ColumnImtiaz Aasi

 مخلوط حکومت .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی
تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے تھوڑے عرصہ بعدحکومت میں دراڑیں پڑنے کے امکانات پید ا ہوگئے ہیں۔پی ٹی آئی حکومت کے خلاف مہنگائی اور وعدوں کی پاسداری کو جواز بنا کر علیحدہ ہونے والی اتحادی جماعتوں کو چند ماہ میں عمران خان کی حکومت کی یاد دلادی ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادی جماعتوں کے اراکین کو عشائیہ پر مدعو کرکے رام کرنے کی کوشش کی اور کسی رکن کاشکوہ اور شکایت سنے بغیر چلے گئے۔ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی سے اتحاد شہباز شریف کی ضمانت پر کیا تھا۔سندھ حکومت سے ایم کیو ایم کے بہت سے مطالبات ہیں جو ابھی پورے ہونا ہیں۔ بلوچستان سے اسلم بھوتانی، خالد مگسی اور اے این پی کو بھی شکایات ہیں۔ درحقیقت ہمارے ہاں جمہوریت تو نام کی ہے اصل میں ذاتی مفادات کی سیاست ہے ۔ہر سیاست دان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں عوام بے چارے تو ویسے ہی ذلیل وخوار ہوتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے بعد اس کی مقبولیت کا گراف گرناچا ہیے تھا ۔ سوات کے ضمنی الیکشن میں بارہ جماعتی اتحاد کے امیدوار کو کئی ہزار ووٹوں سے شکست سے یہ ثابت ہوگیا ہے تحریک انصاف کا عوام میں مقبولیت کا گراف گرنے کی بجائے اوپر چلا گیا ہے۔مستقبل قریب میں پی ٹی آئی کو اقتدار ملنے کے معدود امکانات کے باوجود سابق وزیراعظم عمران خان ضمنی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف عمل ہیں۔جیسا کہ خبروں سے پتہ چلتا ہے اب تو پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے والوں سے کہا جا رہا ہے وہ تحریک انصاف کا ٹکٹ نہ لیں۔پی ٹی آئی انتخابات جیت بھی جائے تو اسے اقتدار کون دے گا؟لاہور میں ورکرز کنونشن سے ان کے خطاب سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لیے مورچہ زن ہیں،پی ایم ایل کی نائب صدر مریم نوازنے بھی ضمنی انتخاب کے لیے مورچہ سنبھال لیا ہے ۔2018 کے انتخابات سے پہلے پنجاب کو مسلم لیگ نون کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔
پنجاب میں پی ٹی آئی کو خاصی نشستیں ملنے کے بعد آئندہ انتخابات میں اس بات کا قومی امکان ہے کہ تحریک انصاف پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری بڑے زیرک سیاست دان ہیں وہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے مردہ جسم میں جان ڈالنے کے خواہاں ہیں اور اس مقصد کے لیے کئی مرتبہ لاہور کا دورہ کر چکے ہیں۔پنجاب میں ضمنی انتخاب وہ مسلم لیگ نون سے مل کر لڑنے کی تیاریوں میں ہیں۔پنجاب میں پی ایم ایل سے اتحاد کرکے الیکشن میں حصہ لینے کا ان کا مقصد  شمالی پنجاب میںزیادہ سے زیادہ سیٹوں کاحصول ہے۔
پی ٹی آئی اپنے دور میں عوام کو مہنگائی جیسی مشکل سے نکالنے میں کامیاب تو نہیں ہو سکی جس مہنگائی کا سامناعوام کو موجودہ حکومت کے دور میں ہے، اس بات کا قومی امکان ہے کہ پی ٹی آئی دو جماعتی اتحاد کو پنجاب میں شکست دینے میں کامیاب ہو جائے گی ۔ اس کے ساتھ پی ٹی آئی کو چیف الیکشن کمشنر پر بھی تحفظات ہیںحالانکہ چیف الیکشن کمشنر کو تعینات کرنیوالے عمران خان تھے۔
