Columnعبدالرشید مرزا

 سود کے بغیر معاشی ترقی .. عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا
میں سراج الحق، امیر جماعت اسلامی پاکستان سے ’’سود کے بغیر معاشی ترقی‘‘کے موضوع ملاقات کے لیے ان کی رہائش گاہ پر حاضر ہوا، کیونکہ آج میرا ملک معاشی بحران کا شکار ہے، واحد ایسی شخصیت ہیں جو اپنی ذات کا نہیں بلکہ پاکستان اور اسلام کا درد محسوس کرتے ہیں۔ میں نے ایسے سوالات کا انتخاب کیاجو شاید کوئی ایسا فرد دے سکتا ہے جو دنیا کے جدید امور کو چلانے کا فن جانتا ہو یا یہ کہ سکتے ہیں پہلے کسی مذہبی جماعت کی قیادت کو ایسے سوالات نہیں کئے تھے اگر کئے تو تسلی بخش جواب نہیں تھا۔ میں نے سوالات سے پہلے پاکستان کی معیشت پر کچھ بات کی، آج پاکستان کے بیرونی قرضے اسٹیٹ بنک کے مطابق 31 مارچ 128,920 ملین ڈالر ہیں جبکہ اندرونی اور بیرونی قرضے اسٹیٹ بنک کے مطابق 51.058 ٹریلین روپے ہیں۔ شرح سود 13.75فیصد ہے جی ڈی پی سے قرضوں کی شرح 87فیصد ہے، ہر پیدا ہونے والا بچہ 2لاکھ 27 ہزار کا مقروض ہے۔
پاکستان کے اقتصادی سروے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی قومی پیداوار جو اس وقت 47 ہزار 709 ارب روپے (یعنی 299 ارب امریکی ڈالرز) بتائی جاتی ہے، اس کے 87 فیصد سے زائد کے برابر پاکستان نے قرضے لے رکھے ہیں۔جو بنگلہ دیش کا 38.9 فیصد ہے ۔ مہنگائی کی شہرمیں 13.76 فیصد، گاؤں میں 15.94 فیصد اور ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان 180 ممالک میں 140ویں نمبر پر ہے۔
کچھ بنیادی معاشی امور پر بات کرنے کے بعد میں نے پہلا سوال کیا کہ اگر آپ وزیر اعظم ہوتے تو آپکا غیر سودی بجٹ کیسا ہوتا۔ جس پر انہوں نے کہا سرمایہ دارانہ نظام کے دلدادہ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ سود کے بغیر معیشت کیسے کام کرے گی جبکہ آج دنیا میں اسپین، جرمنی، ڈنمارک، سویڈن، سوئٹزرلینڈ اور جاپان ایسے ممالک ہیں جہاں زیرو فیصد شرح سود ہے، سودی بجٹ کی وجہ یہ ہوتی ہے جب آپ کے اخراجات آمدن سے زائد ہوں تو آپ قرضے لے کر اخراجات پورے کرتے ہیں۔ ہم جب بجٹ بنائیں گے تو آمدن سے زائد اخراجات پر مبنی بجٹ نہیں بنائیں گے، ہم اپنی آمدن میں اضافہ کریں گے۔
سود کو ختم کریں گے جس سے پیداواری خرچے میں کمی آئے گی اور اشیاء سستے داموں بننے سے برآمدات میں اضافہ ہوگا، سرمایہ کار کو سود کی بجائے ملک کے بڑے پراجیکٹس میں حصہ دار بنائیں گے جس سے ان کی آمدن بڑھے گی، پھر میں نے پوچھا جو سب سے اہم تھا کہ آپ آئی ایم ایف سے چھٹکارا کیسے حاصل کریں گے،انہوں نے بتایا میں خیبر پختونخوا کا سنیئر وزیر خزانہ اور شوکت ترین مرکز میں وزیر خزانہ تھے۔ میرے وزیر بننے سے پہلے خیر پختونخوا کی حکومت مرکز سے قرض لے کر نظام چلاتی تھی، میرے وزیر بننے کے بعد میں شوکت ترین کے پاس حاضر ہوا اور کہا میں خیبر پختونخوا کا قرض واپس کرنے آیا ہوں، آج سے میرا صوبہ قرض اور سود سے پاک ہو جائے گا، شوکت ترین نے جواب دیا اس سے تو ہمیں نقصان ہوگا کیونکہ آپ کو قرض دے کے ہم سود لیتے تھے ہماری آمدن کا زریعہ تھا۔ انہوں نے کہا اگر ہم خیبرپختونخوا کو سود سے پاک کر سکتے ہیں تو آئی ایم ایف سے چھٹکارا کیوں حاصل نہیں کرسکتے۔ میں نے اگلا سوال پوچھا کہ معاشی ترقی کے لیے آمدن کے ذرائع کیا ہوں گے، آپکے دور حکومت وہ کیسے ممکن ہوگا،
