Editorial

بجلی بحران کاذمہ دار کون ؟

 ملک میں بجلی کا شارٹ فال 7 ہزار 477 میگا واٹ ہونے کی وجہ سے  مختلف علاقوں میں 14 گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے،پاورڈویژن کے مطابق بجلی کی مجموعی پیداوار21 ہزار 223 میگاواٹ جبکہ طلب 28 ہزار 700 میگاواٹ ہے۔جن ذرائع سے بجلی پیدا کی جارہی ہے اِن پر بات کی جائے تو سب سے زیادہ سرکاری تھرمل پلانٹس ایک ہزار 290 میگا واٹ بجلی پیدا کررہے ہیں جبکہ پانی سے 5 ہزار 500 میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے مگر آج ملک بھر میں جو لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے اس کی زیاد ہ تروجوہات سابقہ حکومت کی2018-22 کے دوران کی جانے والی غفلت اور کمیشن ہے اور اب بین الاقوامی مارکیٹ میں توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے پاکستان کا پاور سیکٹر قریباً آپریشن تھیٹر میں ہے اور اِس صورتحال میں اسے جاری رکھنا ایسا معجزہ ہے جس کا اس شعبے میں پہلے کبھی کسی کو علم نہیں تھا ،
اس طرح مالیاتی بندش میں تاخیر ہوئی۔حکومت پاکستان کی ساہیوال کول اور حب جیسے مکمل شدہ منصوبوں کے لیے ریوالونگ اکاؤنٹ کھولنے میں ناکامی کا نتیجہ یہ نکلا کہ سی پیک کے تحت بجلی کی تیا ری کے سلسلہ میں توانائی کے شعبے کے لیے مزید فنانسنگ نہیں ہے۔ گزشتہ حکومت یا تو سی پیک کے توانائی کے فریم ورک کو نہیں سمجھ سکی یا پھر اس سے باہر تھی لیکن یقینی طور پر اس شعبہ کا گلا گھونٹا گیا۔ اگرچہ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف حالیہ دنوں میں لوڈ شیڈنگ میں کمی نہ ہونے پر پاورڈویژن سے مسلسل جواب طلبی کررہے ہیں لیکن لوڈ شیڈنگ بحران کے پیچھے موجود بیشتر وجوہات ناتجربہ کاری اور مخصوص مقاصد ظاہر کرتی ہیں کیونکہ مسلم لیگ نون کے دور حکومت 2013 سے 2018 کے دوران ملک میں بجلی کی پیداوار میں 11ہزار650 میگا واٹ اضافہ ہوا اور پاور ڈویژن کی ایک  رپورٹ کے مطابق اس دوران پہلی دفعہ تھر کوئلے کے ذخائر سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کا آغاز کیا گیا
یہ منصوبے سی پیک کے تحت شروع کئے گئے۔ 2016 میں 884 میگاواٹ سکھی کناری پن بجلی پروجیکٹ کی تعمیر شروع ہوئی لیکن سستی بجلی بنانے کا یہ منصوبہ 2024 میں مکمل ہوگا۔ حکومت نے 2017 میں 720 میگاواٹ کروٹ پن بجلی منصوبے کا آغاز کیاجو سی پیک کے تحت پہلا منصوبہ ہے اور وزیراعظم شہبازشریف نےقوم کو خوشخبری بھی سنادی ہے کہ اس بجلی منصوبے نے کام شروع کر دیا ہے حالانکہ گزشتہ حکومت کے پونے چار سال میں اس منصوبے پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی تھی، تاہم  تھر کول بلاک اور معدنیاتی  جو شنگھائی الیکٹرک کا منصوبہ ہے،
اگلے سال مئی میں مکمل ہونے کی توقع ہے، یہ منصوبہ بھی ایک سال تاخیر کا شکار ہوا، کیونکر ہوا اس کی وجوہات بھی وہی ہیں جن کی وجہ سے آج ملک تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد بجلی نہ ہونے کی وجہ سے اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے، 1263میگا واٹ کا ایک اور منصوبہ پنجاب تھرمل آر ایل این جی پاور پلانٹ پرتریموں، جھنگ پچھلی حکومت کے دوران  تین سال سے زیادہ تاخیر کا شکاررہااگر یہ منصوبہ بھی پیداوار شروع کردیتا تو طلب اور رسد میں یقیناً فرق بہت پہلے ختم ہوچکا ہوتا، ایک حکومت اپنے دور میں گیارہ ہزار میگا واٹ سے زائد بجلی سسٹم میں شامل کرنے کا دعویٰ کررہی ہے تو دوسری بعد میں آنے والی حکومت اِن منصوبوں کو چلانے سے قاصر رہی اور نتیجہ آج ملک میں چودہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی صورت میں سب کے سامنے ہے،
