ColumnNasir Naqvi

شخصیت پرستی .. ناصر نقوی

ناصر نقوی
برصغیر کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس سرزمین پردینِ حق اسلام پہنچا تو یہاں بسنے والوں کی اکثریت بت پرستی کی عادی تھی، پھر بھی اولیاء کرام اور صوفیاء کرام نے انہیں پیغام توحید دیا، کچھ کو بات جلدی سمجھ آگئی اور کچھ کو ابھی تک نہیں آئی۔ پنجاب کی مختلف نسلیں بتاتی ہیں کہ ان کے باپ، دادا بلکہ ان سے پہلے بزرگ بھی ہندوو سکھ سے مسلمان ہوئے تھے۔ صرف سیّد زادوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اولاد نبی ؐ اور اولادِ علیؑ ہیں ۔ پنجاب میں سکھوں کی تعداد زیادہ تھی لیکن سندھ ہندوئوں کی اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا۔ تاہم سرزمین حجاز سے مہاجرین آئے اور سندھ کے ہندوئوں نے انہیں بہت عزت و احترام دیا۔ ہماری کتب کہتی ہیں راجا داہر ظالم اور جابر حکمران تھا لہٰذا اس کے ظلم و ستم کے خاتمے اور مسلمانوں کی مدد کے لیے حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو بھیجا
جبکہ اندرون سندھ یہ کہانی مشہور ہے کہ سندھیوں کا حقیقی ہیرو راجا داہر ہے اور حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو اپنے کسی خاص مقاصد کے لیے بھیجا تھا جو محمد بن قاسم پورا نہیں کرسکے بلکہ اپنے حسن اخلاق سے اس قدر ہیرو بن گئے کہ سندھی ان کی محبت میں اپنی ’’پوجا پاٹ‘‘ چھوڑ کر محمد بن قاسم کی شخصیت پرستی کا شکار ہو گئے۔
اس بات کا  وہ ثبوت یہ دیتے ہیں کہ جب محمد بن قاسم نے واپسی کی ٹھانی تو لوگ نہ صرف پریشان ہو ئے بلکہ رونا دھونا اور صفِ ماتم بچھ گئی ان سب کا مطالبہ یہی تھا کہ محمد بن قاسم واپس نہ جائیں لیکن انہیں جانا تھا اور وہ چلے گئے۔
ہماری کتب بتاتی ہیں کہ محمد بن قاسم کی آمد سے خطے میں دین حق اسلام کی پذیرائی ہوئی اور اَن گنت بت پرستوں نے مہمان کے رویے، گفتار اور کردار سے متاثر ہوکر اپنے مذہب کو خیرباد کہہ دیا اور مسلمان ہو گئے جبکہ حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو اپنے حق میں مثبت نتائج نہ نکلنے اور شہرت کی حسد میں گائے کی کھال میں ’’سلوا‘‘کر جان سے مار دیا۔
یہ بھی داستان اندرون ِ سندھ عام ہے کہ سندھی وڈیروں کی زمینیں اور جائیدادیں بھی احترام اولاد نبیؐ اور اولاد علیؑ میں راجا داہر نے تقسیم کی تھیں اور اسی حوالے سے شخصیت پرستی میں ہیرو راجہ داہرکو ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم کو حسن اخلاق اور زبان کلام ہی نہیں، کردار کا مجسمہ قرار دیا جاتا ہے جبکہ کچھ اسے لٹیرا کہنے سے بھی باز نہیں آتے۔
مخدوم کا لغوی معنی ایسے شخص کے ہیں جو لوگوں کا خدمت گزار ہو، لیکن سندھ میں اسے الٹا جانا جاتا ہے وہ زمین جائیداد کے مالک ’’پیرو مرشد‘‘ ہیں جبکہ زمین سندھ پر بسنے والا ہر شخص خواہ اس کا مذہب کچھ بھی ہو ،اولاد نبیؐ اور اولاد علیؑ سے آج بھی اس طرح محبت کرتا ہے خاص طور پر ہندو برادری کا پیار قابل ذکر ہے جو شخصیت پرستی کی بڑی مثال ہے لیکن کہاں وہ کہاں ہم؟