آپ ملکی آمدن میں اضافہ کیسے کریں گے، ان کا جواب بڑا دلچسپ تھاکہ پاکستان میں قریباً 5ہزار ارب کی سالانہ کرپشن ہوتی ہے جسکی وجہ سے ملک کا 3 سو فیصد ریونیو کسٹم، ایف بی آر اور دوسرے اداروں کی وجہ سے حاصل نہیں ہوپاتا کرپشن کو ختم کرتے ہوئے اس کی وصولی یقینی بنائیں گے، غریب پر بوجھ ختم کرینگے۔ سب سے پہلے کرپشن کو ختم کرینگے۔ ہمارے ملک کی ترقی کی بنیاد زراعت ہوگی کیونکہ پاکستان کا کل رقبہ 79.6ملین ایکڑ ہے، جس میں سے 23.7 ملین ایکڑ زرعی رقبہ ہے جو کل رقبے کا 28فیصد بنتا ہے۔ اس میں سے بھی 8ملین ایکڑ رقبہ زیرِ کاشت نہ ہونے کے باعث بے کارپڑا ہے، معاشی ترقی کیلئے پانی کی فراہمی کو بہتر بناتے ہوئے زیر کاشت رقبہ کو ہر سال 20 فیصد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی زرعی درآمدات سالانہ 9 ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ان درآمدات میں زیادہ تر خوردنی تیل، کپاس، گندم ، چینی ، چائے اور دالیں وغیرہ شامل ہیں، اچھے بیج، پانی کی فراہمی، کھاد اور کسانوں کی ٹریننگ اور مالی معاونت سے درآمدات کی بجائے ساٹھ اور ستر کی دھائی کی طرح برآمدات میں اضافہ کیا جاسکتاہے۔ جاپان، جرمنی، امریکہ میں گندم کی پیداوار 150 من فی ایکڑ کے قریب ہے جبکہ پاکستان میں صرف 50 من فی ایکڑ کے قریب ہے۔ تیل دار اجناس مثلاًسرسوں، سورج مکھی، سویا بین کے حوالے سے بات کرنا اس لیے ضروری ہے کہ کم و بیش 4 ارب ڈالر کا قیمتی زر مبادلہ تیل دار اجناس کی سالانہ درآمدات پر خرچ ہو رہا ہے۔ اچھی پیکنگ، کسانوں کی تربیت سے پھل کی برآمدات میں سالانہ 1.00 بلین ڈالر کا آسانی سے اضافہ ہوسکتا ہے۔
پاکستان کے کُل رقبے کا صرف 4 فیصد جنگلات ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف اکنامک ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں درختوں کی بے دریغ کٹائی سے سالانہ 27ہزار ہیکٹر سے زائد اراضی بنجر ہو رہی ہے جو دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آئندہ 30 سے 40 سال تک پاکستان مکمل طور پر بنجر ہوجائے گا، جنگلات میں اضافہ ملکی ترقی میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔پاکستان آئی ٹی سیکٹر میں 635 ملین ڈالر جبکہ انڈیا 200 بلین ڈالر کی برآمدات کرتا ہے موثرحکمت عملی اور سہولیات کی فراہمی سے ایک سال کے اندر سالانہ 5 بلین سے زائد ڈالر کا حصہ ڈال سکتا ہے۔پاکستانی معیشت قریباً 3.3 ملین چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں پر مشتمل ہے جس کو ایک سال میں 05 ملین تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ ایس ایم ایز پاکستان کی جی ڈی پی کا 30فیصد اورقریباً 25فیصد برآمدات پر مشتمل ہیں،جو ہر سال 20 فیصد کی گروتھ سے 5 سال میں 7 ملین تک پہنچ سکتی ہیں۔ پھر میں نے پوچھا آج وطن عزیز میں بیروز گاری کا یہ حال ہے کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق 31فیصد نوجوان بیروزگار ہیں پچھلے دو سال میں معاشی تنگدستی کی وجہ سے خودکشی کی شرح 3 سے 8 فیصد ہوگئی ہے جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔ پاکستان میں 8 کروڑ افراد غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کا آپکے پاس کیا حل ہے جس میں موجودہ حکمران ناکام ہیں۔
