Editorial

توانائی بحران، اجتماعی کاوشوں کی ضرورت  

توانائی کی بچت کے لیے پنجاب کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے آج  سے بازار 9 بجے بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ شادی ہالزدس بجے، ریسٹورنٹس ساڑھے گیارہ بجے بند ہوں گے جبکہ فارمیسی، بیکری، پٹرول پمپس کو استثنیٰ ہوگا، صوبے بھر میں تمام بازار صبح جلدکھولے جائیں گے،پنجاب حکومت نےصوبے بھر میں مارکیٹیں رات نو بجے بند کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ قبل ازیں بجلی کی بچت کے لیے بڑا قدم اٹھاتے ہوئے سندھ حکومت نے صوبے بھر میں کاروباری اوقات کار تبدیل کر تے ہوئے بازار اور کاروباری سرگرمیاں رات 9 بجے بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی بجلی کی بچت کے لیے اوقات کار جاری کر دیے ہیں، نوٹیفکیشن کے مطابق اسلام آباد میں مارکیٹیں، دکانیں، گودام اور شاپنگ مالز رات نو بجے بند ہو جائیں گے۔ شادی ہالز، شادی کی تقریبات اور لائٹنگ 10 بجے تک بند کی جائیں گی۔تجارتی و صنعتی مراکز، ریسٹورنٹس، کلبز، پارک، سنیما اور تھیٹرز رات ساڑھے گیارہ بجے بند ہوں گے تاہم ایمبولینس سروس، طبی مراکز، پٹرول پمپ، بس اڈے، تندور، دودھ، دہی کی دکانیں اور سبزی منڈی پابندی سے مستثنیٰ ہوں گی۔رواں ماہ وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں ملک بھر میں توانائی کی بچت کے لیے بازار رات ساڑھے آٹھ بجے بند کر نے کا فیصلہ کیاگیا اور اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے دودن کی مہلت مانگی تاکہ صوبوں میں تجارتی وکارباری تنظیموں سے مشاورت مکمل کی جا سکے،
وزرائے اعلی نے توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کے اقدامات کو سراہا اور اس ضمن میں اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔اسی تسلسل میں چند روز قبل سندھ حکومت نے کاروباری مراکز رات بروقت بند کرنے کا اعلان کیا اور ایک روز قبل وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز سےصوبے بھر کے تاجر رہنماؤں اور نمائندوں کی ملاقات کے بعد پنجاب حکومت کی طرف سے متذکرہ اعلان سامنے آیا اور وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا  کہ عید الاضحیٰ کی شاپنگ کے لیے  کاروباری مراکز کے اوقات کار کا از سر نو جائزہ تاجر برادری کی مشاورت سے لیا جائے گا۔
بلاشبہ کاروباری برادری نے قومی مفاد کے فیصلوں پر حکومت کا ساتھ دینے کا احسن فیصلہ کیا ہے اور اِس بچت پلان پر عمل سے بجلی اور پٹرول کی بچت ہوگی کیونکہ اس وقت پٹرول اور بجلی بچانا قومی فریضہ کی صورت اختیار کرچکا ہے، اِس لیے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے ہر ممکن چارہ جوئی کرنا پڑے گی اور قوم کو اِس صورتحال میں حکومت کے ہر مشکل فیصلے پر اُس کا ساتھ بھی دینا ہوگا جبھی ہم معاشی بحران سے باہر نکل سکیں گے۔ آج وطن عزیز ایک بار پھر توانائی کے بحران کا شکار ہے، ماضی کے سنہرے دور میں ہم مستقبل کی پیش بندی کرنے سے قاصر رہے، اگر کسی نے جرأت کی تو سیاست اور مخالفت آڑے آگئی، یوں کالا باغ ڈیم سمیت کوئی ڈیم نہ بن سکا، بجلی کے سستے ذرائع ماضی میں ترجیح ہی نہ رہے،
آبادی اور انڈسٹری کی بڑھتی ضروریات کو مدنظر رکھنے کی بجائے سیاسی مفادات کو مدنظر رکھاگیا، ایک طرف ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے پانی ضائع جارہا تھا تو دوسری طرف ہماری اسی غفلت کا فائدہ بھارت اٹھاکر جگہ جگہ ڈیم تعمیرکررہا تھا، یہی وجہ ہے کہ ڈیم نہ بنانے کی وجہ سے ہم سستی بجلی سے بھی محروم ہوئے اور اب کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے بھی ہمیں ضرورت کے مطابق پانی دستیاب نہیں اور ہر سال ہمیں نماز استسقاءادا کرکے بارش مانگنا پڑتی ہے۔ سیاسی قیادت نے جب توانائی کے بحران کے نتیجے میں ملک کو اندھیروں میں ڈوبتے دیکھا تو چاروناچار بجلی گھر جیسے مہنگے منصوبے لگانے پر مجبور ہوئے اور پھر یہ رسم چل پڑی لیکن کسی نے مڑ کر نہیں دیکھا کہ اِس دوران ہمیں سستی بجلی کے حصول کے لیے ڈیم، سولر اور دیگر متبادل ذرائع کی طرف بھی جانا چاہیے۔
