ColumnRoshan Lal

گلوبل وارمنگ اور ہم .. روشن لعل

روشن لعل
گلوبل وارمنگ یا ماحول کی تبدیلی ایک ایسا مظہر ہے ،جسے نہ صرف کرہ ارض بلکہ اس پر موجود حیات کی تمام انواع کی بقا کے لیے بھی شدید خطرہ تصور کیا جارہا ہے۔ نصف صدی پہلے تک ترقی یافتہ دنیا کے کچھ گنے چنے لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو چکا تھا کہ صنعتی عمل کی بے پناہ وسعت کی وجہ سے زمین کا ماحول تبدیل ہو رہا ہے لیکن اس وقت تک اس طرح کا کوئی اندازہ پیش نہیں کیا جاسکا تھا کہ آنے والی ہر دہائی کے بعد ماحول کس حد تک تبدیل ہوگا اور زمین پر موجود حیات پر تبدیل ہونے والے حالات کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ سائنسی تحقیق نے یہ باتیں راز نہیں رہنے دیں کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سیارہ زمین پر زندگی کی بقا کو کیا مشکلات درپیش ہیں اور ماحول کی جاری تباہی کے نتیجے میں ان میں کس حدتک اور کیسا اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایسے حالات میںضروری ہو گیا ہے کہ جس حد تک اور جس ذریعے سے بھی ممکن ہو ہر شعبہ زندگی سے وابستہ لوگوں کو آگاہ کیا جائے کہ ماحول کی تبدیلی یا گلوبل وارمنگ کے مضر اثرات کس طرح آفت کی شکل میں ہم نازل ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ مزید یہ کہ اس آفت سے تحفظ کے لیے ہمیں بحیثیت فرد اور سماج ، قومی و بین الاقوامی سطح پر کیا اقدام کرنے ہوں گے کہ جس سے سیارہ زمین اور اس پر موجود حیات غیر متوازن ہو چکے ماحول کے منفی اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔
یاد رہے قدرت نے زمیں پرزندگی کو انتہائی متوازن ماحول سے نوازا تھا۔ حضرت انسان کے اپنے ہاتھوں سے جب تک ماحول کا توازن بگڑنا شروع نہیں ہوا اسوقت تک اس پر ماحول کے بگاڑ کے منفی اثرات بھی ظاہر نہ ہوئے اور نہ ہی اس میں یہ احساس اجاگر ہوا کہ متوازن ماحول کا معیار کیا ہے۔ ماحول کا توازن بگڑنے کی بنیادی وجہ ایک طرف تو فضا میں کلورفلورو کاربن گیسوں کی موجودگی اور دوسری طرف کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین وغیرہ کا ایک خاص شرح سے زیادہ ہونا ہے۔ واضح رہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے معمول کے مطابق اخراج اور خاص شرح سے فضا میں موجودگی نے نے کئی ہزار سال تک تو ماحولیاتی توازن کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن گذشتہ دو صدیوں کے دوران جیسے جیسے صنعتی عمل میں معدنی تیل اور کوئلے کا استعمال زیادہ ہواویسے ویسے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی گیسوں کا اخراج بھی زیادہ ہوا ۔ اس عمل کے تسلسل کی وجہ سے آخر کار قدرت کے قائم کردہ ماحول کا توازن بگڑ گیا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ زمین پر ماحول کا توازن کب بگڑنا شروع ہوا تو اس سلسلے میں کہا جاسکتا ہے کہ صنعتی ترقی کے دور کے آغاز کے ساتھ ہی زمین پر ماحول کے غیر متوازن ہونے کی بنیادیں رکھ دی گئی تھیں۔اس حقیقت سے یہ نتیجہ ہر گز اخذ نہیں کیا جانا چاہیے کہ اب ہمیں صنعتی ترقی یا اس سے متعلقہ علوم کا مخالف ہو جانا چاہیے ۔صنعتی اور سائنسی علوم کی ترقی کی مخالفت کا کوئی جواز تلاش نہیں کیا جاسکتا مگر ترقی کا ہر جواز اس صورت میں زیادہ پائیدار لگے گا اگر اس کے ساتھ چند لوگوں کے زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے مفادات کی بجائے تمام بنی نوع انسان کی بھلائی کا مقصد جوڑ دیا جائے۔
