ColumnNasir Naqvi

ایک دیوالیہ ملک .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

اس وقت سری لنکا ایسا دیوالیہ ملک ہے۔ وہاں کے مسلمانوں کو اس سال اسلام کے اہم رکن حج کی ادائیگی سے بھی روک دیا گیا ہے۔ سابق حکمران عمران خان اور ان کے گماشتے چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی حکمرانوں کا حال بھی جلد ہی سری لنکا کے حکمرانوں جیسا ہو گا۔ لوگ انہیں سڑکوں پر نہ صرف گھسیٹیں گے بلکہ غم و غصے میں ان کے کپڑے بھی اتار لیں گے کیونکہ مہنگائی اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ معاشی بحران قابومیں نہیں آرہااور وزیراعظم شہباز شریف پہلے ہی قوم کو کپڑے بیچ کر مہنگائی ختم کرنے کی یقین دہانی کرا چکے ہیں، لہٰذا سابق حکمرانوں کی خواہش ہے کہ مہنگائی ختم کرنے کے اعلان سے برسراقتدار آنے والی حکومت دو ماہ کے طویل عرصے میں اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکی۔ اس لیے عوام کو چاہیے کہ وہ گھروں سے باہر نکلے اور حکمرانوں کے کپڑے اتار کر ان کومادر پدر آزاد کردے تاکہ وہ گلی، بازار اور ہر شاہراہ پر کھڑے ہوکر تالیاں بجائیں لیکن نجانے قوم کو کیا ہو گیا ہے وہ اس طویل عرصے میں مہنگائی کے پہاڑ ٹوٹنے پر بھی سب کچھ برداشت کر رہی ہے کیوں؟

ایک طبقے کا خیال ہے کہ’’ مشکلیں پڑھیں اتنی کہ ہر مشکل آساں ہو گئیں‘‘۔ دوسرے کا کہنا ہے کہ یہ دونوں باتیں حقیقی ہونے کے باوجود اصل مسئلہ ایسے قائد کا ہے جو قوم کی رہنمائی کرے۔ سابق صدر آصف زرداری کہتے ہیں کہ ہم نے چیلنج اس لیے قبول کیا ہے کہ ہم اپنی دھرتی ماں کو بھنوراور دلدل سے مل کر نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ان خوابوں اور خواہشوں کی جنت پاکستان کا جہاز ڈوبتا نہیں دیکھ سکتے۔ حالات مشکل اس لیے ہیں کہ گزشتہ ساڑھے تین سال نالائق عمرانی حکومت نے ناتجربہ کاری اور آمرانہ انداز میں اپنے غلط فیصلوں سے ملک کودیوالیہ کر دیا ، لیکن ایسا نہیں ہو گا، مشترکہ کوشش سے اس بحران کو چلتا کریں گے۔ اگر قوم نے صبرو تحمل کا اسی طرح مظاہرہ کیا تو پھر ’’پاکستان کھپے ہی کھپے‘‘وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک مشکل بجٹ انتہائی آسانی سے اس لیے پیش کر لیا کہ پاکستان کا دیوالیہ ہونے کا خواب دیکھنے والے خان اعظم جمہوریت اور جمہوری اقدار جانتے ہی نہیں،
اگر انہیں سیاست آتی تو وہ پارلیمنٹ میں آ کر حکومت کے خلاف اپوزیشن کا منفی یا مثبت کردار ضرور ادا کرتے، وہ خوابوں کی دنیا کے شہزادے ہیں اور ہر قیمت پر کھیلن کو چاند مانگ رہے ہیں۔ ان کی ضد بچوں والی ہے جو کھلونا ملنے پر خوش اور چھن جانے پر شور مچاتا ہے۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ سلپ کا کیچ محض حادثاتی طو رپر نصیب بنتا ہے۔ ان کے کان اگر کھلے ہوں گے تو بھنک پڑ گئی ہو گی کہ مفتاح اسماعیل کا دعویٰ ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے۔ یہ صرف اور صرف حکومتی حکمت عملی ہے ورنہ حالیہ بجٹ نہ صرف آئی ایم ایف زدہ ہے بلکہ معاہدے پر صادق و امین عمرانی حکومت کے دستخط ہیں اور اب عمران خان کی خواہش ہے کہ بحران سے پریشان حکمران جہاز سے چھلانگ لگادیں۔یہ صرف دیوانے کا خواب ہے ہم قوم کو یہ خوشخبری سناتے ہیں کہ نہ ملک دیوالیہ ہوا اور نہ ہی مستقبل میں ہونے دیں گے۔ دو ماہ میں حکومت کی خودکشی کا دعویٰ کرنے والے عمران خان کے بارے میں قسمت کا حال بتانے والے بتا چکے کہ وہ مایوسی میں خودکشی کر سکتے ہیں۔
