CM RizwanColumn

صحافت اس قدر پُر خطر کیوں؟ .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

پاکستان سمیت دنیا بھر میں صحافت ایک پرخطر شعبہ بنا ہوا ہے۔ اس میں کام کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں تنخواہ کم، ڈیوٹی چوبیس گھنٹے اور جان ہر وقت ہتھیلی پر ہوتی ہے۔ ایک صحافی ناصرف فیلڈ میں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی دھمکیوں کا سامنا کرتا ہے اور ہراسانی کا بھی شکار ہوتا ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ان کو مارپیٹ کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کو قتل تک کردیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ملک بھر کے تمام صوبوں میں حالات بہت خراب ہیں۔ اس کے ساتھ دارالحکومت اسلام آباد میں بھی صحافیوں پرتشدد کے واقعات مسلسل دیکھنے کو ملتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ایک وقت تھا جب ملک بھر میں صرف اخبارات اور پی ٹی وی ہوتا تھا۔ اس کے بعد الیکٹرانک میڈیا میں نئے نئے چیینلز آئے تو صحافت کی ہیئت ہی بدل گئی۔ صحافیوں کا قلم مزید وسعت اختیار کر گیا اور پھر سوشل میڈیا آنے سے ان کے پاس بولنے لکھنے کے مواقع مزید بڑھ گئے۔

یہ بھی پڑھیے

 

جو بات صحافی اپنے ادارے کے پلیٹ فارم سے لکھ یا بول نہیں پاتے وہ سوشل میڈیا پر بول دیتے ہیں اور لکھ دیتے ہیں۔ وہ اکثر بلاگ اور وی لاگ کرکے اپنی تحقیق کے مطابق حقائق عوام کے سامنے لاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فیس بک اور ٹویٹر کا بھی استعمال ہوتا ہے۔ خبروں کی نشر و اشاعت کے لئے سماجی رابطے کی دیگر ویب سائٹس کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ ان سہولتوں کے سبب صحافت اب لا محدود ہوگئی ہے کیونکہ آزاد ڈیجیٹل میڈیا پر کسی روایتی یا منظور شدہ نشریاتی ادارے کی ادارتی پالیسی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ لیکن سوشل میڈیا جرنلزم اپنا ایک مضبوط اور واضح وجود رکھتی ہے اور اس وجود کو بڑی بے باکی اور مادر پدر آزادی کے ساتھ منوا رہی ہے۔ اس سے بھی ایسے مسائل جنم لے رہے ہیں جن کو فوری طور پر ختم کرنے کی راہ نظر نہیں آرہی۔ نتیجتاً حکومتیں اور خفیہ طاقتیں طاقت کے استعمال کا طریقہ آزما رہی ہیں۔ میڈیا کے منظور شدہ اداروں میں تو قواعد و ضوابط موجود ہیں اور وہ ان پر عمل بھی کر رہے ہیں مگر آزاد سوشل میڈیا اس پابندی سے بھی بے نیاز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی قریب میں میڈیا پر سنسرشپ زیادہ بڑھ گئی ہے اور صحافیوں پر حملوں میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

 

اب تک پاکستان میں متعدد صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے جن میں دو خواتین صحافی بھی شامل ہیں۔ کسی صحافی کو گولی مار دی گئی تو کسی کو اغوا کرکے قتل کیا گیا تو کوئی خود کش حملے میں چل بسا۔ سلیم شہزاد، مشتاق خند، ثاقب خان، عبد الحق بلوچ، رزاق گل،حاجی زئی، ملک ممتاز، محمود آفریدی، مرزا اقبال، سیف الرحمان، اسلم درانی، ایوب خٹک،عمران شیخ، مکرم خان، عارف خان، مصری خان، ولی خان بابر، عزیز میمن، موسیٰ خیل، چشتی مجاہد، ہدایت اللہ خان، عامر نواب، راجہ اسد حمید، فضل وہاب، صلاح الدین، غلام رسول، عبدالرزاق، محمد ابراہیم، ساجد تنولی، شاہد سومرو، لالہ حمید بلوچ۔ یہ تمام صحافی خارزار صحافت میں
سچ کہنے یا لکھنے کی پاداش میں شہید ہوئے۔ خواتین صحافیوں عروج اقبال اور شاہنہ شاہین دونوں کو ان کے شوہروں نے قتل کیا۔ اسی طرح ناظم جوکھیو کا کیس سب کے سامنے ہے قاتل کو پروٹوکول بھی ملا رہا اور ناظم کی بیوہ نے سب قاتلوں کو مبینہ طور پر دباؤ میں معاف بھی کردیا۔ بلوچستان جیسے قبائلی علاقے بھی صحافیوں کے لئے ہمیشہ مشکل ثابت ہوئے ہیں۔ جبکہ سندھ میں حالیہ سالوں میں تین صحافی قتل ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ صحافیوں پر جتنے حملے اور تشدد کے واقعات حالیہ سالوں میں اسلام آباد میں ہوئے ان کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ صحافیوں پر گولیاں چلائی گئیں۔ ان کو مارا پیٹا گیا۔ ہراساں کیا گیا۔ کتنے صحافیوں کی نوکریاں ختم ہوگئیں، ان پر غیر اعلانیہ پابندی لگ گئیں۔ اب یہ صورتحال یہ ہے کہ صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر مہمات چلا دی جاتی ہیں۔ جن میں خواتین صحافیوں کی کردار کشی سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ یہاں تک کہ سرعام سوشل میڈیا پر خواتین صحافیوں اور اینکرز کو ریپ اور تیزاب گردی تک کی دھمکیاں دے دی جاتی ہیں۔خواتین صحافیوں کی تصاویر فوٹوشاپ کی جاتی ہیں اور ان کے فون نمبرز اور گھر کے ایڈریس تک سوشل میڈیا پر پھیلا دیئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب صحافت کرنا، صحافی ہونا اور فیلڈ میں کام کرنا مشکل سے مشکل ترین ہوتا جارہا ہے اور خبر کی نشر و اشاعت میں اکثر خود صحافی خبر بن جاتے۔

