ColumnKashif Bashir Khan

مینڈیٹ کی چوری! .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

انتخابات کسی بھی ملک کے جمہوری نظام میںعوام کی حکومت،عوام کے لیے عوام کے ذریعےحکومت کا لازمی جزو ہوا کرتے ہیں اور آج تک پاکستان میں ہونے والے تمام انتخابات میں 70 کے انتخابات کو شفاف قرار دیا جاتا ہے۔گو ان انتخابات کے نتیجہ میں پاکستان دو لخت ہوا گیا تھا کہ اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل نہ کیا گیا اور باقی تاریخ کا حصہ ہے کہ کس طرح 70 کے انتخابات کا نتیجہ آیا اور مغربی پاکستان کا کوئی امیدوار مشرقی پاکستان میں کامیاب نہیں ہوا تھا، اسی طرح مشرقی پاکستان کی اکثریتی سیاسی جماعت عوامی لیگ کا کوئی امیدوار مغربی پاکستان سے انتخاب نہیں جیت سکا تھا، گویا ان انتخابات سے قبل ہی مشرقی پاکستان نے مغربی پاکستان کے استحصال کے خلاف فیصلہ کر لیا تھا اور یہ فیصلہ 1971 میں دنیا کے سامنے آگیا تھا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان نے پہلا متفقہ آئین 1973 میں بنایا اور پھر 1977 میں جو انتخابات ہوئے ان میں چند سیٹوں پر حکومتی سطح پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے اور پھر اس الزام کو لے کر بھٹو حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کر دی گئی۔

دراصل آج کی طرح اس وقت بھی امریکی رجیم چینج کا وار پاکستان پر چل رہا تھا اور ایک سال قبل گورنر ہاؤس لاہور میں اس وقت کے امریکی سیکرٹری خارجہ ہینری کسنجر نے بھٹو کوایٹمی پروگرام سے باز رکھنے میں ناکامی کے بعد جو دھمکی دی تھی کہ”We will make an horrible example of you”پر عمل درآمد شروع ہو چکا تھا،گو کہ بھٹو نے آئینی طور پراپنی حکومت کی مدت ختم ہونے سے ایک سال قبل ہی اپنی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے عام انتخابات کا اعلان کر دیا تھا لیکن ان انتخابات میں دھاندلی کو جواز بنا کر پاکستان میں افراتفری پیدا کر دی گئی اور یہی وہ دور تھا جس میں پاکستان میں امریکی ڈالر پانی کی طرح بہایا گیا اور پھر اس انتخابی دھاندلی کے احتجاج کا رخ نظام مصطفی تحریک کی طرف مڑ گیا۔77 میں بھٹو کی حکومت کا خاتمہ دراصل امریکہ کا اس خطے میں ایرانی سربراہ حکومت مصدق کے بعد دوسرا بڑا کامیاب رجیم چینج تھا۔اس رجیم چینج کے بعد ہی ایران، یوگنڈا ، مصر ، لبنان ، عراق،الجزاہراورلیبیا وغیرہ میں رجیم چینج کی وارداتیں کامیابی سے خالی گئیں لیکن ان تمام امریکی وارداتوں کا بغور جائزہ کیا جائے تواس میں ہر ملک کے لوکل ہینڈلرز امریکیوں کے ساتھی تھے۔
1979 میں سوویت یونین افغانستان میں گھس گیا اور پھر جیسا کہ ذولفقار علی بھٹو نے کال کوٹھری میں لکھی جانے والی کتاب
"If I Am Assassinated”میں لکھا تھا کہ اب روس افغانستان میں گھسے گا اور اس کے پیچھے پیچھے امریکہ وہاں آئے گا اور ایسے حالات میں ہمیں امریکہ کا اتحادی نہیں بننا ہو گا۔

 