بقول عمران خان انہیں چیف الیکشن کمشنر کا نام بعض حلقوں کی طرف سے دیا گیا تھا اس کے باوجود چیف الیکشن کمشنر بارے چھان بین کرنا وزیراعظم کی ذمہ داری تھی۔کسی آئینی عہدے پر تعینات شخص کو ہٹانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اس مقصد کے لیے آئین میں دیئے گئے طریقہ کار کو اپنانے کے بعد ایسے شخص کو اس کے عہدے سے فارغ جا سکتا ہے۔حیرت تو اس پر ہے جب تحریک انصاف کی حکومت تھی اپوزیشن جماعتوں کا عام انتخابات کے انعقاد کا پر زور مطالبہ تھا۔ اب کئی ماہ گذرنے کے باوجود حکومت عام انتخابات کے انعقاد کا نام لینے کو تیارنہیں ۔ملکی سیاست میں یہ پہلا موقع ہے دو مخصوص خاندانوں کو اپوزیشن کا سامنا ہے ورنہ کئی عشروں سے اقتدار پر قبضہ جمانے والوں کو تحریک انصاف سے پہلے کسی جماعت کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔پنجاب میں صورت حال بدلتی دکھائی دے رہی ہے۔ضمنی انتخاب میںمسلم لیگ نون  اور تحریک انصاف کے درمیان کانٹے دار مقابلہ کی توقع ہے۔
وفاق میں اتحادی جماعتوں کے وزراء وزارتوں کے مزے لے رہے ہیں اور مہنگائی کا سارا ملبہ مسلم لیگ نون کے سر ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے مہنگائی پر کنٹرول کرنا اور عوام کو ریلیف دینا وزیراعظم کی ذمہ داری ہے۔ درحقیقت مسلم لیگ نون نے اقتدار سنبھال کر اپنی جماعت کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔مہنگائی کے سبب پی ایم ایل نون کا گراف بہت حد تک گر چکا ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ نون کو عوام کی حمایت حاصل تھی وہ اب نہیں رہی ۔عوام تو مسائل حل کرنے والوں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ ان کا تعلق کسی جماعت سے ہو۔عوام چاہتے ہیں کہ اقتدار میں مورثیت کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔
پی ایم ایل نون کی تاریخ گواہ ہے کہ شریف خاندان اقتدار اپنے گھر سے باہر جانے پر کبھی رضامند نہیں ہوتا۔سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو نواز شریف کے سمدھی ہیں، نیب مقدمات کے باوجود وزارت خزانہ سنبھالنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔بھلا کوئی ان سے پوچھے اسحاق ڈار کے بغیر معیشت ٹھیک نہیں ہوسکتی؟ دراصل اسحاق ڈار شریف خاندان کے فرنٹ مین ہیں۔ان کے مالی معاملات کی دیکھ بھال ڈار کے ذمہ ہے۔کئی سال برطانیہ میں قیام کے بعد اسحاق ڈار کووطن واپسی کا خیال نہیں آیاشہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد انہیں وطن واپسی کی سوجھی ہے ۔
میاں نواز شریف، مفتاح اسماعیل کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ۔ وہ مطمئن ہو بھی کیسے سکتے ہیں، اسحاق ڈار کے بغیرشریف خاندان کے مالی معاملات کوئی دیکھ نہیں سکتا۔جیسا کہ عمران خان الیکشن کمیشن پر تحفظات ظاہر کر چکے ہیں۔ پی ٹی آئی ورکرز کوضمنی انتخاب کے موقع پر پولنگ بوتھوں پر گہری نظر رکھنی پڑے گی گویا یہ انتخاب کے ساتھ پی ٹی آئی ورکرز کا امتحان بھی ہے وہ ممکنہ دھاندلی روکنے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔گو وزیراعظم نے آصف زرداری سے ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے کو کہا ہے اس کے باوجوداس بات کا کم امکان ہے پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کے مطالبات پورے کرے گی۔اگرچہ حکومت سہاروں پر کھڑی ہے تاہم مخلوط حکومت کے چلنے کی امید روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button