Editorial

کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات

قومی سلامتی کمیٹی کے اِن کیمرا اجلاس میں کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کے معاملے پر اسٹیئرنگ کمیٹی بنانے پر اتفاق کیاگیا ہے۔ پارلیمانی فورم نے مذاکراتی کمیٹی کوٹی ٹی پی سے بات چیت جاری رکھنے کا مینڈیٹ بھی دے دیاہے۔ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کی زیر صدارت اجلاس میں عسکری قیادت نے بریفنگ میں اب تک بات چیت کے ہونے والے ادوار سے متعلق بتایا کہ افغانستان کی حکومت کی سہولت کاری کے ساتھ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری ہے۔
مذاکراتی کمیٹی حکومتی قیادت میں سول اور فوجی نمائندوں پر مشتمل ہے، کمیٹی آئین پاکستان کے دائرے میں رہ کر مذاکرات کر رہی ہے، حتمی فیصلہ آئین پاکستان کی روشنی میں پارلیمنٹ کی منظوری، مستقبل کے لیے فراہم کردہ راہنمائی اور اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔ پارلیمانی فورم نے مذاکراتی کمیٹی کو کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات جاری رکھنے کا مینڈیٹ دیااور طے کیا گیا کہ ایک پارلیمانی اوورسائٹ کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس میں صرف پارلیمانی ممبران شامل ہوں گے اورمذاکراتی عمل کی نگرانی کریں گے۔
عسکری قیادت نے ملک کو داخلی و خارجہ سطح پر لاحق خطرات بالخصوص پاک افغان سرحد پر انتظامی امور کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان، افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے اپنا تعمیری کردار جاری رکھے گا۔ اجلاس میں امید ظاہر کی گئی کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ پچھلی حکومت میں بھی مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے لیکن مثبت نتیجہ و اعلان قوم کے سامنے نہ آسکا تاہم موجودہ حکومت اور اِس کی تشکیل دی گئی ٹیم کی کاوشوں سے لگتا ہے کہ قوم کو خوشخبری ملے گی اور مذاکرات کامیاب ہوں گے، ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق ٹی ٹی پی اور مذاکراتی کمیٹی کے مابین نوے فیصد سے زیادہ معاملات طے پاچکے ہیں اور باقی معاملات پر مذاکرات کا عمل جاری ہے اور مذاکراتی کمیٹی نے بھی محسوس کیا ہے کہ ٹی ٹی پی والے بھی نہ صرف امن چاہتے ہیں بلکہ وہ باعزت واپسی بھی چاہتے ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مطالبات میں ماضی میں اپنے گرفتار رہنماؤں کی رہائی، قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی، آئین پاکستان پر اعتراضات اور فاٹا انضمام کا خاتمہ قابل ذکر شرائط ہیں اور اُن کا زیادہ فوکس مستقبل میں ان کی تنظیمی سرگرمیوں کی آزادی، نظام انصاف اور جرگوں کی آزادی پر تھااسی لیے وہ فاٹا انضمام اور آئین پاکستان کے بعض حصوںپر اعتراض کررہے تھے لیکن مذاکراتی کمیٹی نے اُنہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ اب اس عمل کو قبائلی عوام سمیت سیاسی پارٹیاں بھی نہیں مانیں گی اسی لیے تحریک طالبان پاکستان فاٹا کے انضمام کا فیصلہ واپس لینے کے علاوہ چند دیگر مطالبات سے قریباً قریباً دستبردار ہو چکی ہے،
جہاں تک فاٹا کے انضمام کا معاملہ ہے تو پاک فوج کے آپریشن کے دوران جب ٹی ٹی پی نے پاکستان چھوڑا اِس وقت قبائلی علاقوں میں ایف سی آر قانون نافذ تھا اور آئین پاکستان کے آرٹیکل247کے مطابق ایف سی آر کی رو سے فاٹا اور شمالی علاقہ جات پر کسی بھی صوبائی حکومت، وفاقی حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کا کوئی بھی دائرہ اختیار متعین نہیںتھا اور یہ علاقہ جات براہ راست صدارتی احکامات کے پابند ہوتے تھے ۔سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اس قانون کو ختم کرنے کا اعلان تو کیا مگر عملدرآمد میں بہت دیر کر دی چونکہ ایف سی آر کے تحت وفاقی یا صوبائی حکومت یہاں مداخلت نہیں کرسکتی تھی اور نہ ہی یہاں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت تھی اس لیے یہ علاقے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رہے اورمقامی لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہوتا گیا،