اگر ملک دیوالیہ ہونے کے حوالے سے پاکستان کے ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو ایک سے زیادہ مرتبہ یہ خدشات دیکھے جا سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہی ہے کہ اس خواہش کا اظہار پہلی بار بھارت اور اس کے حکمرانوں نے 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد ہی کر دیا تھا کیونکہ پاکستان کو تقسیم میں جو کچھ ملا وہ کسی بھی کامیاب ریاست چلانے کے لیے کم نہیں، انتہائی کم تھا۔ بھارتی رہنما گاندھی اور نہرو اس صورت حال پر پھولے نہیں سماتے تھے ان کا اندازہ تھا قائداعظم محمد علی جناح ؒاور اُن کے رفقاء اس کمزوری کا احساس کر کے چند ماہ میں ہی بھارت سے کنفیڈریشن بنانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اسی لیے انہوں نے روزِ اوّل سے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کیا اور یہ درد آج بھی بھارت کے سینے میں موجود ہے۔ یقیناً کسی بھی ملک کی خوشحالی، ترقی اور مستقبل کا اندازہ اس کی تجارت ، درآمدات اور برآمدات کے توازن سے لگایا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے آغاز پر چند ماہ میں اعدادو شمار بڑے حوصلہ افزاء تھے۔ میاں عبدالمجید کی زیر ادارت شائع ہونے والے اخبار ’’پیسہ اخبار‘‘ 24اپریل 1948ء کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان کی مالی حالت بھارت سے زیادہ اطمینان بخش تھی۔ وطن عزیز سے 22 کروڑ روپے کا مال برآمد ہوا جس میں 10کروڑ کراچی اور سات کروڑ چٹاگانگ سے غیر ممالک بھیجا گیا جبکہ 9کروڑ روپے کا مال درآمد کیا گیا۔ اس لحاظ سے یہ اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں تھا کہ پاکستان کا مالی مستقبل شاندار تھا اور یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ پاکستان کے روپے کا شمار بھی دنیا کی مضبوط ترین کرنسیوں میں ہوگا لیکن اس دوران بھی یہ پراپیگنڈا زور وشور سے جاری رہا کہ پاکستان کی مالی حالت اچھی نہیں،
یہ مستقبل کا ایک دیوالیہ ملک ثابت ہو گا۔ مطلب دشمنوں کا صرف یہی تھا کہ پاکستانی ذمہ داران گھبراکربھارتی حکمرانوں کی خواہش پر کنفیڈریشن کی راہ اپنائیں۔ ایسا نہ ہونا تھا نہ ہوا،بلکہ ہم نامساعد حالات میں بھی دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گئے، یقیناً یہ سب مالک کائنات کی دی ہوئی صلاحیتوں کا نتیجہ تھا۔ ہمارے ہاں باصلاحیت اور مثبت سوچ رکھنے والوں کی کمی ہرگز نہیں، ضرورت ہے قائداعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ اقبال مفکر پاکستان کی سوچ رکھنے والے رہنما کی۔ ہمیں پہلا منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو عوامی جدوجہد سے ملا لیکن اسے دنیا اور امریکہ بہادر نے خطرہ سمجھ کر ہمارے اپنے آمرانہ صدر ضیاء الحق کے ہاتھوں سازش کے تحت پھانسی چڑھا دیا، پھر 12سالہ آمریت کے بعد بے نظیر بھٹو جمہوری تحریک کی بدولت پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بنی تو انہیں بھی راستے سے ہٹا دیا گیا کیونکہ وہ جمہوریت کو ہی بہترین انتقام کہا کرتی تھیں۔نواز شریف کو اقتدار ملا تو ملک دیوالیہ ہونے کا شور و غوغا ایک بار پھر بلند ہوا، نواز شریف نے غیر معمولی حالات سے آگاہی دی تو قوم نے لبیک کہتے ہوئے قرض اتارو، ملک سنوارو کے نام پر اس جذبے کا اظہار کیا جس کا دنیا میں کوئی ریکارڈ نہیں،