 

اس ضمن میں ایک تازہ خبر یہ ہے کہ گزشتہ روز سینئر صحافی ایاز امیر کو 6 نامعلوم افراد نے اس
وقت تشدد کا نشانہ بنایا جب وہ معمول کے مطابق نجی ٹی وی میں پروگرام کرکے نکلے ہی تھے کہ لاہور کی معروف شاہراہ ایبٹ روڈ پر پی ٹی وی کے دفاتر کے قریب سڑک پر پی ان نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی کو گھیر لیا۔ انہوں نے پہلے گاڑی روکی اور ڈرائیور سمیت ایاز امیر کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ ملزمان جاتے ہوئے ان کا موبائل اور پرس بھی چھین کر لے گئے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے نوٹس لیتے ہوئے رپورٹس طلب کرلی ہیں۔ اس پر سابق وزیراعظم عمران خان نے ٹویٹر پر لکھا کہ میں سینئر صحافی ایاز امیر پر ہونے والے تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ ملک میں صحافیوں، مخالف سیاستدانوں، شہریوں کے خلاف تشدد اور جعلی ایف آئی آر کیساتھ بدترین قسم کی فسطائیت نظر آ رہی ہے۔ جب ریاست تمام اخلاقی اختیار کھو دیتی ہے تو وہ تشدد کا سہارا لیتی ہے۔

 

غالباً اسی شب سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے گارڈ کا ایک معروف اور حق گو صحافی پر تشدد کرنے کا واقعہ بھی سامنے آیا۔ ہوا یوں کہ راولپنڈی کی ایک مویشی منڈی میں قاسم سوری کی گاڑی پورے پروٹوکول کے ساتھ رواں دواں تھی کہ مذکورہ صحافی شہزاد حسین بٹ کی گاڑی جو کہ ان کے پیچھے آرہی تھی کے ڈرائیور نے ہارن بجا دیا جس پر قاسم سوری کے گارڈ نے سخت رویے کا اظہار کیا جس پر نجی ٹی وی چینل کے رپورٹر شہزاد حسین بٹ نے سوال کر دیا کہ ہارن بجانا یا اوور ٹیک کرنے کوشش کرنا کون سا جرم ہے۔ سوال پوچھنے کی اس کوشش پر گارڈ نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا ان کو یہ جانتے ہوئے تھپڑ مارے گئے کہ وہ صحافی ہیں، اس واقعہ کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست دے دی گئی ہے، دونوں صحافیوں پر تشدد کے ان واقعات کے خلاف ملک بھر کی تمام صحافتی تنظیموں سیاسی وسماجی شخصیات نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت فوری طور پر ان واقعات کا نوٹس لے۔ صحافی مطیع اللہ جان نے شہزاد حسین بٹ پر اس حملہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انتہائی قابل مذمت واقعہ ہے۔

 

قاسم سوری کو سوری بولناُچاہئیے اس میڈیا ورکر سے۔ واضح رہے کہ قاسم خان سوری کی نااہلی کا ایک کیس بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، وہ این اے 265 سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے، الیکشن ٹربیونل کی سربراہی جسٹس عبداللہ بلوچ نے کی تھی اور الیکشن ٹربیونل نے این اے 265 میں دوبارہ الیکشن کروانے کا بھی حکم دیا تھا جس کے بعد قاسم سوری نے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، سپریم کورٹ نے سٹے آرڈر دے دیا،اس کے بعد ابھی تک سماعت نہیں ہوئی، قاسم سوری ٹویٹر پر ملکی سلامتی کے اداروں پر بھی تنقید کرتے اکثر نظر آئے ہیں۔ قاسم خان سوری کے گارڈز کی جانب سے صحافی پر تشدد کے خلاف عوامی حلقوں نے بھی شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ آزادی اظہار رائے کے دعویدار اب سوالات کا جواب دینے کی بجائے سوال کرنے والے صحافیوں پر تشدد کرنے پر اتر آئے ہیں۔ حکومت پاکستان کا فرض بنتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے مسلمہ بین الاقوامی معیار کے مطابق صحافیوں کو حقوق دے اور ان پر ہونے والے ظلم و تشدد پر جامع تحقیقات کروائے اور مجرمان کو کڑی سزا دے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے معاشی حقوق کے حوالے سے بھی میڈیا مالکان اور حکومت مل کر راست اقدام کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button