ColumnRoshan Lal

نیب آرڈیننس ترامیم کا مستقبل ۔۔ روشن لعل

عمران خان کے دور حکومت میں تعمیر کی گئی مہنگائی کی بلند و بالا عمارت کی پیشانی پر میاں شہباز شریف اور ان کے حکومتی اتحادیوں کے نام تختی لگ چکی ہے۔گو کہ اس اتحادی حکومت کے ترجمان یہ حقیقت بیان کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں جو فصل کاٹنی پڑ رہی ہے وہ ان کی اپنی بوئی ہوئی نہیں مگر عمران خان کا میڈیا سیل پنے مخالفوں کی یہ کوشش ناکام بنانے کے لیے پراپیگنڈے کا ہر ہتھیار استعمال کررہا ہے۔
اگرچہ دونوں سیاسی حریف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی یکساں کوششیں کر رہے ہیں مگر حکومت کے لیے یہ نظر انداز کرنا ممکن نہیں کہ عوام اس وقت مہنگائی سے کس حد تک پریشان ہیں۔ عوام اگر پریشان ہوں تو یہ بات کسی بھی حکومت کے لیے اطمینان بخش نہیں ہوتی۔
اس غیر مطمئن اتحادی حکومت کے لیے یہ بات کسی حد تک راحت کا باعث ہو سکتی تھی کہ اس نے صدرعارف علوی کی طرف سے بے شمار روڑے اٹکانے کے باوجود نیب ترمیمی بل کو قانون بنا دیا ۔ اس راحت کو اتحادی حکومت نے ابھی صحیح طور پر محسوس بھی نہیں کیا تھا کہ عمران خان نے پارلیمنٹ کے پاس کیے گئے نیب ترمیمی بل کو این آر او ٹو قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئین کی رو سے پارلیمنٹ ہی اس ملک کا سب سے اعلیٰ و ارفع ادارہ ہے ، مگرپارلیمنٹ کے عالی مرتبت ہونے کے باوجود اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ سپریم کورٹ نے این آر او ون کا کیا حشر کیا تھا۔
یہ بات درست ہے کہ جس حکومتی آرڈر کو عمران خان این آر او ون کہتے ہیں اس پر پارلیمنٹ کی مہر نہیں لگی تھی مگر یہاں یہ تاریخ بھی رقم ہو چکی ہے عدالتی خوشنودی کے لیے پارلیمنٹ کو اپنی ہی منظور کی ہوئی اٹھارویں ترمیم میں ردو بدل کرتے ہوئے کیسے اور کیوں انیسویں ترمیم پاس کرنا پڑی تھی۔یہاں انیسویں ترمیم کا ذکر کچھ تلخ یادیں تازہ کرنے کے علاوہ یہ احساس اجاگر کرنے کے لیے بھی کیا جارہا ہے کہ جب بھی پارلیمنٹ کی برتر حیثیت دیگر اداروں کے سامنے پتلی (Compromise) ہوتی ہے تو اس میں کچھ دستانے پہنے ہاتھوں کے ساتھ بعض سیاستدانوں کے ننگے ہاتھوں کا بھی بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کے پاس کردہ نیب ترمیمی بل کو عدالت کے دروازے تک لے جانے میں کوئی دستانوں والا ہاتھ کردار ادا کر رہا ہے یا نہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اس معاملے میں جو کردار عمران خان کے ننگے ہاتھوں کا ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ اس حوالے سے کچھ مبصروں کا کہنا ہے کہ جس طرح انیسویں ترمیم کی راہ ہموار کرنے والے سیاستدان آج پچھتا رہے ہیں،
مستقبل میں اسی طرح کا پچھتاوا نیب ترمیمی بل چیلنج کرنے والوں کو بھی ہو سکتا ہے۔ نیب ترمیمی بل کو عدالت میں چیلنج کرنے والوں کا مستقبل اور نیب ترمیمی بل کا ابھی عدالت میں کیا حال ہوگا اس معاملے میں فی الحال کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے۔ اس معاملے میں خاموش رہتے ہوئے یہاں یہ ضرور باور کرایا جاسکتا ہے کہ پرویز مشرف کے جاری کردہ نیب آرڈیننس میں ترمیم کے حوالے سے مختلف سیاسی پارٹیاں ماضی میں کس موقف کا اظہار کرتی رہی ہیں۔
یاد رہے کہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد احتساب کے حوالے سے ان کے تیور دیکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کو کچھ خدشات پیدا ہوئے تھے جس پرانہوں نے قومی اسمبلی کا ایک خاص اجلاس بلایا تھا۔ اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلایا گیا قومی اسمبلی کایہ اجلاس 17 اکتوبر 2018 کومنعقد ہوا اور ایک دن کی کارروائی کے بعدہی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ ایک ہی دن میں ختم ہونے والے اس اجلاس کی خاص بات اس میں کی جانے والی تین تقاریر تھیں ۔ان تین تقریروں میں ملک کی تین بڑی پارٹیوں کے نمائندوں شہباز شریف،