لہٰذا وطن عزیز میں بھی اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں کہ کیا آیا اور کہاں گیا؟ دوبارہ اقتدار میں نواز شریف بھاری مینڈیٹ سے آئے لیکن ملک دیوالیہ کا راگ کسی نہ کسی شکل میں چلتا رہا، پھر زبردستی کے صدر پرویز مشرف نے نواز شریف کی ایک معصومانہ خواہش کے ردعمل میں اقتدار پر قبضہ کر لیا اور قوم نے دیکھا کہ ملک دیوالیہ ہونے کانعرہ نہ صرف سنائی نہیں دیا بلکہ خبر یہ ملی کہ بین الاقوامی سود خور ادارے آئی ایم ایف کی واجب الادا قسطیں بھی دیوالیہ ملک پاکستان شیڈول کے مطابق دینے لگا۔پھر ان سے نجات ملی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے ایک مرتبہ پھر باریاں لیں، 2018ء کے الیکشن میں تبدیلی سرکارکی شکل میں عمران خان تیسرے اقتدار ہولڈر بنے، ڈاکوئوں ، چوروں اور لٹیروں کے اعزازات سابق حکمرانوں کو دئیے گئے ۔ احتساب کے نعرے کو پذیرائی ملی لیکن ’’ضرب، جمع، تقسیم‘‘ کے فارمولے کڑے احتساب کے نام پر آزمائے گئے پھر حاصل ضرب کچھ نہیں نکلا، اپوزیشن کے تمام رہنمائوں نے پکڑ، جھکڑ اور دھکڑ کا امتحان بھی دیا۔ نیب بھی بڑی سرگرم رہی لیکن تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور ملک ایک بار پھر دیوالیہ ہوتا دکھائی دینے لگا، موجودہ حکمران اس کا ملبہ ’’خان اعظم‘‘ کے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار پر ڈالتے ہیں جبکہ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ یہ سب کیا دھرا مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا ہے جنہوں نے وطن عزیز اور قومی خزانے کو لوٹ کر صرف اپنے اثاثوں میں اضافہ کیا، لیکن لمحۂ موجود میں اس کرپشن کے گندے تالاب میں توشہ خانے اور فارن کرنسی اکائونٹ ہی نہیں، پارلیمنٹ سے بے رخی پر عمران خان بھی بچتے نظر نہیں آرہے۔
پاکستان غریب ملک ضرور ہے تمام حکمرانوں نے حسب توفیق اسے جائز و ناجائز قرضوں میں بھی جکڑنے میں بھرپور مدد کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر پاکستان پیدائشی طور پر مقروض پیدا ہوتا ہے اور حکمرانوں کے بچے وطن سے دور مجبوراً پل بڑھ رہے ہیںاور غریب کا بچہ تعلیم و تربیت سے دور صرف اس لیے ہے کہ فی کس آمدنی اتنی نہیں کہ اخراجات پورے کئے جا سکیں اور مہنگائی کا جن بھی گلا گھونٹ رہا ہے۔ پھر بھی اچھی خبر یہی ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے مشکل ترین حالات میں بچ گیا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ درآمدات پر پابندی اور بھاری ٹیکس کے ساتھ وسائل بڑھا کر برآمدات پر توجہ دی جائے، پُرامن ماحول کے ساتھ صنعت و تجارت کے لیے سازگار ماحول بنایا جائے تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے دروازے کھل جائیں اور خارجی محاذ پر اس انداز میں کام کیا جائے کہ دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ پاکستان دیوالیہ ملک نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button