 پاکستان دنیا کے چند بڑے ممالک میں شامل ہے، جہاں سارا سال شمسی توانائی وافر مقدار میں مہیا ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے توانائی کے اس اہم اور سستے ذریعے سے عوام کو فائدہ پہنچانے کی سرکاری سطح پر مناسب حوصلہ افزائی نہیں کی گئی اسی لیے پن بجلی کے بعد تیل اور کوئلے سے پیدا کردہ توانائی پرانحصار کرنا پڑتا ہے، دنیا میں کہیں بھی کچھ بھی ہو ، عالمی منڈی میں کم و بیش توانائی کے ذرائع سے جڑی ہر چیز خصوصاً ایندھن مہنگا ہوجاتا ہے جس کا براہ راست اثر اُن ممالک پر پڑتا ہے جو قدرتی ذرائع سے زیادہ دوسرے ذرائع سے توانائی کے حصول پر انحصار کرتے ہیں اور بدقسمتی سے اُن میں ہم بھی شمار ہوتے ہیں اسی لیے بین الاقوامی منڈی میں تیل اور کوئلے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور روپے کی گرتی ہوئی قدر نے پاکستان کو نہ صرف ایک شدید معاشی بحران، مالیاتی خسارے اور بجلی کی کم پیداوار سے دوچار کر دیا ہے بلکہ عوام کو افراط زر کے بڑھتے ہوئے طوفان کے بھی آگے لاکھڑا کر دیا ہے۔
آج توانائی کا بحران نہ صرف ہماری معیشت کو بری طرح نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ عوام بھی شدید مشکلات کا شکار ہیںملک بھر میں طویل اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے، گھریلو اور کمرشل صارفین کو مہنگے ترین بجلی بھی دستیاب نہیں اور پھر بجلی کے نرخ بھی آئی ایم ایف کے دبائو پر بڑھائے جارہے ہیں کیونکہ موجودہ بدترین معاشی صورتحال میں حکومت سبسڈی دینے کے قابل ہی نہیں رہی۔ انڈسٹریز اورگھریلو صارفین کے لیے مہنگی بجلی بھی دستیاب نہیں اسی لیے ملک بھر میں توانائی بچت کے لیے ایسے ہنگامی اور مشکل اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں ایک بار پھر ازسرنو قومی سطح پر حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے، اگرچہ ہم اِن ستر سالوں میں عدم توجہی کے باعث ناقابل برداشت نقصان اٹھاچکے ہیں لیکن اب درست سمت منہ موڑنے کی ضرورت ہے، جبھی ہم معاشی چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے اقوام عالم میں موجود رہ پائیں گے۔ اِس لیے ہماری توانائی کی حکمت عملی میں بہت بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے ،کفایت شعاری کی مہم پر سختی سے عمل کرایا جائے اور اِس کا دائرہ وسیع کیا جائے،
پبلک ٹرانسپورٹ کا رحجان پیدا کیا جائے تاکہ سڑکوں پر رش بھی کم ہو اور ایندھن کی بھی بچت ہو، لوگوں کو بھی متبادل ذرائع کی جانب قائل کیا جائے جیسے وفاقی بجٹ میں سولر پاور کے لیے بینکوں کو قرض دینے کے لیے کہاگیا ہے تاکہ گھریلو صارفین کو لوڈ شیڈنگ سے چھٹکارا بھی ملے اور سستی بجلی بھی دستیاب ہو۔ موجودہ غیر معمولی صورتحال میں غیر معمولی فیصلے کیے جائیں اور ان پر من وعن عمل درآمد کرایا جائے، ہر پاکستانی کے لیے سمجھنا ضروری ہے کہ ہم بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں اور ڈیفالٹ ہونے کے خطرات منڈلارہے ہیں،
ہم نے ڈیفالٹ کا نام تو سنا ہے لیکن مثال سری لنکا کی موجودہ صورتحال کی دی جاسکتی ہے جہاں سکولز اور سرکاری دفاترز کو ایندھن کی بچت کے لیے بند کردیاگیا ہے، لہٰذا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ماضی کی حکومتوں کی غلطیوں کا ازالہ مستقبل کی راست پیش بندی کے ذریعے کریں تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ ہو۔ سستے ایندھن کے ذرائع پر فوراً کام شروع کیا جائے اور اس ضمن میں کوئی مصلحت خاطر میں نہ لائی جائے کہ مصلحتوں کو شکارہوکر ہم ناقابل تلافی نقصان برداشت کرچکے ہیں مگر اب مزید ایسا نقصان برداشت کرنے کی قطعی کوئی گنجائش نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button