محسن کائنات ﷺکا گھرانہ یقیناً ایسا ہے کہ اس سے جتنی بھی محبت کی جائے کم ہے۔
موجودہ دور میں بت پرستوں کی آل اولاد نے شخصیت پرستی سے ایسا رشتہ جوڑا ہے کہ روایات اور اخلاقیات کا بھرم بھی ختم ہو کر رہ گیا ہے، کون ہے؟ کیا ہے؟ ہم مفادات کو مدنظر رکھ کر یا پھر وعدہ فرداں پر پوجا پاٹ میں لگے ہوئے ہیں، اس لیے کہ ہم دنیا میں سکون کے متلاشی کو صرف اپنے حالات کی بہتری چاہیے۔ کوئی دولت کا پجاری ہے، کوئی دولت مند کا، شارٹ کٹ کی خواہش پر پیری مریدی بھی خوب چل رہی ہے او ر جو باقی بچے ہیں انہوں نے اپنی منزل کی تلاش میں سیاسی شخصیات پرستی کو ایسا پروان چڑھایا کہ آپ تنقید اور تعریف کرنے سے پہلے یقیناً ایک سے زیادہ مرتبہ سوچیں گے ورنہ نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔
ایک اللہ، ایک نبیؐ اور ایک کتاب کے ماننے والے بھی شخصیت پرستی کے بخار میں مبتلا ہیں۔ لہٰذا آپ کسی کو کچھ کہنے کی ہمت نہیں کر سکتے،  َلیڈر ہو کہ ورکر؟ سب کے سب عدم برداشت کے جال میں پھنس چکے ہیں، اس لیے ہر کسی کو یہی غلط فہمی ہے کہ وہ عقل کل ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ بات بات پر جھوٹ، وعدہ کر کے وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت کرنے والے کو منافق کہا جاتا تھا لیکن اب مطلب بدل گئے اسے یوٹرن، بہادری اور دلیری سے جوڑا جاتا ہے۔ پھر بھی ہم شخصیت پرستی چھوڑنے کو تیارنہیں۔ ضد اور انا پہلے سیاسی بیان اور میدان سے کوسوں دور رکھی جاتی تھی۔موجودہ حالات میں بیان کو بنیاد بنا کر سیاست کی جاتی ہے بلکہ اپنی شخصیت پرستی میں سب نے اپنے اپنے بت تراش کر پوجا شروع کر رکھی ہے، اسے صرف اپنے مفادات کی غلامی درکار ہے۔ ایسے میں عمران خان پاکستانی سیاست میں آئے اور شخصیت پرستوں نے انہیں بت بنا کر پوجنا شروع کر دیا۔ وہ کرکٹر سے سیاسی ہیرو بن گئے۔
اس وقت اقتدار حاصل کرنے کے بعد فراغت کے باوجود ایسی شخصیت ہیں جن کے پرستاروں میں کمی نہیں آئی، کمی صرف سلیکٹرز کی محبت میں آئی جن کی دوری سے عمران اور اقتدار میں فاصلہ قائم ہو گیالیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دوسری جماعتوں میں شخصیت پرستی کے مریض نہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں جمہوری جدوجہد کی علمبردار ہونے کے باوجود پارٹی میں الیکشن سے پرہیز ہی کرتی ہیں اور اگر کوئی مجبوراً حالات یا الیکشن کمیشن کے اصرار پر کرانے بھی پڑ جائیں تو آرام سے کمرہ بند الیکشن ہو جاتے ہیں۔ تمام جمہوری پارٹیوں کی سیاست کسی نہ کسی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔ پیپلز پارٹی بھٹو خاندان سے نکل کر آصف علی زرداری کے جہیز میں آچکی ہے۔ایک زرداری سب پر بھاری ہے۔ اس لیے ان کے بغیر پیپلز پارٹی کی زندگی خطرے میں ہے۔
