ColumnNasir Naqvi

ہنگامہ کیوں ہے برپا؟ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

افواہیں کئی روز سے سننے کو مل رہی تھیں کہ تحریک انصاف اور عمران خان کے کھلاڑی صحافی عمران ریاض خان گرفتار کر لیے گئے لیکن جب بھی کنفرم کرنے کی کوشش کی تو یہی پتہ چلا کہ یہ خبر نہیں افواہ ہے لیکن اب افواہ خبر بن چکی ہے تادم تحریر وہ پولیس کی تحویل میں ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں ان کے آزاد صحافتی مشن سے روکنے کے لیے ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ ان کی گرفتاری پر جاری ویڈیو پروگرام میں عمران ریاض خان یہ کہتے ہوئے پُرعزم دکھائی دے رہے ہیں کہ انہیں ضمانت کے باوجود غیر قانونی گرفتار کیا گیا۔ ان پر ایک درجن سے زائد مقدمات بنائے جا چکے ہیں اور ابھی مزید بھی بنیں گے لیکن وہ نہ مشن چھوڑیں گے اور نہ انداز بدلیں گے۔ میری گرفتاری مقصد تھا، لہٰذا گرفتار ہو گیا۔اس  سے زیادہ یہ کیا کر سکتے ہیں مجھے اگر مار بھی دیں تب بھی میرا مشن کسی نہ کسی طرح جاری رہے گا کیونکہ حق سچ کو کبھی دبایا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے صحافیوں کو اپنا کام جاری رکھنے کا مشورہ بھی دیااس لیے کہ کام رکنا نہیں چاہیے۔ کھلاڑی صحافی کی گرفتاری پر ان کا گلہ تھا کہ میرا اسلحہ اور گاڑی بھی چھینی جا چکی ہے۔

میں اپنے دفاع کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت کرانے جا رہا تھا لیکن مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ اس ویڈیو بیان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پورے ملک میں صرف وہی انقلابی صحافی ہیں جن کے پاس اسلحہ اور بلٹ پروف گاڑی اس لیے تھی کہ اب صحافی محاذ پر صرف قلم سے گزارا نہیں ہو سکتا حالانکہ ان کے پاس سوشل میڈیا کی توپ اور وی لاگ جیسے سپر میزائل بھی موجود ہیں۔ تحریک انصاف کی آنٹیوں کو اس گرفتاری پر بے حد غصہ ہے۔ اس لیے وہ لبرٹی چوک لاہور میں نہ صرف جمع ہو گئیں بلکہ خاصا ’’سیاپا‘‘ بھی کیا کہ امپورٹڈ حکومت نے ایک آزاد منش صحافی کو پابند سلاسل کیوں کیا؟ اسے فوری رہا کیا جائے ورنہ پورے ملک میں احتجاج کیا جائے گا۔ ہم ایسی دھمکی دینے کی پوزیشن میں نہیں،کبھی یہ کام کرتے تھے لیکن اب تو معاملات اور پسند نہ پسند کی چکی نے ہمیں پیس کر کہیں کا نہ چھوڑا۔

یہ بھی پڑھیے

 

صحافتی تنظیمیں بھی قدم قدم پر مختلف ہیں بلکہ کوئی کسی سے اتفاق اس لیے کرنے کو تیار نہیں کہ سب کے سب مختلف نظریہ ضرورت کی پیداوار ہیں۔ جب متحد تھے تو کسی کی جرأت نہیں تھی کہ وہ ایسی حرکت کرتا، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی جدوجہد اور تاریخ کسی سے پوشیدہ نہیں پھر بھی حالات اور مفادات کی بھینٹ چڑھنے کے بعد قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ ہم آئین پاکستان کے تحت تحریر و تقریر کی آزادی پر ایمان رکھتے ہیں۔ لہٰذا صحافتی سرگرمی پر ’’عظیم صحافی عمران ریاض خان ‘‘ کی گرفتاری پر شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے اس کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں اگر اس پر الزامات سیاسی اور کسی کی حمایت کے ہیں تو حکومتی ردعمل بھی سیاسی ہی ہونا چاہیے۔

 

میں سمجھتا ہوں کہ سابقہ حکومت کی ناجائز پذیرائی اور موجودہ حکومت کی غلط حکمت عملی نے ہی ایک صحافی کو سینئر اور ایک خاص شخصیت کی آنکھوں کا تارا بنایا ہے۔ ورنہ جن مشاغل میں وہ مبتلا تھے ان میں تو اور بھی پیارے موجود ہیں۔ عمران ریاض خان نے ایک رپورٹر کی حیثیت سے صحافت کا آغاز کیا اور اپنی معرکہ آرائی سے لڑتا جھگڑتا اس مقام تک پہنچا ہے۔ اب اگر اس کی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو ہنگامہ ہی نہیں برپا ہو گا بلکہ فساد بھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گرفتاری کے وقت عمران ریاض خان مایوس نہیں، پُرعزم تھا پھر بھی ’’ہنگامہ ہے کیوں برپا؟‘‘ لوگ اسے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