فاٹا کے عوام کی سوچ یہی رہی کہ اس سیاسی عمل نے ان کو اور ان کی کئی نسلوں کو محکوم رکھا اور اسی احساس محرومی کے نتیجے میں وہ اپنا حق لینے کے لیے بندوق اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں، تاہم ایف سی آرکے خاتمے کے بعد سیاسی حکومتوں نے ترقی اور وسائل کا رخ ان قبائلی علاقوں کی جانب موڑا اور بلاشبہ ان کے شانہ بشانہ پاک فوج نے ان علاقوں کی کایہ پلٹنے میں ایسا کردار ادا کیا جو واقعی لائق تحسین ہے، پاک فوج نے نہ صرف بدامنی کے دوران یہاں ترقیاتی کام کروائے بلکہ صحت و تعلیم کی سہولتوں کو بھی عام کیا اور مقامی لوگوں کے احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے ہر وہ ممکن کوشش کی جو ممکن تھی، پاک فوج نے ایسی ہی خدمات بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں بھی انجام دیں اور اُن علاقوں میں ترقی اورخوشحالی کے لیے اپنا کردار اپنے وسائل کے ساتھ ادا کیا وہاں بھی تعلیمی ادارے کھولے اور صحت کی مثالی سہولیات کے مراکز قائم کیے بلکہ انہیں ہر لحاظ سے ترقی یافتہ علاقے بنانے کے لیے اپنے وسائل استعمال کیے مگر قبائلی علاقے ہوں یا بلوچستان کے شورش زدہ علاقے جہاں بھی امن اور خوشحالی کے دشمنوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی یا اِس ارض کے لیے دشمنوں کے آلہ کار بنے، پاک فوج اور سکیورٹی اداروں نے اِنہیں نشان عبرت بنایا اور یہ اب بھی عمل جاری ہے،
اول تو قبائلی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلے ہی ایسے اقدامات کیے جانے چاہئیں تھے جیسے سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور حکومت میں بطور وزیراعظم کیے، یوں ان پسماندہ علاقوں کے عوام بھی خود کو ملک کا حصہ سمجھتے اور ملک دشمن طاقتیں ان کی محرومیوں کا فائدہ اٹھاکر انہیں ریاست کے خلاف کھڑا نہ کرتی، قبائلی علاقوں کے عمائدین کو اِن بنیادی مسائل کے حل کے لیے پارلیمان اور سیاسی قوتوں سے رجوع کرنا چاہیے تھا اور صورتحال اِس نہج تک آنے ہی نہیں دینی چاہیے تھی کہ لوگ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتے، یوں اگر سیاسی قیادت نے ایف سی آر ختم کرنے میں تاخیر کا مظاہرہ کیا تو عمائدین اور ایف سی آر کے مطابق متعین انتظامی مشینری کو ایسے معاملات کی جانب ریاست کی توجہ مبذول کرانی چاہیے تھی جن پر فوری فیصلے کی ضرورت تھی، مگر نتیجے میں ٹی ٹی پی نے جو قدم اٹھایا وہ کسی بھی ریاست کے لیے قابل قبول نہیں تھا ملک بھر میں جو مسلح کارروائیاں کرکے بے گناہ پاکستانیوںکو موت کے گھاٹ اُتارا گیا اور بے گناہوں کے لاشے چوک و چوراہوں پر بے گوروکفن دکھائے گئے،
اگرچہ پاک فوج اور قومی سلامتی کے اداروں نے صورتحال اور اس کے پس پردہ ملک دشمن عناصر کے تمام تر عزائم خاک میں ملائے اور اسی ہزار شہدا کی قربانیوں سے دشمن کو شکست فاش دیکر پوری دنیا پر عیاں کردیا کہ پاک فوج اِس ارض پاک کے چپہ چپہ کی حفاظت کرنے کی بخوبی اہلیت رکھتی ہے خواہ اس کا سامنا کسی بھی بڑی طاقت سے کیوں نہ ہو۔ ایک خوش آئندہ امر یہ بھی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت جو ہمیشہ عسکری گروہوں سے مذاکرات کے خلاف رہی ہے، وہ بھی اِس عمل میں شریک ہے تاکہ تحریک طالبان پاکستان اپنی عسکری کارروائیوں کو ترک کرکے قومی دھارے میں شامل ہوسکیں اور آئین پاکستان کے تابع رہ کر پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ سیاسی و عسکری قیادت جس طرح ملک و قوم کے بہترین مفاد میں اِس مقصد کے لیے کوشاں ہے ہم پرُ امید ہیں کہ یہ کوششیں کامیاب ہوں گی اور وطن عزیز دشمنوں کی سازشوں سے پاک ہوکر امن کا گہوارہ بنا رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button