سراج الحق نے جواب دیکر یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک بہترین ماہر معیشت ہیں انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے مختلف علاقوں میں ٹیکس فری انڈسٹریل زونز بنائیں گے جہاں راء میٹریل اور لیبر سستی ملے گی جیسے بوریوالہ، وہاڑی کے علاقہ میں کپاس زیادہ ہوتی ہے، ادھر ٹیکسٹائل انڈسٹری لگائیں گے، ٹرانسپورٹ کے اخراجات بھی کم ہوں گے، برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان میں آئی ٹی سیکٹر کی برآمدات 635 ملین ڈالر کی ہے جبکہ انڈیا میں 200بلین ڈالر کی ہے ہم ہر بڑے شہر میں سافٹ وئیر پارکس بنائیں گے جس سے ہماری برآمدات ہر سال اضافہ 5 بلین ڈالر اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ میرا اگلا سوال بہت اہم تھا کہ پاکستان میں یونیسف کی رپورٹ کے مطابق 5 سے 16 سال تک کے 2 کروڑ 28 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں اس کا کیا حل ہے آپکے پاس انہوں نے کہا جب ہمارے آمدن کے ذرائع بڑھیں گے تو ہم تعلیم مفت دیں گے اور پاکستان میں جدید یونیورسٹیز بنائیں گے جو معاشی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کریں گی۔ ساتھ ہی میں نے اگلا سوال کیا کہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق گندے پانی کی وجہ سے 40فیصد اموات ہوتی ہیں ہر پانچواں فرد گندے پانی کی وجہ سے بیماری کا شکار ہے۔ صرف ہیپاٹائیٹس کی وجہ سے روزانہ 325 اموات ہوتی ہیں۔
ابھی میں بات کر ہی رہا تھا تو انہوں نے کہا ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے انڈسٹریل زونز بنائیں گے جو شہر سے باہر ہوں گے، اور صاف پانی کی فراہمی ہماری ترجیح اول ہوگی جس کے لیے ہم نہروں پر ٹیوب ویل لگائیں گے جہاں سے گاؤں اور شہروں میں صاف پانی فراہم کریں گے۔انہوں نے کہا ہمیں کرنٹ اکاونٹ خسارہ کم کرنا ہوگا، غیر ضروری چیزوں کی درآمد بند کرنے سے مجموعی طور پر 10 سے 11 ارب ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ آئل کی ادائیگی ہے اور ایک بڑا خرچہ تھرمل سے پیدا آئل سے بجلی کی فراہمی ہے اور ہائیڈل سے صرف 29 فیصد بجلی پیدا ہو رہی ہے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس پاکستان میں انرجی کے بحران کو ختم کر سکتے ہیں جس سے انڈسٹری اور برآمدات میں اضافہ ہوگا اور ملک ترقی کرے گا۔
پاکستان میں فوری طور پر غیر ترقیاتی اخراجات کو کم کرتے ہوئے وزیراعظم ہاوس، ایوانِ صدر میں سادگی اختیار کرتے ہوئے معیشت میں بہتری لائیں گے۔پاکستان کے غیور لوگو مجھے اب یقین ہوگیا ہے کہ جماعت اسلامی اور سراج الحق عام مذہبی جماعت اور قیادت نہیں بلکہ دور حاضر کے جدید علوم کی دسترس رکھتے ہیں دیانتدار ہونے کے ساتھ باصلاحیت بھی ہیں، یہ لوگ پاکستان کی معیشت کو ترقی کے راستے پر گامزن کرسکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button