ColumnHabib Ullah Qamar

سعودی تجارتی وفد کا دورہ پاکستان حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر
سعودی عرب کے نامورسرمایہ کاروں پر مشتمل وفد نے دورہ پاکستان کے دوران وزیراعظم شہباز شریف سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ سعودی پاک بزنس کونسل کے چیئرمین فہد بن محمد الباش کی قیادت میں دورہ کرنے والے وفد نے لاہور، اسلام آباد، سیالکوٹ، فیصل آباد اور کراچی میں چیمبر آف کامرس انڈسٹری کے وفود سے ملاقاتیں کیں اور سرمایہ کاروں کے مابین کاروبار کے حوالے سے سازگار ماحول پیدا کرنے سے متعلق خاص طور پربات چیت کی گئی۔ برادر ملک سی پیک کے جاری منصوبوںمیں سرمایہ کاری کے لیے بھی خصوصی دلچسپی رکھتا ہے ، اس لیے وفد نے سی پیک کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کی اور سی پیک منصوبوں پر ہونے والی پیش رفت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے طریقہ کار سے متعلق تفصیلی بات چیت کی گئی۔ سعودی وفد کی جانب سے پاکستانی وزیر تجارت سید نوید قمر اور وزیر منصوبہ بندی و سرمایہ کاری احسن اقبال سے بھی الگ الگ ملاقاتیں کی گئیں جن میں دو طرفہ تجار ت کے فروغ، تاجروں کے لیے سہولیات، قوانین اور وطن عزیز پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے موزوں شعبہ جات اور سیکٹرز پر تبادلہ خیال کیاگیا۔موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سعودی عرب سے سرمایہ کاروں کے اعلیٰ سطحی وفد کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا دورہ ہے جو وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے فالو اپ کے طور پر کیا جارہا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے معاشی مشکلات میں پاکستان کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی اور پاکستان میں تعینات سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے بھی اپنی گفتگو میں اس کا اشارہ دیا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی اور پائیدار برادرانہ تعلقات ہر دور میں مضبوط و مستحکم رہے ہیں۔برادر ملک ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے ہمیشہ تمام معاملات پر پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کی ہے۔ یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا۔قیام پاکستان کے قریباً چار سال بعد 1951ء میں دونوں ملکوں کے مابین دوستی کا ایک معاہدہ ہوا، جس کے بعد شاہ سعود نے کراچی میں ایک ہاؤسنگ سکیم کی بنیاد رکھی جو آج سعود آباد کے نام سے جانی جاتی ہے۔1965ء کی پاک بھار ت جنگ ہوئی تو سعودی عرب نے پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا۔ اسی طرح 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان برادر ملک کے ساتھ کھڑا رہا ، یعنی دونوں ملک اپنے اپنے طور پر دوستی کا حق ادا کرتے رہے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دوستانہ تعلقات اگرچہ شروع سے ہی خوشگوار رہے ہیں لیکن شاہ فیصل کے دورحکومت میں ان تعلقات کو بہت زیادہ فروغ ملا۔ سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب زدگان ہوں، دسمبر 1975ء میں ہونے والا سوات کا زلزلہ ہو یا 2005ء کا آزاد کشمیر اور خیبر پی کے میں آنے والا زلزلہ ہو، برادر ملک نے پاکستان کی ہمیشہ کھل کر مدد کی۔ ایسے ہی 2010ء اور 2011ء میں آنے والے شدید سیلابوں کے دوران بھی سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کاحق ادا کیا ہے۔ شاہ فیصل کا ذکر کیا جائے تو انہیں خاص طور پر پاکستانی عوام سے بے پناہ محبت تھی۔
فیصل مسجد اسلام آباد، پاکستان کا صنعتی شہر فیصل آباد اور کراچی کی شاہراہ فیصل انہی کے نام سے منسوب ہے۔ برادر ملک نے پاکستانی محنت کشوں کے لیے ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھے اور پاکستان کے خلاف دشمنان اسلام کے مذموم عزائم ناکام بنانے کے لیے بھی مدد فراہم کی جاتی رہی ہے۔بین الاقوامی دنیا کی طرف سے یہ بات بھی برملا تسلیم کی جاتی ہے کہ پاکستان نے جب ایٹمی دھماکے کیے اور اس پر عالمی پابندیاں لگیں تو سعودی عرب نے بڑے بھائی کی طرح پاکستان کی مددکی اور اسے خود کو تنہا محسوس نہیں ہونے دیا۔سوویت مخالف جنگ کے دوران بھی برادر ملک کا کردار انتہائی اہم رہا اورپاکستان کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے ہر ممکن امداد فراہم کی جاتی رہی۔ 1980ء میں جب پاکستان زبردست معاشی بحران سے دوچار تھا،
