ColumnRoshan Lal

نام بینظیر اور فہم بھی بینظیر .. روشن لعل

روشن لعل
زیر نظرتحریر بینظیر بھٹو شہید کی سالگرہ کے موقع پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کی ایک ادنیٰ سے کوشش ہے۔ بینظیر بھٹو وہ ہستی ہیں جن کاشمار پاکستان کے عظیم ترین لوگوں میںہوتا ہے۔ اگر پاکستان کے عظیم لوگوں کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو اس میں بہت سے ایسے نام بھی نظر آتے ہیں جنہیں عظمت کے مینار بنانے میں ریاست اور مخصوص ریاستی اداروں نے خاص کردار ادا کیا۔ بینظیر بھٹو شہید ان لوگوں کے برعکس ایسی یکتا مثال ہیں جن کی شخصیت مجروح کرنے کے لیے ریاستی اداروں کو انتہائی بے رحمی سے استعمال کرنے کی کوششوں کے باوجود بھی ان کی عظمت کو منفی پراپیگنڈے کے انبار کے نیچے دبایا نہ جاسکا۔ بینظیر بھٹو شہید کے فہم، دانائی اور شعوری بالیدگی کی مخالفت کرنے والے انہیں نیچا دکھانے کے لیے اگرچہ اپنی جہالت کی وجہ سے بے پناہ زہر اگلتے رہے لیکن اس ناقدری کے باوجود نہ صرف اندرون بلکہ بیرون ملک بھی محترمہ شہید کی عظمت کی گواہی میں انتہائی معتبر آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ امریکہ کی سابق خاتون اول، سابق صدارتی امیدوار اور سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے اس بیان کی نفی کون کرسکتا ہے جس میں انہوں تھا کہ بینظیر بھٹو دنیا کی وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے انہیں قطار میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑا۔
برطانیہ کی سابق وزیر اعظم تھریسا مے نے کہا تھا کہ بینظیر بھٹو کا دیا گیا مشورہ ان کے سیاسی میدان میں آنے کا محرک بنا۔ حالیہ دنوں میں نیوزی لینڈ کی موجودہ وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن نے بے نظیر بھٹو شہید کے متعلق جو کچھ کہا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محترمہ شہید کے کردار کو اب بھی اپنے لیے مشعل راہ سمجھتی ہیں۔ ہماری جس شہید لیڈر کے کردار کو ایک ملک کی وزیر اعظم اپنے لیے مشعل راہ سمجھتی ہے اس کردار کی یادوں کو ذہنوں میں تازہ کر کے ہم نہ صرف بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں بلکہ یہ ادراک بھی حاصل کر سکتے ہیںکہ بے نظیر بھٹو شہید کے فہم کو سمجھنے میں ہم سے کہاں کہاں غلطیاں سرزد ہوئیں۔
بینظیر بھٹو نے تاریخ کے اوراق پر اپنے فہم کے ایسے بہت سے نقش چھوڑے جنہیں ان کی زندگی میں مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے جغادریوں نے ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔ مگر تبدیل شدہ صورتحال یہ ہے کہ ماضی میں بینظیر کے فہم کو رد کرنے والے آج ان ہی کی باتوں کا پرچار کرتے نظر آرہے ہیں۔ ضیا دور میں طویل جلاوطنی کے بعد پاکستان آمد پر شہر لاہور میں ہونے والے اپنے فقید المثال استقبال کے دوران جب بینظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو امریکی پرچم نذر آتش کرنے سے روکا تو دائیں اور بائیں بازو کی تخصیص کے بغیر ان کے متعلق کئی لوگوں نے یہ فتویٰ جاری کر دیا کہ وہ امریکہ کے مفادات کا دفاع کرنے کے لیے امریکی ایجنٹ بن کر پاکستان آئی ہیں ۔ یاد رہے کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب افغانستان میں موجود سوویت فوجوں اور امریکی ایما پر لڑنے والے مجاہدین کے درمیان جنگ اپنے عروج پر تھی۔ بائیں بازو کے لوگ اگر اس وقت افغانستان میں آنے والے انقلاب کوپاکستان سے چند قدم دور تصور کر رہے تھے تو دائیں بازو والے یہ دعوے کر رہے تھے کہ افغانستان میں انقلابیوں کے قدم اکھڑ چکے ہیں۔
