CM RizwanColumn

پنجاب میں ضمنی انتخابات کا بڑا معرکہ .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما و سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پنجاب میں 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نون کے امیدواروں کو ہر صورت فتح کی یقین دہانی کروائے جانے کی خبر چند روز پہلے ہی دے دی تھی۔ لاہور میں پریس کانفرنس میں شاہ محمود نے کہا تھا کہ پنجاب میں ضمنی انتخابات کے حوالے سے صوبائی حکومت کے تیور دیکھ رہا ہوں۔ اس بار ان کا انداز کچھ مختلف دکھائی دے رہا ہے کیونکہ انہوں نے ہر صورت جیت کا پلان تیار کیا ہوا ہے۔ ایسا کر کے یقینی طور پر حکومت الیکشن کمیشن کی ساکھ کو متاثر کرے گی انہوں نے دلیل دی کہ دوسری طرف چونکہ یہ الیکشن حمزہ شہباز کے مستقبل کا الیکشن ہے اس لیے وہ اپنی وزارت اعلیٰ بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں شاہ محمود قریشی نے دھاندلی کی پیشگی اطلاع کردی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے ۔گزشتہ روز روز ایم کیو ایم پاکستان اور باپ پارٹی کی جانب سے علیحدہ علیحدہ مواقع اور انداز میں موجودہ وفاقی حکومت حکومت اور پیپلز پارٹی سے گلے شکوے یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ نہ تو یہ اتحادی تحریک عدم اعتماد کے وقت مینیج کئے گئے تھے اور نہ ہی آئندہ کئے جائیں گے،

لہٰذا پنجاب کے ان ضمنی انتخاب میں گیدڑ سنگھی
لگنے کے خدشات بھی محض الزامات ہی ہیں اور قوی امکان یہی ہے کہ یہ انتخابات منصفانہ ہوں گے۔ البتہ اگر کوئی کاری گر امیدوار مقامی سطح پر بوٹی لگا لے تو کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ پنجاب کے ایوان میں اس وقت حکومت اور اپوزیشن کی نشستیں کم و بیش برابر ہیں ،اس وجہ سے بھی یہ ضمنی انتخابات انتہائی اہم ہیں کیونکہ انہی کے ذریعے کسی ایک فریق کے اراکین کی تعداد واضح اکثریت میں بدل سکتی ہے۔ اس طرح پنجاب میں عام انتخابات سے پہلے ہی صوبائی اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخاب کا معرکہ حکومت اور اپوزیشن کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے اور ان دنوں اطراف سے کامیابی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔
حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ 15 سے 16 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لیں گے جبکہ اپوزیشن کے بعض سنجیدہ حلقے 12 سے 13 نشستوں پر کامیابی کے یقین کا اظہار کر رہے ہیں تاہم کون کتنی نشستوں پر کامیاب ہوگا اس کا حتمی فیصلہ تو 17 جولائی کو ہوگا۔ تاہم یہ ضمنی انتخابات اب اسمبلی کی خالی سیٹوں کو پر کرنے کے ساتھ ساتھ بیانیے اور کارکردگی کی جنگ بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی نے اپنے ہیوی ویٹس کے ساتھ ساتھ اس بار کچھ نئے چہروں کو بھی میدان میں اتارا ہے، جبکہ حکومتی اتحاد نے ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیئے ہیں جو پچھلے انتخابات میں کامیاب ہو کر ہی اسمبلی میں پہنچے تھے اور ان کی خاطر منحرف ہونے کا الزام بھی مول لے لیا تھا۔ دوسری طرف پی ٹی آئی وفاق کی طرح پنجاب میں بھی حکومت کی تبدیلی کو امریکی سازش سے منسوب کرتی ہے۔ آئندہ کی حکمت عملی کے بارے میں اسد عمر کہہ چکے ہیں کہ اگر پنجاب میں انہیں زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تو صوبائی اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی کیونکہ پی ٹی آئی ملک بھر میں جلد از جلد نئے انتخابات کا مطالبہ کر چکی ہے۔ گوکہ قومی اسمبلی میں ان کے ممبران کے استعفے ان کا انتظار کر رہے ہیں مگر پی ٹی آئی قیادت اس معاملے میں گومگو کی کیفیت کا شکار نظر آرہی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سبطین خان نے دعویٰ کیا ہے کہ پارٹی نے ٹکٹ اچھے امیدواروں کو دیئے ہیں اور عمران خان کا بیانیہ کامیاب ہوگا۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ سابقہ صوبائی حکومت میں بدعنوانی اور بیڈ گورننس سے لوگ متنفر ہو چکے ہیں اور اب عوام مسلم لیگ نون کی حکومت چاہتے ہیں اور ہماری قیادت کی کارکردگی پر بھروسہ کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ویسے تو ہماری پوزیشن سب حلقوں میں بہتر ہے مگر 20 میں سے 15 سے16 نشستوں پر ہمارے امیدواروں کی کامیابی یقینی ہے۔ ان کے بقول پی ٹی آئی کے منحرف ارکان آزاد حیثیت سے پچھلے انتخابات میں جیتے تھے تو اس بار بھی امکان ہے کہ وہ نون لیگ کے ٹکٹ پر بھی کامیاب ہوں گے۔ تاہم اپنی مدت کے اعتبار سے انتہائی غیر اہم یہ ضمنی انتخابات اس حوالے سے انتہائی اہمیت اختیار کر چکے ہیں کہ ان سے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نون کی آئندہ کی حکمت عملی اور کمزوری و مضبوطی وابستہ ہو چکی ہے۔ یہ ضمنی معرکہ اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ اس میں تحریک لبیک پاکستان نے ہر حلقے میں نہ صرف نمایاں امیدوار نامزد کئے ہیں بلکہ ان کی انتخابی مہم بھی زور شور سے جاری ہے ۔
پچھلے دنوں فیصل آباد دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں ٹی ایل پی نے ایک بڑا عوامی اجتماع کرواکے عمران خان کے مینار پاکستان میں پہلے بڑے جلسے کی یادتازہ کردی ہے جس کے بعد عمران خان کی بول چال اور انداز واطوار میں بڑی تبدیلی آگئی تھی اور اس نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اب ایمپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے۔ پھر انگلی اٹھی اور اب وہ اسی انگلی کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں ٹی ایل پی کے بڑے جلسے کے بعد یقین سا ہوچلا ہے کہ یہ انگلی اب عمران خان کے لیے کبھی بھی حرکت میں نہیں آئے گی۔ یہ ضمنی انتخابات اس حوالے سے بھی اہم ہیں کہ ان میں لڑائی جھگڑوں کے بھی شدید خدشات ہیں۔ لڑائی جھگڑوں اور پرتشدد واقعات کے نتیجے میں کئی پولنگ سٹیشنوں کے نتائج بھی روکے جانے کے خطرات سراٹھا رہے ہیں۔ دوسری طرف منحرف اراکین کو مخالفین کی جانب سے تنقید اور دیگر انتقامی کارروائیوں کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔ان حالات میں الیکشن کمیشن اور پنجاب حکومت کے انتظامی اداروں کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ گئی ہیں۔ تاہم ہماری خواہش تو یہی ہے کہ یہ بڑا انتخابی معرکہ خیروعافیت سے انجام پاجائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button