Editorial

نیشنل ایکشن پلان اورصوبوں کی ذمہ داری

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف قوم کا بیانیہ ایک اورپوری قوم متفق ہے،نیشنل ایکشن پلان میں صوبوں کا کردار بحال کیا جائے گا۔ وزیراعظم میاں شہبازشریف کی زیرِ صدارت امن وامان سے متعلق ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم کو ملک اور صوبہ پنجاب میں امن و امان کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا گیااور وزیراعظم نے ملک میں سٹریٹ کرائمز میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ملک بھر میں عوام کے جان ومال کا تحفظ یقینی بنایا جائے،
پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بارے میں عوام کی رائے صرف کارکردگی دکھانے سے ہی بدل سکتی ہے، اجلاس کو دہشت گردی کے خاتمے اور اس ضمن میں لاحق خطرات کے حوالے سے بھی بریفنگ دی گئی اوردہشت گردوں کی مالی معاونت کے سدباب کے اقدامات اور قوانین پر عمل درآمد کا بھی جائزہ لیا گیا۔ہم سمجھتے ہیں کہ سانحہ آرمی پبلک سکول نے جس طرح ہماری سیاسی و عسکری قیادت اور تمام طبقات کو جھنجھوڑ کر دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دینے پر مجبور کیا اُس واقعے کا درد دل میں محسوس کرتے ہوئے ہمیں اس کے تمام 20نکات پر من و عن اور انتہائی سرعت کے ساتھ عمل کرنا چاہیے تھا،
کیونکہ سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچوں نے ہماری آنکھیں کھول کر ہمیں اُن حالات سے آگاہ کیا تھا جن کا ہمیں سامنا تھا لیکن ہم شاید اُس کی سنگینی محسوس نہیں کررہے تھے، وہ معصوم شہدا اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے قوم کے باقی بچوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچا گئے لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنے میں ہم نے بہت سی جگہوں پر کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے۔ سانحہ آرمی پبلک سکول کے فوری بعد حکومت پاکستان نے سبھی فریقین کی باہمی مشاورت سے ایک بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا جس کے ذریعے طے کیا گیا کہ وطن عزیز کو درپیش دہشت گردی اور انتہا پسندی کے سنگین خطرات سے کیسے نجات حاصل کی جائے گی اور کس طریقے سے اس مخدوش صورتحال کا موثر اور مربوط طریقے سے سامنا کیا جائے گا۔
پارلیمنٹ کا خصوصی ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس میں سبھی سیاسی جماعتوں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت بھی کی اورفوری قلع قمع کرنے پر بھی زور دیا، نتیجے میں خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں اور مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دینے کا اعلان کیاگیاکیونکہ صورتحال ایسی نہیں تھی کہ دہشت گردوں کے مقدمات سالہا سال لٹکائے جاتے جس طرح عام مقدمات تاخیر کا شکار ہوتے ہیں، دہشت گردی میں ملوث افراد کے فوری ٹرائل اور انصاف کرنے کی ضرورت تھی لہٰذا اس غیر معمولی صورتحال کو مدنظر رکھ کر غیر معمولی فیصلے کیے گئے، پاک فوج نے خود اوردیگر سکیورٹی اداروں کی مدد سے ملک کے کونے کونے سے دہشت گردوں کو ڈھونڈ نکالا، جو لڑتے ہوئے سرنڈر ہوئے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا اور جو اپنے انجام کو پہنچنا چاہتے تھے، وہ موقعے پر ہی جہنم واصل ہوئے۔
پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب اور رد الفساد کے تحت دہشت گردی کے ڈھانچے کوناقابل تلافی نقصان پہنچایاگیا بلکہ دہشت گردوں کا قلع قمع کردیاگیا، جو طاقتیں اِن کے پیچھے تھیں انہوںنے ہر ممکن کوشش جاری رکھی لیکن پاک فوج اور سکیورٹی اداروں کی انتھک محنت اور قربانیوں نے اُن کی ہر سازش کو ناکام بنایااگرچہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی جنگ ہم جیت چکے لیکن اس کے باوجود اکا دُکا واقعات جاری رہتے ہیں جن کے ذریعے دہشت گردوں کی باقیات اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔ وطن عزیز کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ پوری قوم متفق ہے کہ اِس عفریت سے بہرصورت نجات حاصل کرنی ہے اسی لیے ہمہ وقت پوری قوم افواج پاکستان کے شانہ بشانہ اِس عظیم مقصد کے لیے متحد و متفق ہے۔  اگرچہ اس سمت میں پیش رفت جاری ہے مگر تاحال شاید اس بابت اطمینان بخش نتائج حاصل نہیں ہو سکے اور کوئی نہ کوئی ایسا افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہے جو نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل نہ ہونے کا اشارہ ہوتا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان ملکی سلامتی کی اہم ترین دستاویز ہے۔ اس پر اگر پوری طرح عمل کیا جاتا تو دہشت گردی و انتہا پسندی کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔فرقہ واریت اور دہشت گردی وطن عزیز اور ہر پاکستانی کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا ارباب اختیار کو اِن تمام معاملات کا بغور جائزہ لینا چاہیے جو نکات کسی بھی وجہ سے پورے نہیں ہوسکے۔ پاک فوج اور سکیورٹی اداروں نے تو نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کرکے اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کردی ہے اور آج بھی سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کی تاک میں ہیں مگر سیاسی قیادت کو بھی اپنے حصے کا کام بغیر کسی توقف اور مصلحت کے فوری کرنا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وطن عزیز کی سیاسی و عسکری قیادت ایک بار پھر نیشنل ایکشن پلان کابغور جائزہ لے اور جن نکات پر عمل درآمد نہیں ہوسکا اِن پر فوری اور من و عن عمل درآمد کرایا جائے، اگر عمل درآمد میں کہیں رکاوٹیں آرہی ہیں تو ان کو فوری طور پر دور کیا جاناچاہیے،
اسی ہزارقیمتی جانوں کا نقصان ہم ابھی تک برداشت نہیں کرسکے، اِس لیے مزید جانی و مالی نقصان کا احتمال نہ رہے اور یہی ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ شہدا کا خون کسی صورت رائیگاں نہ جائے۔ وزیراعظم میاں شہبازشریف نے فیٹف شرائط کی تکمیل کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پوری قوم اپنی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شانہ بشانہ ہے اوردہشت گردی کے مکمل خاتمے تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی، پاکستان کی سلامتی اور دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، نیشنل ایکشن پلان میں صوبوں کے کردار کو پھر سے بحال کیاجائے گا جو گزشتہ چار سال میں موجود نہیں تھابلکہ چار سال میں نیشنل ایکشن پلان میں صوبوں کا کردار نظر انداز کرنے سے دہشت گردی میں اضافہ ہواہے
لیکن پاکستان کی معیشت کی بحالی اور ترقی کے لیے امن وامان کا یقینی ہونا ایک بنیادی تقاضا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد سے ہی امن و امان ممکن ہے اور دہشت گردی کا خاتمہ کرکے ہی ہم ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button