ان دونوںقسم کے لوگوں میں سے ایک گروپ سوویت یونین کا سورج ڈوبنے کا اندازہ کیے بغیر اس سے سرخ سویرے کی امیدیں لگائے بیٹھا تھا اور دوسرا گروپ کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر امریکی مفادات کے لیے لڑی جانے والی جنگ کا ایندھن بن کرملک کو اندھیر نگری بنا رہا تھا۔مذکورہ حالات میں بینظیر بھٹو نے امریکی پرچم نذر آتش کرنے سے روک کریہ واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ کسی سپر پاور کی آلہ کار نہیں بلکہ آزاد پالیسیوں کی حامل ایک غیر جانبدار سیاستدان ہیں۔ بینظیر کے اس فہم کو سمجھے بغیر انقلاب کے خواب دیکھنے والوں نے بے ڈھڑک ان پر امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کر دیا۔جس بے نظیر کو امریکی ایجنٹ قرار دیا گیا تھا ان کی عوام سے لیے گئے ووٹوں کے بل پر بنائی گئی حکومت 18 ماہ بعد ہی ختم کر دی گئی۔ اگر بے نظیر بھٹو یہاں امریکی مفادات کا تحفظ کرنے آئی ہوتیں تو کیا کسی کو ان کی حکومت ختم کرنے کی جرأت ہو سکتی تھی۔ یہاں ایک اہم بات کا ذکر ضروری ہے کہ بے نظیر کی حکومت ختم کرنے سے پہلے ان کے خلاف لائی گئی عدم اعتماد کی تحریک کا سب سے بڑا سپانسر وہ اسامہ بن لادن تھا جسے ابھی امریکہ کی طرف سے دہشت گرد قرار نہیں دیا گیاتھا اور وہ بدستور مجاہدین کی صفوں میں شامل تھا۔ یہاں بینظیر بھٹو شہید کے خلاف مذہب کے نام پر اختیار کیے گئے عجیب وغریب اور معاندانہ رویے کا ذکر بہت ضروری ہے۔
افغانستان میں امریکی مفادات کے لیے لڑی جانے والی جنگ کی سب سے بڑی حامی ایک مذہبی جماعت نے 1988 میں بننے والی بینظیر بھٹو کی حکومت کو یہ کہتے ہوئے ناقابل قبول قرار دیاتھا کہ اسلام میں کسی عورت کے حکمران یا وزیر اعظم بننے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بعد ازاں دیکھا گیا کہ بنگلہ دیش میں اسی جماعت کی ہم نام اور نظریاتی اہم آہنگ سیاسی پارٹی نے 1991 میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم بننے والی خاتون خالدہ ضیا کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس کی حکومت میں اتحادی بن کر وزارتیں بھی حاصل کیں۔ دو مختلف ملکوں میں ایک ہی نام، نظریے ، عقیدے اور مذہب کی حامل جماعتوں کے برعکس رویوں سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ اصل میں اعتراض بینظیر کے عورت ہونے پر نہیں بلکہ ان کے فہم اور ترقی پسند نظریے پر کیا گیا تھا ۔
بینظیر بھٹو کے فہم اور ترقی پسند سوچ سے خائف لوگ صرف ان کے لیے ہی نہیں بلکہ اس ملک کے لیے بھی مشکلات کے پہاڑ کھڑے کرتے رہے۔ ان ناعاقبت اندیشوں کی طرف سے ملک کے لیے پیدا کی گئیں مشکلات کی وجہ سے آخر کار پاکستان کو FATF نے گرے لسٹ میں شامل کر لیا گیا ۔ اس ملک کو FATF کی گرے لسٹ میں شامل کرنے کا سامان پیدا کرنے والوں سمیت آج یہاں ہر کوئی گرے لسٹ سے نکلنے کا اہتمام ہونے پر بغلیں بجاتا نظر آرہا ہے ۔ چاہے سب لوگ بغلیں بجائیں مگر ایسا کرتے ہوئے بینظیر بھٹو شہید کی سالگرہ کے موقع پر کچھ لمحوں یہ بھی سوچ لیں کہ اگر پاکستان کو محترمہ شہید کے فہم کے مطابق چلایا گیا ہوتا تو کیا پھر بھی بیرونی دنیا اسےFATF کی گرے لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کرتی۔
بینظیر بھٹو نے اپنے سیاسی فہم کے تحت اس ملک میں مذہبی انتہاپسندی کے خاتمے اور جمہوریت کی بالادستی قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بینظیر بھٹو اس ملک کو FATF کی گرے لسٹ میں شامل ہونے سے بچائے رکھنے کے لیے جو کچھ کرنا چاہتی تھیں ان کی شہادت کے بعد عین وہی کچھ اس ملک کو FATF کی گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے کیا گیا۔ FATF کی گرے لسٹ سے نکلنے کی خوشی اصل میں بینظیر شہید کے اس بے نظیر کے فہم کی جیت کی خوشی ہے جسے یہاں عرصہ دراز تک رد کیا جاتا رہا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button