ColumnNasir Naqvi

گل لالہ، سائیکل اور پٹرول پمپ .. ناصر نقوی

ناصرنقوی

میرے کالم کی سرخی دیکھ کر حیران و پریشان نہ ہوں، یہ اثرات ہیں برصغیر کے ممتاز افسانہ نگار، کالم نویس اور ناول نگار جناب ’’انتظار حسین‘‘ کی قربت کے، کیونکہ ہم نے برسوں ان کی صحبت میں گزارے ہیں اس لیے کبھی کبھار رگ پھڑکتی ہے ان کی یاد میں اور ہم بھی بہک جاتے ہیں۔ بظاہر گل لالہ یعنی ’’ٹیولپ‘‘ ، سائیکل اور پٹرول پمپ کا آپس میں کوئی رشتہ دکھائی نہیں دیتا لیکن یہ ’’ہالینڈ‘‘ کے دارالحکومت ’’ایمسٹرڈم‘‘ کے حوالے سے انتہائی قریبی رشتہ دار ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میری طرح آپ نے بھی پہلی مرتبہ ایمسٹرڈم کا نام نامی بین الاقوامی ہاکی کے حوالے سے ہی سنا ہو گا کبھی ہم دنیائے ہاکی میں بڑے معتبر تھے اس وقت ہاکی کے میدان میں ہالینڈ بھی ایک بڑا نام ہوا کرتا تھا اور جب وہ پاکستان کے مدمقابل ہوتا تو دنیا اس مقابلے کو بڑی اہمیت دیتی تھی لیکن اس وقت اکثرکامیابی پاکستان کا نصیب ہی بنتی تھی۔ ہالینڈ اور اس کے شہر ایمسٹرڈم میں ہاکی کی تربیت کے حوالے سے دنیا کی بہترین سہولیات ’’جب اور اب‘‘ دونوں ادوار میں موجود تھیں لیکن اب ہماری ہاکی کو اپنوں کی نظر اور بدنیتی کھا گئی۔ حقیقت میں ہماری جیت قصّہ ماضی ہے۔ حال میں شکست در شکست مقدر بنا ہوا ہے ۔ پہلے ہم چمپینز  کے بھی چیمپئن ہوا کرتے تھے اور اب ہمارا مقام اوپر سے نہیں، نیچے سے اوّل ہوتا ہے، ایک آدھ درجے ترقی پر ہم نہال ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں قومی کپتان عمر بھٹہ کی قیادت میں پاکستان نے دوستانہ میچ میں ہالینڈ کو شکست دی تو ہم پھولے نہیں سما رہے تھے۔ اب ایشیائی مقابلے میں اللہ کرے کہ ہماری کوششیں کامیاب ہوں، عمر بھٹہ تو پرعزم بھی ہیں اور پُرامید بھی۔
بات ’’گل لالہ ‘‘سے چلی تھی اور ہاکی کے میدان میں پہنچ گئی۔ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں اس کی پہنچ ہالینڈ کے ذریعے ہی بتائی جاتی ہے۔

برسوں پہلے مجھے ایک نجی دورے پر ’’ایمسٹرڈم‘‘ جانے کا اتفاق ہوا یہ سفر بھی خاصا ایڈونچر تھا، ہم اپنے چھوٹے بھائی زاہد نقوی ، دو دوستوں جاوید اور عمر خطاب کے ساتھ بائی روڈ پیرس سے ہالینڈ کے لیے نکلے، کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد جب ہالینڈ کے داخلی دروازے پر پہنچے تو موٹر وے سے شہر آنے سے پہلے ہی ایک ٹریفک سارجنٹ نے دبوچ لیا، اس کے اشارے پر گاڑی روکی اور ڈیمانڈ کے مطابق دستاویزات فراہم کر دیں، لیکن سارجنٹ صاحب پاکستانی طبیعت کے لگے، مطمئن نہیں ہوئے، فرمانے لگے ’’آپ پاکستانی ہیں تو پاسپورٹ دکھائیں‘‘ زاہد نقوی سمیت ہم سب نے پاسپورٹ دکھا دئیے۔ اس نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے عمر خطاب سے بھی پاسپورٹ مانگا، عمر خطاب نے ڈرائیونگ لائسنس اور حکومت فرانس کا جاری کردہ ریزیڈینشل کارڈ پیش کر دیا۔ وہ بولے ،یہ سب ٹھیک ہے لیکن تمہارے پاس پاکستانی پاسپورٹ کیوں نہیں ہے؟ عمر نے جواب دیا،اس کی ضرورت نہیں، میں پرانا رہائشی ہوں فرانس کا، دستاویزات دکھا دی ہیں آپ کوکہنے لگا اگر یہ درست ہے تو زاہد نقوی بھی رہائشی ہے پرانا، اس کے پاس پاسپورٹ کیوں ہے؟ خاصی تکرار ہوئی لیکن اس نے ہماری کوئی بات نہیں سنی اور حکم دیا کہ میرے پیچھے آئو۔ وہ اپنی ہیوی بائیک پر آگے آگے چلا اور ہم بھی پیچھے پیچھے چل کر ایک پٹرول پمپ پر پہنچے، وہاں اس کے بڑے افسران موجود تھے ہم نے وضاحتیں پیش کیں تاہم جواب وہی ملا کہ عمر خطاب نہیں جاسکتا، آپ سب جاناچاہیں تو ہالینڈ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ ہم نے کہاکہ ہم میں سے کوئی ڈرائیو نہیں کر سکتا، اسی لیے عمر کو ساتھ لائے ہیں۔ ایک افسر بولااگر یہ بات درست ہے آپ سب واپس جائیں، اس نے سارجنٹ کو حکم دیا انہیں واپسی کا راستہ دکھائو اور وہ ہمیں موٹر وے کا راستہ دکھا کر گڈبائی کہتا ہوا واپس چلا گیا، اور ہم پھر ایک طویل سفر کے بعد پیرس پہنچ گئے۔
ہم تو نکلے ہی وطنِ عزیز پاکستان سے سیرو تفریح کے لیے تھے ،اس لیے سفر اور تھکاوٹ کے باوجود ہمارا جذبہ ماند نہیں پڑا، عمر خطاب شرمندہ تھے کہ ان کی وجہ سے رنگ میں بھنگ پڑا، اس لیے انہوں نے بہانے، بہانے معذرت کر لی لیکن میں زاہد بھائی اور جاوید صاحب کے ساتھ بذریعہ ٹرین الصبح ہی نکل گیا، یہ مشاہدہ اس لیے اچھا رہا کہ وہاں نہ ٹرین لیٹ ہوتی ہے اور نہ ہی اس میں پاکستانی ٹرین کی طرح جھٹکے لگتے ہیں۔ سفر انتہائی آرام دہ اور بہترین رہا کہ افسوس ہوا کہ ہم نے یہ فیصلہ تاخیر سے کیوں کیا؟
مجھے یاد نہیں کہ کتنی دیر لگی کیونکہ اب برسوں بیت چکے ہیں ’’ایمسٹرڈم‘‘ پہنچ کر باہر نکلے تو خوشگوار اور بھینی بھینی خوشبو سے فضا معطر تھی۔ میں نے دریافت کیا کیسی خوشبو ہے؟زاہد اور جاوید یک زبان ہو کر بولے،یہ شہر گل لالہ ہے اس کی مہک ہی تو سیاحوں کو یہاں آنے پر مجبور کرتی ہے۔ پیدل ہی تھوڑی دور چلے تو ہر طرف ٹیولپ کی خوبصورت دکانیں اور سٹالز سجے ہوئے تھے۔ بائیں جانب نظر پڑی تو عجیب منظر تھا۔ وسیع و عریض سائیکل سٹینڈ تھا اور سائیکلوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا یہاں کوئی ورکشاپ یا فیکٹری ہے؟
جواب ملا نہیں۔ میں نے حیران ہو کر دوبارہ پوچھا اتنی سائیکلیں؟کہنے لگے،جناب یہ دور دراز سے آنے والوں کی خدمت کے لیے ہیں۔ میرا سوال تھا کیا مطلب؟۔ جاوید صاحب بولے کوئی بھی اپنا کارڈ دے کر سائیکل لے سکتا ہے۔ لڑکیاں، لڑکے کرائے پر سائیکل استعمال کرتے ہیں۔ سارا دن کام کاج اور سیرو تفریح سے فارغ ہو کر واپس جمع کرا کے ٹرین سے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ مجھے حیرانگی ہوئی کہ کوئی غریب اور ترقی پذیر ملک تو ہے نہیں ہالینڈ، پھر بھی سائیکل کا استعمال اس قدر زیادہ تھوڑا سا فاصلہ اور طے کیا، اپنے مال روڈ سے دس گنا بڑی شاہراہ دیکھی، سڑک پر بس، کار، سائیکل سب کے لیے الگ الگ ٹریک بنے ہوئے تھے اور صاف ستھری خوبصورت سڑک پر ٹریفک انتہائی ترتیب اور سلیقے سے رواں دواں تھی، خوبصورت بلند و بالا عمارتیں بھی مناظر قدرت میں رنگ بھر رہی تھیں۔ ہم تو اس شہر گل لالہ کے خیالوں میں گم ہو گئے، زاہد نقوی نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ذرا غور سے دیکھیں اس شاہراہ سے آگے کیا ہے؟ دیکھا کہ جیسے دور چھوٹے بڑے جہاز سمندر میں کھڑے ہیں۔میں نے پوچھا سامنے سمندر ہے کیا؟ بولےنہیں، نہیں۔ یہ نہر ہے اس شہر کی یہ بھی انفرادیت ہے کہ اس میں قریباً چار سو سے زیادہ نہریں ہیں جنہیں چھوٹے جہاز وں کے ذریعے مال برداری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ نہر ہر بڑی شاہراہ کے ساتھ موجود ہے اسی لیے آپ کو ٹریفک میں ٹرک دکھائی نہیں دیں گے نہ ہی کوئی اور سست رفتار سواری۔ پھر کہنے لگے شہر بھرمیں ٹیولپ بھرا پڑا ہے لیکن جن علاقوں میں سٹالز نہیں وہاں آپ پٹرول پمپ سے خرید سکتے ہیں، اس قدر بدذوقی ،کہاں گل لالہ کی خوشبو، کہاں پٹرول کی بو، بولے ،اب آپ بُرا منائیں تو آپ کی مرضی، یہاں تو یہی رواج ہے۔
میں نے پوچھا اور کچھ؟ زاہد صاحب بولے ایک رواج اور بھی انتہائی اہم ہے، یہاں تمام بازار اور دکانیں الصبح کھلتی ہیں اور شام پانچ بجے بند ہو جاتی ہیں لیکن شہر کی گہما گہمی میں ہرگز کمی نہیں آتی، سیاح ہی نہیں مقامی خاندان بھی پھر سیرو تفریح کے لیے نکلتے ہیں۔
پاکستان کی طرح رات گئے تک شاپنگ کا رواج نہیں، یہ زندہ قوم ہے۔ طرح طرح کے کھانوں اور مشروبات سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور صبح کے لیے پھر کام کی فکر کرتے ہیں ، پاکستانیوں کی طرح لمبی تان کر نہیں سوتے، بلکہ پاکستانی دیہی علاقوں کی طرح صبح بھی جلدی ہوتی ہے۔
میں نے کہا ،زندہ قوم تو ہم بھی ہیں، بس وقت کی قدر نہیں کرتے لہٰذا وقت ہماری قدر بھی نہیں کرتا، باصلاحیت جفاکش، محنتی لوگوں کی کمی نہیں لیکن وقت کی فضول خرچی سے باز نہیں آتے، راتوں کو جاگتے ہیں، صبح سویرے نہیں اٹھتے، صرف پاکستان کے شہر چنیوٹ سے کچھ سیکھ لیں تو حالات بہت بدل سکتے ہیں۔ اس چھوٹے سے شہر میں کاروباری پابندیاں ازخود رائج ہیں۔
صبح جلدی ہوتی ہے تو عشا ء کے بعد بازار بھی بند ہو جاتے ہیں اگر ایک شہر اس عادت کو اپنا سکتا ہے تو باقی شہروں کو کیوں پابند نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ہم اور آپ بے قاعدہ سے باقاعدہ ہو کر نہ صرف اپنے انداز بدل لیں بلکہ وقت کی قدر کریں،اپنے آپ اجتماعی مفاد میں سسٹم میں رضاکارانہ طور پر آ جائیں تو زندگی بدل سکتی ہے، ایمسٹرڈم کی طرح گل لالہ نہ بھی ہو پھر بھی دھرتی ماں کو گل گلزار بنا سکتے ہیں۔ دنیا کی تمام نعمتیں، تمام موسم اور زمینی خزانے موجود، پھر بھی ترقی پذیر آخر کیوں؟ ہمارے حکمرانوں کو معاشی صورت حال کی بہتری کے لیے سخت اور کٹھن فیصلے کرنے ہوں گے، پھر سب قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ اب دنیا میں ایک ہی جنگ ہے ’’معاشی‘‘ جس کی معیشت مضبوط ، اس کی قوم خوشحال اور حکومت مضبوط ورنہ بدحالی اور بے حالی ہی نصیب بنے رہیں گے کیونکہ قرض دار کبھی پائوں پر کھڑا نہیں ہو پایا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button