عام شہری سکون کی نیند نہیں سکتے، معیشت کا پہیہ رواں رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔ پچھلی حکومت کے دور میں جہاں پاور پلانٹس کی دیکھ بھال پر توجہ نہ دی گئی اور جب پلانٹ میں خرابی پیدا ہوئی اس کو مرمت کرکے چالو کرنے میں عدم دلچسپی کا اظہار کیاگیا جس کی وجہ سے آج ہم بجلی بحران کا سامنا کررہے ہیں، وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کو پاورڈویژن کی طرف سے بریفنگ میں واضح طور پر پاور پلانٹس کی مجموعی صورتحال سے آگیا تو وزیراعظم پاکستان نے فوری طور پر ان کی مرمت کرواکے چالو کرنے کی ہدایت کی اور مسلسل پاور ڈویژن حکام سے رابطے میں رہے، جب پاور پلانٹس مرمت ہوئے تو ان کے لیے ایندھن کا بحران پیدا ہوگیا، اب سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ کیا حالیہ بجلی بحران کا ذمہ دار سابق حکومت کے فیصلہ سازوں کو ٹھہرایا جائے یا پاور ڈویژن کو، کیونکہ فیصلہ سازی اوراحکامات جاری کرنا تو حکومتی شخصیات کا کام تھا جبکہ محکمے حکومتی پالیسی کے خلاف ایک قدم نہیں اٹھاسکتے،
موجودہ حکومت بجلی بحران کے خاتمے کے لیے سرتوڑ کوششیں کررہی ہے اور اسی حکومتی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے  پٹرولیم ڈویژن پاور سیکٹر کے لیے مطلوبہ آر ایف اوبہ کا بندوبست کرنے کے لیے تمام کوششیں کر رہا ہے اور متعلقہ پاور پلانٹس کی جانب سے بروقت آرڈر دینے اور پیشگی ادائیگیوں سے مشروط آر ایف او کی ضروریات کو آرام سے پورا کر سکتا ہے، لیکن پاور پلانٹس کی طرف سے او این سیز کو کم آرڈرز اور ادائیگی کے مسائل کی وجہ سے اپ لفٹ منٹ پاور ڈویژن کی طلب سے کم رہی ہے۔یہاں ہم کچھ اعدادو شمار بیان کرنا چاہتے ہیں جن سے صورتحال کی درست عکاسی میں آسانی ہوگی۔ اول پٹرولیم ڈویژن، پاور ڈویژن کی طلب کے مطابق آر ایف او کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔دوسرا 30جون تک آئل انڈسٹری کے پاس دستیاب ر ایف او کے موجودہ ذخائر 277,000 میٹرک ٹن ہیں،جبکہ 130ہزارمیٹرک ٹن بردارآرایف او کے 2 کارگو اس وقت بندرگاہ سے باہر ہیں۔
رواں ماہ جولائی کے لیے قریباًاٹھارہ ہزار میٹرک ٹن کی درآمد کا منصوبہ ہے، یوں متذکرہ انتظامات رواں ماہ کے دوران پاور ڈویژن کی طرف سے رکھی گئی 436,000 میٹرک ٹن کی طلب کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں، یہاں ایک بار پھر دنیا بھر میں ایندھن بحران کا ذکر ضروری ہے کیونکہ اِس کی ایک سے زائد وجوہات ہیں خصوصاً عالمی مارکیٹ میں ایندھن کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور ماضی میں بروقت سودے نہ کئے جانے کی وجہ سے آج ہم پاور پلانٹس مرمت اور تیار حالت میں ہونے کے باوجود چلانے سے قاصر ہیں تاہم متذکرہ صورتحال سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اور پاور ڈویژن اِس بحران سے قوم کو جلد از جلد نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button