ملک کے ریکارڈ ہولڈر وزیراعظم نواز شریف کی مسلم لیگ نون کے خواہ شہباز شریف صدر ہیں پھر بھی تمام تر سیاست اور فیصلوں کو قائد نوازشریف سے جدا نہیں کر سکتے۔ جے یوآئی حضرت مولانا فضل الرحمن کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ شیرانی گروپ ہو یا کوئی اور کسی کی کوئی حیثیت نہیں۔ اے این پی اسفندر یار ولی کے بنا کوئی مقام نہیں رکھ سکتی۔ اس کی تاریخ عبدالغفار خان اور موروثی سیاست سے نتھی ہے حالانکہ ان سرخ پوشوں کے نظریات، اصول، روایات اور جدوجہد کافی وکھری ٹائپ کی ہے، رہی سہی کسر تحریک انصاف نے پوری کر دی ہے۔ عمران خان کی غیر موجودگی میں پارٹی کی بقاء کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ انہوں نے ابھی تازہ تازہ چیئرمینی کا الیکشن جیت کر باقی عہدے اردگرد اکٹھا وفاداروں میں تقسیم کرتے ہوئے وعدہ کیا ہے کہ جلد وہ پارٹی الیکشن میرٹ پر کروائیں گے۔ انہوں نے موجودہ الیکشن کو حالات کی مجبوری قرار دیا ہے لیکن ماضی یہ چغلی کھا رہا ہے کہ یہ بھی وعدہ فرداں ہو گا کیونکہ ایک مرتبہ وہ الیکشن کرا کے جسٹس (ر) وجیہ الدین کی تنقید کا باعث بن چکے ہیں بلکہ انہیں یہ بھی معلوم ہیں کہ ان کی پارٹی الیکشن میں بھی دولت ہی نہیں دھونس دھاندلی بھی چلی، اس لیے مستقبل میں وہ یہ غلطی دوبارہ نہیں کریں گے۔
اب اگر انہیں شخصیت پرستی کے دائرے میں رکھ کر پرکھا جائے تو انہیں نہ صرف موافق ماحول ملا بلکہ ان کے بیرون ملک کے نظارے بھی کام آئے، سب سے زیادہ سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال ان کی شہرت و مقبولیت کا باعث بنا، اقتدار تک میڈیا کی سہولت اور سلیکٹرز کی مدد سے پہنچے لیکن یوٹرن کی خداداد صلاحیت بروئے کار لاتے ہوئے دونوں کے خلاف ہو گئے اور ان کے لے پالک سوشل میڈیا نے ان کی شخصیت کا ایک ایسا بت تراشا کہ اب برسوں اس کی پرستش ہو گی اور جو راستے میں آئے گا، کٹ جائے گا اس لیے کہ انہیں نجات دہندہ اور پیرومرشد کی گدی نشینی حاصل ہے۔ غلطی نئی نسل کی ہرگز نہیں، جب پارٹیاں جمہوریت، جمہوریت کی رٹ لگاتے ہوئے بھی ایک ہی شخصیت کے گرد ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوں گی تو پھر شخصیت پسندی پروان کیسے نہیں چڑھے گی،
آج کل ایم کیو ایم ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے، ورنہ کیا کوئی الطاف بھائی پیر صاحب کے سامنے بولنے یا اختلاف رائے کی جرأت کر سکتا تھا؟ نہیںنہ ہی اب کوئی نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، عمران خان، اسفند یار ولی، پیر آف پگاڑا اور آصف علی زرداری کے مدمقابل آکر کچھ نیا کر سکتا ہے کیونکہ جمہوری روایات اپنی جگہ ،شخصیت پرستی سے کہیں بھی جان نہیں چھوٹ سکتی، پہلے دولت چند خاندانوں کی لونڈی تھی اور اب سیاست ۔ لہٰذا اس راز سے واقف عمران خان تو خود پرستی کا شکار لگتے ہیں، انہیں اقتدارملا، جیسے ملا، ویسے ہی چلا بھی گیا لیکن ان کی ’’مَیں‘‘ کا ورد ختم تو کیا کم بھی نہیں ہو سکا، پھر ہم اور آپ شخصیت پرستی کے بت کیسے توڑ سکتے ہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button