بھٹو جیسے سیاسی پنڈت نے جو کہا تھا ویسے ہی ہوا لیکن پاکستان میں موجود فوجی حکومت نے اپنی غیر آئینی حکومت کی طوالت اور امریکی مدد کے لیے امریکہ کی افغانستان میں جنگ میں نہ صرف مدد کی بلکہ فرنٹ لائن پارٹنر کی خدمات سرانجام دے کر پاکستان کے اگلے پچاس سال(1979سے اب تک)دہشت گردی کے نذر کر دیئے، لیکن امریکہ کا ساتھ دینے سے جہاں پاکستان دہشت گردی کا بدترین شکار ہوا وہاں ذوالفقار علی بھٹو کا شروع کیا ہوا ایٹمی پروگرام جو اس وقت آخری مراحل میں تھا مکمل ہو گیا۔

یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان کی جنگ کے تناظر میں امریکہ نے اپنی آنکھیں جان بوجھ کر
پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے ہٹائے رکھیں لیکن میں بطور تاریخ کے طالب علم کے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا کریڈٹ صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو کو دیتا ہوں،بھٹو کے علاوہ جو بھی اس کامیاب پروگرام کا کریڈٹ لیتا ہے، وہ سراسر جھوٹ بولتا ہے اور سیاسی شعبدہ بازی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔

1985میں شدید اندرونی اور بیرونی دباؤ کے تحت جنرل ضیاءالحق نے غیر جماعتی انتخابات کروائے اور اس میں کونسلر لیول کے اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی کو ایوانوں میں پہنچایا گیا۔ پاکستان کی سیاست میں بگاڑ بھی یہیں سے پیدا ہوا۔پھر 1988 کے انتخابات سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق جماعتی بنیادوں پر ہوئے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے منتشر اور بے جان جماعتوں کو اکٹھا کر کے اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا گیا اور محترمہ بینظیر بھٹو کو قومی اسمبلی میں93 نشستوں تک محدود کر کے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہونے کے باوجود لاہور کے شہری بابو کو وزیر اعلیٰ بنوا دیا گیااور پھر مرکز اور پنجاب کے درمیان شدید محاذ آرائی دنیا نے دیکھی۔1990 میں ہونے والے انتخابات بھی مشکوک تھے اور محترمہ بینظیر بھٹو اپنا مینڈیٹ چوری کرنے کی دہائی دیتی رہیں۔ 1993میں ہونے والے انتخابات گو کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے جیتے لیکن دو تہائی اکثریت سے بہت دور تھیں۔

 

جب 1996 میں محلاتی سازشوں کے نتیجے میں سردار فاروق احمد خان لغاری نے اپنی ہی لیڈر اور جماعت کی حکومت برخواست کی تو دنیا ششدر رہی گئی لیکن انتخابات کا جو تماشہ 1997 کے اوائل میں پاکستان میں لگا اس نے دنیا کو حیران کردیا کہ نواز شریف کو دو تہائی اکثریت مل گئی اور محترمہ بینظیر بھٹو کو غالباً 14 قومی اسمبلی کی سیٹیں ملیں اور پھر اپنے بوجھ تلے دب کر نواز شریف حکومت نہ صرف ختم ہو گئی بلکہ ملک میں مارشل لاء بھی لگوا دیا۔ 2002کے انتخابات بھی قابل ذکر تھے کہ جنرل مشرف کے دوست اور کارخاص طارق عزیز جس کو انتخابی ٹکٹ دیتے،ساتھ میں جیتنے کا سندیسہ بھی دیتے تھے۔ 2008 میں ہونے والے انتخابات مشہور زمانہ چارٹر آف ڈیموکریسی کی چھتری تلے اور محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد لڑے گئے تھے۔مل جل کر مرکز اور پنجاب کی حکومتیں آپس میں تقسیم کی گئی تھیں جبکہ 5 سال مرکز اور پنجاب میں فرینڈلی اپوزیشنیں بنا کر ایک دوسرے کوکھل کر کھیلنےکی اجازت دی گئی۔