میری حکومت وقت سے درخواست ہے کہ ایسے معاملات میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو خصوصی ہدایات دی جائیں کہ اگر کارروائیاں شواہد کے ساتھ کرنی ہیں تو چور، ڈکیت اور قومی خزانے کے لٹیرے پکڑیں، انہیں کیفر کردار تک پہنچاکر کامیابی کے تمغے اپنے سینے پر سجائیں جو سیاسی مستقبل میں کام بھی آئیں گے۔ صحافی جونیئر ہو کہ سینئر ، اصلی ہو کہ نقلی اس کی گرفتاری سے بدنامی تو مل سکتی ہے نیک نامی ہرگز نہیں، انہیں سوچنا ہو گا کہ مسلم لیگ نون کے پیرومرشد حضرت محمد ضیاء الحق اپنے مارشل لائی دور میں صحافیوں کو قید و بند میں ڈالنے کے علاوہ دنیا کی تاریخ میں قلم کے مزدوروں کو کوڑے مار کر بھی نہ تحریر و تقریر کو روک سکے اور نہ ہی اپنے اہداف حاصل کر سکے، یہی نہیں ایک بات اور یاد رکھیں کہ پنجابی کا محاورہ ہے ’’جیدے گھر دانے اوہدے کملے وی سیانے‘‘عمران ریاض خان اب قلم کا مزدور نہیں، اس کی زبان و کلام بھی مقام رکھتی ہے اور اس کے گھر اتنے ’’دانے‘‘ ہیں کہ وہ دوسروں کو بھی کھلا سکتا ہے۔ آپ کا اقتدار اور وزارت ریت کی دیوار ہے کسی وقت بھی گر سکتی ہے لیکن جس ریاست میں وہ صحافت کا وزیر ہے اسے مارے بھی مارا نہیں جا سکتا، ابھی وقت ہے۔ سوچیں کہ ’’ہنگامہ ہے کیوں برپا؟‘‘۔

دراصل ’’ہم اور آپ‘‘ ہی نہیں سب حالات و واقعات کے بہائو میں بہہ جاتے ہیں۔ کچھ مفادات کی فکر میں ایسا کرتے ہیں اور کچھ اپنی شخصیت کو پوشیدہ رکھنے کے لیے مصلحت پسندی کا شکار ہوتے ہیں حالانکہ مقاصد دونوں کے یکساں ہی ہوتے ہیں۔ صاحب اقتدار اپنے اختیارات اور حکومتی طاقت کے نشے میں ایسا کچھ کر جاتے ہیں کہ وقت انہیں چاہے بھی تو معاف نہیں کر پاتا، جبکہ حکومت سے نکالے جانے والے ہر قسم کا بیانیہ اس لیے اختیار کرتے ہیںکہ اب وہ آزاد ہیں ویسے بھی انہیں اپنی غلطیوں کی وکالت کے لیے جارحانہ کھیلنا پڑتا ہے جیسا کہ عمران خان اور اقتدار سے فارغ ہونے پر نواز شریف نے کیا، یہ الگ بات
ہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ اتنی مرتبہ کہا گیا کہ مذاق بن گیا۔ عمران تبدیلی سرکار تھے اس لیے انہوں نے فرمایا ’’مجھے کیوں نہیں بچایا گیا‘‘۔ بات یہ بھی کوئی قابل فخر نہیں تھی۔

