوئی ضروری نہیں ان کی سزا کو عمر قید میں بدل دیا جائے بہت سے کیسوں منشیات کے مقدمات میں سزائے موت پانے والوں کی ہائی کورٹس سے موت کی سزا بحال رکھی جاتی ہے جس کے بعد وہ اپنی سزاوں کے خلاف سپریم کورٹ میںاپیل کرتے ہیں۔

 

ملک کی جیلوں اور خصوصاً پنجاب کی جیلوں میں منشیات میں سزائے موت پانے والوں کی اچھی خاصی تعداد ایسے قیدیوں کی ہے جن کی اپیلیں سپریم کورٹ میں ہیں۔سپریم کورٹ سے اپیل خارج ہونے کی صورت میں انہیںپھانسی دی جا سکتی ہے۔جہاں تک وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے خلاف منشیات کے مقدمہ کا تعلق ہے ان کے لیے مقدمہ سے جان بخشی کے لیے دو راستے ہیں ایک اگر اے این ایف ان کے خلاف مقدمہ واپس لے لے جس کا بہت کم امکان ہے۔ایک دوسرا راستہ وہ یہ ہے ان کے خلاف اے این ایف کے گواہان منحرف ہو جائیں یا پھر اپنی گواہی میں کچھ تضاد کر دیں تو ان کی بریت ہو سکتی ہے۔کوئی سیاست دان ہو یا عام شہری کسی کے خلاف منشیات کا جھوٹامقدمہ بنانا کسی کے خلاف آخری حد ہے۔ سیاست دانوں کو ایک دوسرے کے خلاف اخلاقیات کی حدوں پر عبور نہیں کرنا چاہیے بلکہ اخلاقیات کے دائر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف تنقید کرنی چاہیے۔ ہمیں نہیں معلوم رانا ثناء اللہ کے خلاف مقدمہ حقائق پر مبنی یا جھوٹا بنایا گیا ہے اس کا فیصلہ تو معزز عدالت نے کرنا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button