2013 میں عوام کے سامنے دونوں روایتی سیاسی جماعتوں کے اصل چہرے بے نقاب ہو چکے تھے اور عمران خان کی باتیں لوگوں کے دلوں پر تیر ہو رہی تھیں لیکن انتخابات کے نتائج حیران کن تھے۔عالمی آبزرورز کے مطابق مقتدرہ نے تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی قریبا570 سیٹوں سے محروم کیا اور اقتدار نواز شریف کو سونپ دیا گیا۔آصف علی زرداری اور فضل الرحمان سمیت تمام جماعتوں نے ان انتخابات کو آراوز کا الیکشن قرار دیا تھا۔پاکستان میں ہونے والے آخری انتخابات پانامہ کی ہنگامہ خیز لیکس کے نتیجے میں نواز شریف اور مریم صفدر وغیرہ کی عدالت عظمیٰ سے سزائوں اور نااہلیوں کے تناظر میں لڑا گیا تھا،ہوا تحریک انصاف کے حق میں پوری طرح سے ہموار تھی لیکن نتایج پھر ویسے ہی تھے کہ تحریک انصاف کو پنجاب اور مرکز میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔خواجہ آصف الیکشن ہار چکے تھے لیکن ان کے بقول جب انہوں نے کسی کو فون کیا تو ان کی ہار جیت میں بدل گئی تھی۔ان انتخابات میں بھی تحریک انصاف کا مینڈیٹ چوری کیا گیا اور ان کی سادہ سے زیادہ اکثریت کو کم کرکے لولی لنگڑی حکومت بنانے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ آج 2022 میں سوشل میڈیا کی موجودگی اور اس ہر حکومتی اور مقتدر حلقوں کااختیار و کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال یکسر بدل چکی ہے اور دھاندلی وانجینئرنگ کرنا نہایت مشکل ہو چکا ہے۔ عمران خان کا ای وی ایم مشین کا انتخابات میں استعمال کرنے کی قانون سازی اور اتحادی حکومت کی جانب سے اس قانون کو ختم کرنا بہت سے پردے چاک کر رہا ہے۔

پنجاب کے 20 حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں حکومتی مشینری اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر تحریک انصاف نے بھرپور طریقے سے احتجاج کرنا شروع کردیا ہے بلکہ یاسمین راشد صاحبہ کا ایک حاضر سروس افسر کا نام لے کر ضمنی انتخابات کے عمل میں مداخلت سے باز رہنے کی وارننگ بہت ہی تشویشناک ہے۔سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے موقع پر حکمران جماعت پیپلز پارٹی نے جس طریقے سے خون کی ہولی کھیل کر انتخابات میں برتری حاصل کی وہ ملکی سالمیت کے تناظر میں نہایت خطرناک ہے۔اسی طرح پنجاب میں تحریک انصاف کے پانچ مخصوص سیٹوں والے اراکین کا نوٹیفیکیشن الیکشن کمیشن کی جانب سے روکنا اور پھر لاہور ہائی کورٹ کا ان اراکین کے نوٹیفیکیشن کو فوری جاری کرنے کا حکم نامہ آنے والے تمام انتخابات بالشمول پنجاب کے ضمنی انتخابات میں انتخابات کروانے والے اداروں کی ساکھ اور غیر جانبداری پر سوالیہ نشان ہیں۔75 سال کے سفر کے بعد آج ہماری پٹاری میں کوئی ایک الیکشن بھی ایسا نہیں کہ جسے ہم صاف اور شفاف الیکشن کہہ سکیں۔ پاکستان میں ماضی میں ہونے والے تمام انتخابات پر ہی دھاندلی کا داغ ہے۔ آج پاکستان تاریخ کے کٹھن دوراہے پر کھڑا ہے اور قوم بے بس اور ناامید ہے۔ عوامی مینڈیٹ چوری کرنے کے جتنے سنگین نتائج موجودہ بدترین ملکی حالات میں نکل سکتے ہیں۔ اس کا اندازہ شاید عوامی مینڈیٹ پر نقب لگانے والوں کو بھی نہیں۔ تمام اداروں کو سوچنا اور عوامی مینڈیٹ کو کٹ لگانے یا چوری کرنے کی ہر کوشش سے باز رہنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button