سید خورشید شاہ اور فواد چودھری نے اپنا مئوقف پیش کیا تھا۔ان تینوں کی تقاریرمیں اختلاف رائے کے باوجود یہ بات یکساں تھی کہ انہوں نے اپنے پیش کردہ مئوقف میں ملک میں نافذ احتساب کے نظام کو غیر تسلی بخش اور قابل ترمیم قرار دیاتھا۔
یہ مئوقف خورشید شاہ کی تقریر سے بھی ظاہر ہوا جن کی جماعت پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں احتساب کے قانون نیب آرڈیننس کو تبدیل کرنے کی کوشش کی، یہی مئوقف قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا بھی تھا جن کے جماعت مسلم لیگ نون نے پہلے تو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں نیب قوانین میں ترمیم سے انکار کیا اور پھر اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں اس قانون میں تبدیلی پر کوئی توجہ نہ دی اور حیران کن طور پر احتساب کے نعرے پر برسراقتدار آنے والی پی ٹی آئی کے فواد چودھری نے بھی اپنی تقریر میں نیب قانون میں تبدیلی پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ فوادچوہدری کی رضامندی کے باوجود اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلایا گیا یہ اجلاس ایک ہی دن میں ہوگیا۔ اس وقت تک شاید کہیں یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ آئندہ نیب نے یہاں کس کا کس طرح سے احتساب کرنا ہے۔
یہ باتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں کہ عمران خان کے دور حکومت میں نیب نے کس کا احتساب ضرورت سے زیادہ آ نکھیں کھول کر کیا اور کس کے لیے لاپرواہی سے اپنی آنکھیں بند کیے رکھیں ۔کو ن نہیں جانتا کہ عمران خان انصاف کی باتیںتو بہت بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں مگر حقیقت میں ان کے دور میں جو کچھ ہوتا رہا اسے کسی بھی طرح مبنی بر انصاف نہیں کہا جا سکتا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نہ صرف عمران خان کے ساتھی اور حواری بلکہ ان کی اپنی ذات بھی بدعنوانی کے سخت الزامات کی زد میں ہے۔ عمران خان نے انسداد کرپشن کے معاملے میں جس طرح کڑوا کڑوا تھو تھو اور میٹھا میٹھا ہپ ہپ کا رویہ اپنا ئے رکھا یہ سب پر عیاں ہے۔ خود کو انصاف کا داعی ظاہر کرنے والے عمران خان کے دور حکومت میں بھی احتساب عین اسی طرح ہوا جس طرح یہاں قیام پاکستان کے بعد احتساب کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں جس طر ح احتساب کے نام پر،پروڈا، پوڈا اور ایبڈو جیسے قوانین بنائے اور پھر نیب جیسے اداروں کے ذریعے سیاسی مخالفین کو دبانے اور ان کی شخصیت کو مسخ کرنے کے لیے جو کاروائیاں کی گئیں، عمران خان کا دور ایسی ہی کارروائیوں کا تسلسل ثابت ہوا۔ماضی میں جس طرح سے احتساب ہوتا رہا اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد 1949 میں یہاں پروڈا (PRODA)قانون کے تحت احتساب کرتے ہوئے سندھ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو کو نااہل قرار دے دیا گیامگر جب ون یونٹ بنانے کی لیے ایوب کھوڑو کی ضرورت پیش آئی تویک جنبش قلم انہیںاہل قرار دے کر دوبارہ سندھ کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔
جس قسم کے احتساب کی مثال دی گئی ہے یہ عمران خان جیسے سیاستدانوں سے زیادہ کسی اور کی ضرورت رہی ہے ، یہ ضرورت اب باقی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ آنے والے وقت میں ہو جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button