بہرحال اقتدار کے دور میں دونوں نے کسی ادارے کو معاف نہیں کیا بلکہ قومی اداروں کے خلاف ایک منظم مہم جوئی شروع کی۔ نواز شریف کو بات سمجھ آئی کہ صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں، لیکن عمران خان کے زخم ابھی تازے ہیں، بھرتے بھرتے بھریں گے اس لیے ذمہ داروں کو یہ سوال ہرگز نہیں کرنا چاہیے کہ ’’ہنگامہ ہے کیوں برپا؟‘‘ بلکہ حکمرانوں کو ایسی منصوبہ بندی کرنی ہو گی کہ ان کا محدود وقت آرام سے گزر جائے۔ یقیناً انہیں تھوڑے وقت میں زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا پڑے گا اگر ایسا نہیں کریں گے تو پھر ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر آپ عوام کو مہنگائی سے نجات نہیں دلا سکتے تھے تو ہنگامہ کیوں برپا کر رکھا تھا؟ وعدہ کیا ہے تو نبھانا بھی پڑے گا ورنہ2023ء زیادہ دور نہیں، جنرل الیکشن میں ناکامی کے بعد تو جایا نہیں جا سکے گا؟ ان تمام باتوں کا حل صرف ایک ہی ہے کہ ’’وقت کم، مقابلہ سخت‘‘ کا اصول اپناتے ہوئے ہر شعبے کے مطابق ماہرین کے ’’تھنک ٹینک‘‘ کا رواج ڈالا جائے، اراکین ایسے ہوں جنہوں نے اپنے اپنے متعلقہ شعبہ جات میں اہم قومی خدمات انجام دی ہوں، یعنی ترقی اور خوشحالی کی خواہش پر ماضی سے مختلف لوگوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے اگر حکومتی منصوبہ بندی میں نئی راہیں نکلیں گی تو خود بخود ہنگامہ آرائی اور سازشوں کے دروازے بند ہو جائیں گے یہ صرف اسی صورت ہو گا جب وطن عزیز میں کوئی ایسی گرفتاری نہیں ہو گی کہ اسے انتقامی کارروائی کہا جاسکے۔ میری ’’جمع تفریق‘‘ کے مطابق نہ صرف عمران ریاض خان کو رہا کر کے مقدمات کا سامنا کرنے کی اجازت دی جائے بلکہ ان سمیت دوسروں کی گرفتاری کا ارادہ بھی ترک کر دیا جائے۔

حکومت کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے کہ ایئر مارشل اصغر خان نے حکومت وقت کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا تھا بلکہ پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر ذاتی حملے بھی کئے تھے ان کے نادان دوستوں نے ایئر مارشل کی گرفتاری کا مشورہ بھی دیا تھا لیکن صاحب بصیرت بھٹو صاحب کا کہنا تھا ’’چھوڑو۔جو کہتا ہے کہنے دو،میں اسے گرفتار کر کے بڑا لیڈر بنا کر مدمقابل نہیں کھڑا کر سکتا‘‘۔ یقین جانیے گرفتاریوں او ر پابندیوں کا سلسلہ زمانہ آمریت میں بھلا لگتا ہے جمہوریت میں نہیں۔ آج کے دور میں’’جمہوریت اور صحافت‘‘ دونوں کنٹرول ہیں اس لیے طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں، کالے چشمے والے ہی ہیں۔ جمہوریت من مرضی سے چل رہی ہے صحافت کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے لہٰذا ہنگامہ برپا کرنے سے بہتر ہے ایسا فارمولا اپنایا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی پھر کسی اور کے کام بھی آئے۔ اب کوئی چیز بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ’’ویسٹ مینجمنٹ‘‘ کے تجربے سے سب کچھ ’’مینج‘‘ ہو سکتا ہے ’’ویسٹ‘‘ اور لاحاصل سے جان چھڑا کر ’’حاضر سروس‘‘ سے مثبت نتائج برآمد کئے جائیں، کل کس نے دیکھی ،

حکومت ہو کہ اپوزیشن، لمحہ موجود کی قدر کی جائے۔ ایسے فیصلے اور منصوبہ بندی اجتماعی مفاد کو مدنظر رکھ کر کریں کہ انہیں مستقبل کے حکمران بھی بدل نہ سکیں۔ یہی عوامی اور قومی خدمت ہو گی۔ ورنہ بات بات پر ہنگامہ آرائی ہی ہمارا مقدر رہے گی۔ ہماری جنریشن تو بھگت چکی، بوریا بستر گول کر کے اگلی دنیا کی ٹکٹ کنفرم ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔ متضادد عوئوں اور تضاد بیانی سے ہمیں ایمانداری اور نیک نیتی سے کچھ نہیں مل سکا ،پھر بھی مالک زمین و آسماں کے شکر گزار ہیں کہ جیسی گزری اچھی گزرگئی، لیکن اب زمانہ بدلا تو حالات بھی بدل چکے ہیں۔ نئی نسل کو تضادات کے ایسے بھنور میںپھنسا دیا ہے کہ وہ ہر بات پر پوچھتے ہیں ’’ہنگامہ ہے کیوں برپا؟ ‘‘ اور جواب کسی کے پاس اس لیے نہیں کہ ہر حکومت نان ایشو کو ایشو بنا کر وقت گزارتی ہے، جیسے عمران ریاض خان کی گرفتاری کے مقابلے میں اور بہت سے کام زیادہ ضروری تھے لیکن ایک گرفتاری سے ’’نان ایشو کو ایشو‘‘ بنا کر ہلچل پیدا کر دی گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button