اصل میں یہاں صنعت کے ساتھ ساتھ دوسرے علوم میں جو ترقی ہوئی اس کا محرک یہ جذبہ کبھی بھی نہیں رہا کہ اس سے تمام بنی نوع انسان کی بھلائی ہو بلکہ اس کے برعکس درپردہ مقاصد منافع کا حصول، اثاثوں میں اضافہ اور دوسروں کے وسائل پر قبضہ رہے۔ جب صنعتی یا دوسرے علوم کی ترقی کے پس پردہ اس طرح کے مفادات تھے تو پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ اس بات کو مد نظر رکھا جاتا کہ اس شتر بے مہار صنعتی ترقی کے ماحول اور زمین پر موجود زندگی پر کیا منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔کاش کہ سائنسی تحقیق کے لیے سرمایہ کاری کرنے والے اپنے نفع و نقصان کا حساب لگاتے وقت کہیں یہ بھی اخذ کر لیتے کہ ان کی ترقی کے زمین کے متوازن ماحول پر کیا مضر اثرات ہوں گے تو ہو سکتا ہے کہ سائنسی ترقی کی رفتار شایدکم ہو جاتی لیکن زمین پر زندگی کی بقا کو وہ خطرات لاحق نہ ہوتے جو اس وقت ظاہر ہو چکے ہیں۔
منافع کے حصول کی سائنس نے ماحول کے بگاڑ کی نشاندہی کرنے والی سائنسی دریافتوں کو کس طرح نظر انداز کیا اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعض سائنسدانوں نے انیسویں صدی کے آخر میں گرین ہائوس افیکٹ یا
گلوبل وارمنگ کی نشاندہی کرتے ہوئے انکشاف کر دیا تھا کہ صنعتوں میں معدنی تیل اور کوئلے کے استعمال کے نتیجے میں قدرتی ماحول کا توازن بگڑنا شروع ہو گیا ہے مگر اس طرح تحقیق کو مناسب وقت پر منظر عام پر نہیں آنے دیا گیا۔ اس کے بعد جب 1980 کی دہائی کے آخر اور 1990 کی دہائی کے آغاز میں گلوبل وارمنگ کے اثرات نمایاں طور پر ظاہر ہونا شروع ہوئے تو پھر اقوام متحدہ کے تحت ان اثرات کا جائزہ لینے کے لیے دنیا کے دو ہزار سے زیادہ نمایاں سائنسدانوں کا ایک پینل بنایا گیا جس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگر گلوبل وارمنگ میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو افریقہ اور لاطینی امریکہ کی آبادی کا اکثریتی حصہ اس پانی سے محروم ہونا شروع ہو جائے گا جو انہیں صدیوں سے قدرتی طور پر حاصل ہے۔
اس سلسلے میں یہ بھی کہا گیا کہ حالات اگر جوں کے توں رہے تو اکیسویں صدی کے وسط تک ایشیا کے ایک ارب سے زائد انسانوں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ پیش گوئی بھی کی گئی کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے زرعی پیدا وار کا معیار اس حد تک گر سکتا ہے کہ اس کے استعمال سے بیماریوں کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو جائے۔ دنیا میں موجود درختوں کے ذخیرے کم اور چھوٹے بڑے گلیشیئر ختم ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ پسماندہ ، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں بتدریج قحط پھیلے مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دنیا کا کوئی ملک یا خطہ اس سے محفوظ رہ پائے گا۔
فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی گلوبل وارمنگ کا بھیانک خاکہ سامنے آنے کے بعد ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہونا لازمی ہے کہ پاکستان پر اس کے کیا خاص اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ فضا میں موجود آلودگی میں پاکستان کا جو بھی حصہ ہے مگر سطح زمین پر اس کے خطرناک پاکستان کے لیے بھی وہی ہیں جو دنیا کے دوسرے ملکوں کے لیے ہیں۔گلوبل وارمنگ پاکستان جیسے ملکوں کے لیے جس قسم کے خطرات کا باعث بن سکتی ہے ماہرین کا خیال ہے کہ ا ن کے لیے کوئی لانگ ٹرم حل تلاش کرنا فی الحال ممکن نہیں ۔ اس کے باوجود یہ تجویز کیا گیا ہے کہ پاکستان جیسے حالات کے حامل ملکوں کو سب سے پہلے تو برتھ کنٹرول پر توجہ دینی چاہیے اور فوری طور پر راشن بندی نظام نافذ کر کے اپنے عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ مدت کے لیے خوارک کا ذخیرہ محفوظ کر لینا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button