سعودی عرب نے اس موقع پر پاکستان کو یومیہ پچاس ہزار بیرل تیل فراہم کیا جس سے وطن عزیز کو اس بحران سے نکلنے میں مدد ملی۔ سعودی عرب پاکستان کو تیل فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، 2013 ء اور 2018ء میں معاشی بحرانوں کے دوران پاکستان کو غیر مشروط تعاون فراہم کیا جاتا رہاہے۔ اسی طرح حالیہ برسوں میں ہی پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداددیے جانے کے ساتھ ساتھ سٹیٹ بنک میں بھی کئی ارب ڈالرجمع کروائے گئے تاکہ پاکستان کی کرنسی کو مضبوط کرنے میں مددفراہم کی جاسکے۔ پاکستان کے مختلف شہروں و علاقوں میں تعلیمی و رفاہی ادارے، ہسپتال، اسلامک سنٹراور اسی انداز میں دوسری کاوشیں سعودی فرمانرواؤں کی ترجیحات کا حصہ رہی ہیں۔ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان تو خاص طور پر پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دے چکے ہیں۔
سعودی عرب کے حوالے سے اگر کہا جائے کہ یہ خدمت اور سلامتی کا بحر بیکراں ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر شہباز شریف تک دونوں ملکوں کے مابین برادرانہ تعلقات کی ایک تابناک تاریخ ہے۔ یہ باہمی تعلقات اور دوستی ہر دور میں اپنے معیار پر پورا اتری ہے۔ او آئی سی اور دوسرے بین الاقوامی فورمز پر بھی دونوں ملکوں کا ہمیشہ ایک موقف رہا ہے۔ اس وقت بھی دونوں ملک یہ کوشش کر رہے ہیں کہ جس طرح دونوں ملکوں کے مابین دفاع کو اہمیت حاصل ہے، اسی طرح کاروبار اور سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی مل کر کوششیں کی جائیں۔ سعودی سرمایہ کاروں کا حالیہ وفد بھی اسی حوالے سے ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور اس کے سعودی ہم منصب، کونسل سعودی چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے جون 2000 میںمفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے جس کا مقصد دونوں برادر ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ، دوطرفہ تجارت اور مشترکہ منصوبوں کو فروغ دیناتھا۔
اسی طرح دونوں ممالک کے کاروباری اداروں کے درمیان روابط قائم کرنا اور کسی بھی ملک میں تجارتی تقریبات میں شرکت میں اضافہ کرنا بھی اس یادداشت میں شامل تھا۔پچھلے تین چار برسوں سے دونوں ملکوں کی جانب سے کاروباری سرگرمیوں میں وسعت پیدا کرنے کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔حالیہ دنوں میں پاکستان کا دورہ کرنے والے سعودی پاک بزنس کونسل کے چیئرمین فہد بن محمد الباش نے اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے زیراہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برادرملک میں بیس فیصد افرادی قوت پاکستان سے ہے اور ان کا ملک پاکستان سے مزید تربیت یافتہ ورکرز درآمد کرنا چاہتا ہے۔
گویا کہ افرادی قوت سعودی عرب کے لیے خدمات میں سب سے بڑی برآمدات میں سے ایک ہے،لہٰذا اس میں اضافہ اور اقامہ کے لیے درخواست دینے میں آسانی کے حوالے سے سروس سیکٹر میں مزید مواقع ہوں گے۔ فہد بن محمد الباش کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے سرمایہ کار پاکستان میں کاروبار اور سرمایہ کاری کرنے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور دونوں ممالک کے نجی شعبے آپس میں مضبوط روابط قائم کر کے ایک دوسرے کے ملک میں پائے جانے والے کاروباری مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔ سعودی عرب کی معیشت کے کئی شعبوں بشمول کیمیکل انڈسٹری، رئیل اسٹیٹ اور سیاحت میں پاکستانی سرمایہ کاروں کیلیے بھی پرکشش مواقع موجود ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سعودی عرب کے تجارتی وفد کے دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کو مزید فروغ دینے میں مدد ملے گی۔وفد سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد شکیل منیر کا کہنا تھا کہ کان کنی و معدنیات، تیل و گیس، ہاوسنگ و تعمیرات، انفراسٹرکچر کی ترقی، توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، فوڈ پروسیسنگ، خوردنی تیل، لاجسٹکس، کھیل، رینیوایبل انرجی، سیاحت اور مہمان نوازی سمیت پاکستان کی معیشت کے متعدد شعبوں میں سعودی عرب کے سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش مواقع موجودہیں ۔
پاکستان کا دورہ کرنے والے سعودی سرمایہ کاروں کے وفد نے وزیراعظم شہباز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں پرزبردست خوشی کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان سعودی بھائیوں کا دوسرا گھر ہے۔ وقت آگیا ہے کہ باہمی تعاون کو شراکت داری میں بدلا جائے۔حقیقت ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کو اقتصادی تعاون بڑھانے کے لیے مشترکہ طور پربھرپور انداز میں کوششیں کرنی چاہییں۔ اس سے دونوں ملکوں کی معیشت بہتر ہو گی اور باہمی تجارت کا تخمینہ بھی پہلے سے کئی گنا بڑھایا جاسکتا ہے۔ سعودی سرمایہ کاروں کا دورہ پاکستان بہت کامیاب رہا ہے اور کئی اہم معاہدوں سمیت دونوں ملکوں کے سرمایہ کاروں کو بہت سی نئی چیزیں سمجھنے کو ملی ہیں ، جس کے ان شاء اللہ دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ امید کی جاتی ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کو بہت زیادہ فروغ ملے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button